صدام سے داعش تک: عراق میں اجتماعی قبروں کی جانچ اب بھی جاری

انٹرنیشنل کمیٹی آف دا ریڈ کراس کے مطابق کئی دہائیوں کے تشدد نے عراق کو دنیا میں سب سے زیادہ لاپتہ افراد کی تعداد والا ملک بنا دیا ہے۔

زمین کھودنے کی مشین کی تیز آواز کچھ تھمتی ہے تو ایک اور اجتماعی قبر نظر آتی ہے۔ انسانی باقیات کو نکالا جاتا ہے اور فورینسک ماہرین اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

مٹی سے ایک کھوپڑی نکالی جاتی ہے، پنڈلی کی ہڈی باڈی بیگ میں ڈالی جاتی ہے۔ اس سامان کی منزل ایک لیباٹری ہے جہاں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں سے لیے گئے خون کے نمونوں سے ان باقیات کی جانچ کی جانی ہے۔

مزارات کے شہر نجف کے قریب واقع یہ اجتماعی قبر کی سائٹ کئی ایسے مقامات میں سے ایک ہے، جو چار دہائیوں سے تنازعوں اور عدم استحکام میں گھرے اس ملک میں پائے جاتے ہیں۔   

فوجی آمر صدام حسین نے ایران کے ساتھ 1980 سے 1988 تک جنگ لڑی۔ اس کے بعد کویت پر 1991 کی خلیجی جنگ ہوئی اور پھر 2003 میں امریکی حملہ۔ اس دوران فرقہ وارانہ خون خرابہ اور پھر 2017 تک داعش کا خونی راج۔

 انٹرنیشنل کمیٹی آف دا ریڈ کراس کے مطابق کئی دہائیوں کے تشدد نے عراق کو دنیا میں سب سے زیادہ لاپتہ افراد کی تعداد والا ملک بنا دیا ہے۔

نجف میں 1500 سکوئر میٹر کے رقبے کے پلاٹ پر کھدائی کا کام مئی میں شروع ہوا تاکہ 1991 میں صدام حسین کے خلاف بغاوت میں مارے گئے سو افراد کی ہڈیوں کو زمین سے نکالا جائے۔

یہ اجتمائی قبر تب دریافت ہوئی جب پراپرٹی ڈیولپرز نے اس زمین کو تعمیر کے لیے تیار کرنے کا کام شروع کیا۔

’ہم انتظار کرتے رہے، وہ نہیں آیا‘

انتصار محمد کو اپنے خون کا نمونہ دینے کے لیے بلایا گیا تھا کیونکہ حکام کو شبہ تھا کہ اس اجتماعی قبر میں ان کے بھائی کی باقیات تھیں۔

حامد 1980 میں صدام حسین کے سخت دور حکومت میں لاپتہ ہوئے تھے۔

اس وقت انتصار اور باقی خاندان ہمسایہ ملک شام منتقل ہوگئے تھے مگر حامد اپنی تعلیم کے لیے عراق میں ہی رہے اور انہوں نے بعد میں اپنے خاندان کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔

آبدیدہ انتصار نے کہا: ’ہم انتظار کرتے رہے، مگر وہ کبھی نہیں آیا۔‘

غم زدہ بہن کے مطابق حامد کو اغوا کیا گیا تھا اور ’پھر کبھی اس سے رابطہ نہیں ہوا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم انتصار، جو 2011 میں عراق واپس آئیں، پر امید ہیں کہ انہیں اپنے بھائی کے بارے میں اور کچھ جاننے کو ملے گا۔

نجف میں محکمہ فورینسک میڈیسن میں ٹیکنیشن وسام راضی کے مطابق انتصار کے ڈی این اے کا موازنہ اس اجتماعی قبر میں ملنے والی ہڈیوں سے کیا جائے گا۔

اس طرح کی جانچ پڑتال میں سالوں لگ جاتے ہیں اور اس دوران اکثر ورثہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے جن کی شکایت ہوتی ہے کہ وہ ایسا محسوس کرتے ہیں کہ جیسے انہیں چھوڑ دیا گیا ہو۔

اجتماعی قبروں کو مینج کرنے کے ریاستی ادارے شہدا فاؤنڈیشن کے سربراہ ضرغام كامل کہتے ہیں کہ ایک اجتماعی قبر کو کھولنا مشکل کام ہے اور سب سے بڑی رکاوٹ مالیاتی ہوتی ہے۔

ان کے مطابق ایک اور ریاستی ادارے، ڈائریکٹریٹ فار دا پروٹیکشن آف ماس گریوز، کو 2016 اور 2021 کے درمیان ’حکومت سے کوئی فنڈنگ نہیں ملی۔‘

عراق میں مرکزی نظام ہونے کی وجہ سے جینیاتی موازنہ کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ایسا صرف دارالحکومت بغداد میں کیا جاتا ہے۔

داعش کے سابقہ گڑھ موصل اور شمالی عراق میں دیگر جگہوں میں فورینسک سائنس دان  شدت پسندوں کی چھوڑی گئی 200 کے قربیب اجتماعی قبروں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر پیش رف سست رہی ہے۔

شمالی صوبے نینوا میں فورینسک میڈیس کے ڈائریکٹر حسن العنزی نے مطالبہ کر رکھا ہے کہ ملک کے لاپتہ افراد کی ڈیٹا بیس میں خطے میں داعش کے بھینٹ چڑھنے والوں کو بھی شامل کیا جائے، مگر اب تک ایسا نہیں ہو سکا ہے۔

انہوں نے کہا: ’لاپتہ افراد ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ ہر روز 30 خاندان اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کے لیے ہمارے پاس آتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود ’سیاسی قوت ارادی کے فقدان کی وجہ سے‘ موصل میں الخسفہ میں اجتماعی قبر، جو سب سے بڑی اجتماعی قبروں میں سے ایک ہے، اب تک نہیں کھولی جا سکی ہے۔

ان کے مطابق اس میں داعش کے ہاتھوں مارے گئے چار ہزار کے قریب افراد دفن ہیں، جن میں افسران، ڈاکٹر اور اساتذہ شامل ہیں۔

موصل سے تعلق رکھنے والی ام احمد اپنے بیٹوں کے بارے میں معلومات کی منتظر ہیں، پولیس افسران احمد اور فارس جنہیں داعش نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد اغوا کیا تھا۔

انہوں نے بتایا: ’میں نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں بغداد تک گئی مگر کوئی جواب نہیں ملا۔‘

لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات نہ ہونا ایک مالی مسئلہ بھی ہے۔جب تک ایک لاپتہ شخص کی باقیات نہیں مل جاتیں اور ان کی شناخت کا تعین نہیں ہوجاتا تب تک رشتہ داروں کو ریاست سے معاوضہ نہیں مل سکتا۔

داعش کا نشانہ بننے والے اکثر افراد باپ، بھائی اور بیٹے ہوتے ہیں جو گھروں کے کفیل ہوتے ہیں۔

خاندانوں کی مدد کرنے کے لیے داليا المعمارى نے موصل میں دا ہیومن لائن ایسوسی ایشن بنائی ہے جو انہیں معاوضہ حاصل کرنے کے حوالے سے تجویز کرتی ہے۔

انہوں نے کہا: ’حکومت بہت سست ہے۔ اکثر وہ بس ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ ’آپ کے بچے مر گئے ہیں، خدا ان پر رحم کرے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا