پنجاب: ایک بجٹ کے لیے دو اجلاس

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے کل بروز بدھ کو تین بجے ایوان اقبال میں اکتالیسواں اجلا س طلب کرلیا ہے اگر وہاں سپیکر آئے تو ان کی، ورنہ ڈپٹی سپیکر کی زیر صدارت اجلاس میں بجٹ پاس ہوگا۔

پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب میں مالی سال 23-2022 کا بجٹ پیش کرنے کا معاملہ دوسرے روز یعنی منگل کو بھی تعطل کا شکار رہا اور اب اس حوالے سے بدھ کو دو اجلاس ہوں گے۔

حکومت اور اپوزیشن میں چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب کی ایوان میں حاضری کے معاملے پر ڈیڈ لاک پیدا ہوا تھا، جو دوسرے روز بھی جاری رہا۔

سپیکر کے اختیارات سلب: اسمبلی ایک، اجلاس دو ہوں گے

مسلم لیگ ن کے رہنما مجتبی شجاع الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں سپیکر کے اختیارات سلب کرلیے گئے ہیں۔ ’کیونکہ وہ (سپیکر) آئینی کردار ادا کرنے کے بجائے غنڈہ گردی پر اتر آئے ہیں۔‘

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے کل بروز بدھ کو تین بجے ایوان اقبال میں اکتالیسواں اجلا س طلب کرلیا ہے اگر وہاں سپیکر آئے تو ان کی، ورنہ ڈپٹی سپیکر کی زیر صدارت اجلاس میں بجٹ پاس ہوگا۔

دوسری جانب اپوزیشن رہنما میاں محمود الرشید کا کہنا ہے کہ حکومت نے غیر قانونی اجلاس بلایا ہے کیونکہ سپیکر نے چالیسواں اجلاس کل بدھ کو ایک بجے تک ملتوی کیا ہے۔

’ہم اس اجلاس میں آئیں گے ایوان اقبال میں قانونی طور پر اجلاس نہیں بلایا جاسکتا اس بجٹ کو تسلیم نہیں کریں گے۔‘

اس سے قبل حکومت کی جانب سے قانونی ماہرین سے مشاورت کی گئی کہ کس طرح سے بجٹ پاس کرایا جاسکتا ہے۔

 مسلم لیگ ن کے ایم پی اے میاں نصیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’کئی طریقوں پر غور کیا جارہا ہے کہ کیا عدالت سےرجوع کر کے بجٹ پاس کرایا جائے یا کابینہ سے پاس ہونے کے بعد بجٹ پر عمل درآمد کا کوئی انتظامی حل نکالا جائے تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا۔‘

دوسری جانب اپوزیشن لیڈر سبطین خان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ آئینی طور پر سپیکر جب چاہے چیف سیکریٹری اور آئی جی کو طلب کر سکتا ہے۔

ان کے مطابق: ’حکومت نے انا کا مسئلہ بنا کر معاملات خراب کیے۔ ہمیں بھی صوبے کے عوام کی مشکلات کا اندازہ ہے ہم بجٹ نہیں روکنا چاہتے مگر حکومت تعاون نہ کر کے مسائل کا سبب بن رہی ہے۔ اگر غیر آئینی طریقہ سے بجٹ پاس کرانے کی کوشش ہوئی تو بھر پور قانونی مزاحمت کریں گے۔‘

ایوان کی صورت حال:

پنجاب اسمبلی کا گذشتہ روز 13 جون کو شروع ہونے والا بجٹ اجلاس سپیکر نے رات گئے بے نتیجہ ملتوی کردیا تھا اور ڈیڈ لاک برقرار رہا۔ آج ایک بجے اجلاس کا ٹائم دیا گیا تھا مگر کئی گھنٹے بعد بھی شروع نہ ہونے پر اراکین بھی غیر یقینی صورت حال کا شکار رہے۔

حکومتی اور اپوزیشن کے بیشتر اراکین ایک بجے سے ہی اسمبلی پہنچ گئے وزیر اعلی پنجاب بھی تین بجے کے قریب اسمبلی پہنچے اور کچھ دیر بعد ہی واپس چلے گئے۔

جبکہ دیکر ممبران بھی کبھی ایوان میں باتوں میں مصروف رہے کبھی باہر گھومتے پھرتے دکھائی دیے مگر کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ بجٹ اجلاس آج کس وقت شروع ہونا ہے اور کیا بجٹ پاس ہونا بھی ہے یا نہیں۔

 

پیر کو بلائے گئے بجٹ اجلاس کے دوران پہلے اپوزیشن نے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت سے صوبائی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اور لانگ مارچ میں اراکین، پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں پر بنائے گئے مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کیا، جو مان لیا گیا مگر پھر سپیکر چوہدری پرویز الہٰی  نے صوبائی وزیر داخلہ کو رکن اسمبلی نہ ہونے پر سکیورٹی اہلکاروں کے ذریعے ایوان سے نکالنے کا حکم دے ڈالا۔

کئی گھنٹے اجلاس تعطل کا شکار رہنے کے بعد جب صوبائی وزیر داخلہ باہر گئے تو سپیکر نے نئی شرط عائد کر دی کہ بجٹ اجلاس کے دوران چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کا اسمبلی میں موجود ہونا روایت ہے، لہٰذا انہیں بلایا جائے۔

اس معاملے پر رات گئے تک ڈیڈ لاک رہا۔ بالآخر سپیکر نے اجلاس آج بروز منگل دن ایک بجے تک ملتوی کر دیا تھا اور حکومت کو بجٹ پیش کرنے کی اجازت نہ دی۔

حکومت نے بجٹ پیش کرنے کی ذمہ داری اویس لغاری کو سونپی تھی جنہوں نے بجٹ تقریر تیار کر کے اس کی کاپیاں میڈیا میں تقسیم کروائیں مگر وہ بجٹ تقریر نہ کرسکے کیونکہ بجٹ پیش ہونے کے بعد یہ تقریر وہ بطور صوبائی وزیر خزانہ کرتے۔

میڈیا کو فراہم کی گئی تفصیل کے مطابق بجٹ تقریر میں وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں منظور کردہ بجٹ تجاویز شامل ہیں۔

مزید پڑھیے: حمزہ شہباز کی کارکردگی کا موازنہ بزدار یا شہباز شریف سے؟

وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے گذشتہ روز اجلاس ملتوی ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ آج 12 کروڑ عوام انتظار میں تھی کہ بجٹ میں کیا ہے۔

’ہم نے آج بجٹ پیش کرنا تھا۔ بجٹ تقریر کے علاوہ کچھ نہیں ہونا تھا۔ سپیکر آئین کو پامال کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ہر آئینی قانونی رستہ اپنائیں گے۔ یہ صوبے کے عوام کو بجٹ سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔‘

 

انہوں نے کہا کہ اپنی جان پر حملہ کروانے والے شخص کے سامنے آئی جی اور چیف سیکرٹری کو کیوں پیش کریں۔

’قوم نے کیمرے سے دیکھا کہ پنجاب کے ایوان میں ڈپٹی سپیکر پر آئینی کردار نبھانے پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔ ’ہم ہر صورت آئینی ریلیف والا بجٹ پیش کریں گے۔‘

دوسری جانب اپوزیشن لیڈر سبطین خان نے کہا کہ حکومت کی ہٹ دھرمی سے بجٹ پیش نہیں ہو سکا۔

یہ بھی پڑھیے: پنجاب اسمبلی ’کسی حملے سے بچنے کی خاطر‘ نوگو ایریا

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب آئیں اور ایوان میں جواب دیں۔‘

اس صورت حال میں آج بجٹ پیش ہوتا ہے یا نہیں، اس بارے میں حکومت یا اپوزیشن حتمی طور یقین دہانی کروانے کو تیار نہیں۔

بجٹ تجاویز:

بجٹ دستاویز کے مطابق پنجاب کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کا مجموعی حجم 3,226 ارب روپے تجویز کیا جا رہا ہے۔

ترقیاتی پروگرام کے لیے 22 فیصد اضافے کے ساتھ 685 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں جبکہ کُل آمدن کا تخمینہ 2,521 ارب 29 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔

وفاقی قابل تقسیم محاصل سے پنجاب کو 2,020 ارب 74 کروڑ روپے آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

صوبائی محصولات کی مد میں پچھلے سال سے 24 فیصد اضافے کے ساتھ 500 ارب 53 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

پنجاب ریونیو اتھارٹی کا ہدف 22 فیصد اضافے کے ساتھ 190 ارب روپے، بورڈ آف ریونیو کا ہدف 44 فیصد اضافے کے ساتھ 95 ارب روپے، محکمہ ایکسائز سے دو فیصد اضافے کے ساتھ 43 ارب 50 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔

نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 24 فیصد اضافے کے ساتھ 163 ارب 53 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

آئندہ مالی سال میں 435 ارب 87 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں رکھے گئے ہیں جبکہ پینشن کی مد میں 312 ارب روپے اور مقامی حکومتوں کے لیے 528 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں685 ارب روپے ترقیاتی پروگرام کے لیے تجویز کیے گئے ہیں۔

ترقیاتی بجٹ کا 40 فیصد سوشل سیکٹر، 24 فیصد انفراسٹرکچر، چھ فیصد پروڈکشن سیکٹر اور دو فیصد سروسز سیکٹر پر مشتمل ہے۔

ترقیاتی بجٹ میں دیگر پروگرامز اور خصوصی اقدامات کے لیے 28 فیصد فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ میں پہلے سے جاری سکیموں کے لیے 365 ارب روپے مختص ہوئے ہیں۔

اسی طرح نئی سکیموں کے لیے 234 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔

41  ارب روپے دیگر ترقیاتی سکیموں کی مد میں مختص کیے جا رہے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی مد میں 45 ارب روپے مختص ہوئے ہیں۔

مجموعی بجٹ میں شعبہ صحت پر 485 ارب 26 کروڑ روپے مختص جبکہ 10 فیصد اضافی فنڈز بھی دستیاب ہوں گے۔

اسی طرح شعبہ تعلیم کے لیے مختص مجموعی بجٹ میں 428 ارب 56 کروڑ روپے تجویز کیے جا رہے ہیں۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 1,712 ارب روپے جاری اخراجات کی مد میں رکھے جا رہے ہیں جو پچھلے سال سے 20 فیصد زیادہ ہیں۔

حکومت نے وزیر اعلیٰ عوامی سہولت پیکج کے تحت 200 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔

نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 24 فیصد اضافے کے ساتھ 163 ارب 51 کروڑ روپے کا تخمنہ لگایا گیا ہے۔

435 ارب 87 کروڑ روپے تنخواہوں جبکہ 312 ارب روپے پینش میں ادا ہوں گے۔ 528  ارب روپے مقامی حکومتوں کے  لیے مختص کیے گئے ہیں۔

شہری علاقوں میں سٹامپ ڈیوٹی کی شر ح کو ایک فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ برقی گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ٹوکن ٹیکس کی مد میں 95 فیصد رعایت کو جاری رکھا جا رہا ہے۔

موٹر گاڑیوں کے پر کشش نمبروں کی نیلامی کے لیے نظرثانی شدہ e-Auction پالیسی کا اجرا بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔ پنجاب فنانس ایکٹ 2014 کے تحت پُرتعیش گھروں پر عائد کردہ لگژری ہاﺅس ٹیکس کے شیڈول میں بلحاظ رقبہ نئے ریٹ متعارف کروائے جا رہے ہیں۔

ٹیکس دہندگان کی سہولت کے لیے آئندہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پراپرٹی ٹیکس اور ٹوکن ٹیکس کی یکمشت ادائیگی پر بالترتیب 5 فیصد اور 10 فیصد رعایت جاری رکھی جا رہی ہے۔ مزیدبرآںe-Pay کے ذریعے آن لائن ادائیگی پر صارف کو پانچ فیصد مزید رعایت جاری رکھی جائے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان