قلعہ سیف اللہ وین حادثہ: ’لاشیں ہاتھوں سے اوپر پہنچائیں‘

لورالائی سے ژوب جانے والی وین کو پہاڑی علاقے ادولہ میں حادثہ پیش آیا۔ ڈپٹی کمشنر قلعہ سیف اللہ حافظ قاسم کاکڑ نے حادثے میں 22 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

قلعہ سیف اللہ میں 8 جون 2022 کو ایک مسافر وین پہاڑی علاقے ادولہ میں ایک گہری کھائی میں جا گری (تصویر: شمشاد اختر)

بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ میں حکام نے بتایا ہے کہ اخترزئی کے علاقے میں بدھ کو ایک مسافر وین گہری کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے نو افراد سمیت 22 افراد ہلاک اور ایک بچہ زخمی ہوگیا۔

ڈپٹی کمشنر قلعہ سیف اللہ حافظ قاسم کاکڑ نے مقامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے 22 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ وین میں کل 23 افراد سوار تھے۔

یہ وین لورالائی سے ژوب جارہی تھی۔ صبح سفر پر روانہ ہونے والی یہ گاڑی جب قلعہ سیف اللہ کے علاقے میں پہنچی تو اس نے مرکزی شاہراہ کے بجائے ایک کم فاصلے کے راستے کا انتخاب کیا۔

قلعہ سیف اللہ کے علاقے اخترزئی میں وین جب 10 بجے کے قریب پہنچی تو پہاڑی علاقے ادولہ میں ایک گہری کھائی میں جا گری۔

ریسکیو کا کام کرنے والے ایدھی کے رضاکاروں نے بڑی جدوجہد کے بعد لاشوں کو ایک ایک کرکے نکالنے کا کام شروع کیا۔ پہاڑی علاقہ ہونے اور کھائی کے باعث اس کام میں انہیں کئی گھنٹے لگے۔

علاقے میں ریسکیو کے کام میں مدد کرنے والے سماجی کارکن شمشاد اختر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وین انتہائی گہری کھائی میں جاگری۔ ’اگر پہاڑ کے اوپر سے دیکھا جائے تو وین نظر نہیں آئے گی۔‘

انہوں نے بتایا کہ جب ہمیں اطلاع ملی تو علاقے کے نوجوان اور سماجی ورکر وہاں پہنچے اور دیکھا کہ وین بہت نیچے ایک کھائی میں جا گری ہے۔

شمشاد کے مطابق: ’وین کی حالت دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ حادثہ بڑا ہے۔ مشکل صورت حال یہ تھی کہ یہ پہاڑ بہت اونچا تھا اور نیچے اترنے کا کوئی باقاعدہ راستہ بھی نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دیگر مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام شروع کیا۔ گاڑی اور ایمبولینس نیچے نہ پہنچنے کے باعث مقامی لوگوں اور انہوں نے خود لاشوں کو ہاتھوں کے ذریعے اوپر تک پہنچایا۔

شمشاد کا مزید کہنا تھا کہ لاشوں کو اوپر لانے میں اس وجہ سے تاخیر ہوئی اور کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد لاشوں کو ایک ایک کرکے نکالنے میں کامیاب رہے۔

انہوں نے بتایا کہ حادثے کی شدت کا اندازہ لاشوں کی حالت دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے، جن کے چہرے، سر اور جسم کے دیگر حصوں پر شدید چوٹیں لگی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں خواتین، بچے، نوجوان اور بوڑھے افراد بھی شامل ہیں۔ 

شمشاد اختر نے بتایا کہ اس راستے سے وین کے جانے کی وجہ یہ تھی کہ لورالائی اور ژوب کے درمیان راستہ خراب تھا، جس کے باعث بعض ڈرائیور اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ راستہ دوسرے سے کم فاصلے کا ہے، جس کے باعث یہ ڈیرہ غازی خان کے راستے پر پہنچتا ہے، جہاں سے وہ ژوب کی طرف جاتا ہے۔

واقعے کی اطلاع ملنے پر ڈپٹی کمشنر قلعہ سیف اللہ حافظ قاسم کاکڑ نے فوری امدادی کارروائیاں شروع کردیں، جس میں لیویز اور ریسکیو اہلکاروں نے حصہ لیا۔

 ڈپٹی کمشنر نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ حادثے میں وین کا ڈرائیور بھی ہلاک ہوا جبکہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ وین قلابازیاں کھاتے ہوئے کھائی میں جا گری، جس کے باعث وہ بری طرح تباہ ہوچکی ہے جبکہ دشوار گزار پہاڑی علاقے ہونے کے باعث تمام لاشوں کو نکالنے میں وقت لگا۔ 

وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے ٹریفک حادثے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو ایمرجنسی نافذ کرکے امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کی ہدایت کی۔

 ڈپٹی کمشنر نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ ضروری کارروائی کے بعد لاشوں کو ورثا کے حوالے کیا جائے گا، جنہیں آبائی علاقوں کو منتقل کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ سہولت فراہم کرے گی۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ویڈیوز میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جائے حادثہ پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ لاشوں کو بڑی چادروں کے اندر ڈال کر بڑی مشکل سے کھائی سے اوپر لایا جارہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 شمشاد اختر نے بتایا کہ علاقہ دشوار گزار ہونے کے باعث لاشوں کو نکالنے میں ساڑھے تین گھنٹے لگے اور اس وقت لاشوں اور ایک زخمی کو ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

بلوچستان میں دشوار گزار راستے اور سہولیاتی مراکز فاصلے پر ہونے کی وجہ سے ٹریفک حادثات اور ہلاکتوں کی تعداد اکثر اوقات بڑھ جاتی ہے۔

اعداد وشمار جمع کرنے والے غیر سرکاری ادارے بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی کے مطابق 2021 میں بلوچستان میں 955 حادثات میں 106 افراد ہلاک اور 1446 زخمی ہوئے۔

ٹریفک حادثات اکثر قومی شاہراہوں پر ہوتے ہیں۔ جن میں کوئٹہ، کراچی شاہراہ بھی شامل ہے۔ سماجی کارکنوں کا ایک مطالبہ اس شاہراہ کو چار لائن والی سڑک بنانے کا بھی رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان