پنجاب اسمبلی ’کسی حملے سے بچنے کی خاطر‘ نوگو ایریا

پولیس کی بھاری نفری کو بھی اسمبلی کے گیٹ، اندر اور اطراف میں تعینات کردیا گیا اور پولیس نے اسمبلی کو چاروں اطراف سے گھیرے رکھا اور کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ملی۔

پنجاب اسمبلی کے باہر چیئرنگ کراس پر پولیس کی جانب سے لگائی گئی رکاوٹیں (تصویر: فاطمہ علی)

پنجاب اسمبلی بدھ کو ایک نو گو ایریا کا منظر پیش کرتی رہی۔ اسمبلی کی طرف آنے والے  راستے خاردار تاریں لگا کر بند کر دیے گئے تھے جبکہ اسمبلی کا مرکزی دروازہ بھی بند کر دیا گیا اور اس پر بھی خاردار تاریں لگا دی گئیں۔

پولیس کی بھاری نفری کو بھی اسمبلی کے گیٹ، اندر اور اطراف میں تعینات کردیا گیا اور پولیس نے اسمبلی کو چاروں اطراف سے گھیرے رکھا اور کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ملی۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے کسی قلعے کو حملے سے بچانے کی تیاری کی جارہی ہو۔

 میرے ساتھ وہاں موجود کچھ سینیئر صحافیوں کا کہنا تھا کہ وہ ایسے مناظر پہلے بھی دیکھ چکے ہیں جب مشرف دور میں چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے، اور اسی طرح کے اقدامات شہباز شریف کی پہلی مرتبہ لندن سے لاہور واپسی اور آصف زرداری کی اپنی رہائی کے بعد دبئی سے واپسی کے مواقع پر دیکھنے کو ملے تھے۔ تب سیاسی کارکنوں اور ایم پی ایز کے لیے لاہور کے بہت سے علاقے نو گو ایریاز بنادیے گئے تھے جس میں مرکزی مال روڈ بھی شامل تھی۔ 

ان سینیئر صحافیوں کے مطابق اب بھی یوں لگتا ہے کہ جیسے پرویز الٰہی، جو سپیکر اسمبلی ہیں اور وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں، اپنے پرانے تجربات کی روشنی میں پنجاب کی انتظامیہ کو بھرپور طریقے سے کنٹرول کر رہے ہیں، جیسے کہ وہ وزیر اعلٰی تو ابھی بنے نہیں لیکن ان کے اختیارات استعمال کر رہے ہوں۔ 

قصہ کچھ یوں ہے کہ منگل کی شام ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے پہلے چھ اپریل کو ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کو 16 اپریل کو بلانے کا اعلامیہ جاری کیا اور پھر رات گئے اجلاس کی تاریخ کو پھر تبدیل کر کے چھ اپریل کر کے نوٹفیکیشن جاری کر دیا۔ چھ اپریل کی صبح مسلم لیگ ق نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے کیے گئے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔

بس اسی گو مگو میں سارا دن میڈیا بھی خوار ہوا اور اسمبلی آنے والے اراکین بھی۔ ویسے تو ہم رپورٹرز یہ سوچ کر بیٹھے تھے کہ اسمبلی کا اجلاس شام ساڑھے سات بجے ہے تو اجلاس سے کچھ وقت پہلے اسمبلی پہنچ جائیں گے تاکہ کارروائی رپورٹ کر سکیں۔ مگر جب ڈپٹی سپیکر کا فیصلہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ اسمبلی سیکرٹیریٹ سے کوئی گزٹ نوٹفیکیشن جاری نہیں ہوا اس لیے اجلاس چھ تاریخ کو نہیں ہو سکتا، تو سبھی صحافیوں نے فوری اسمبلی کا رخ کیا۔

دن کے آغاز پر تو ہم لوگ اسمبلی احاطے میں تھے مگر پھر معلوم ہوا کہ میڈیا کو اسمبلی کے اندر یا پریس گیلری میں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ اس سے پہلے بھی جب گذشتہ ہفتے اجلاس ہوا تھا تب بھی میڈیا کو صرف پریس گیلری تک جانے کی اجازت ملی تھی بلکہ اس روز تو کچھ صحافیوں کی اس بات پر وہاں موجود وزرا سے تو تو میں میں بھی ہوئی۔

تاہم بدھ کو تو پریس گیلری میں جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی بلکہ کچھ دیر بعد ہی اسمبلی کے سکیورٹی گارڈز نے میڈیا کو اسمبلی کے احاطے سے بھی باہر نکال دیا۔ گارڈز کا کہنا تھا کہ انہیں سپیکر اسمبلی کی جانب سے ہدایات جاری ہوئی ہیں کہ اسمبلی میں کسی کو داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ 

 آج جب متحدہ اپوزیشن کے اراکین خواجہ سلمان رفیق اور سمیع اللہ خان کی قیادت میں اسمبلی پہنچے تو ان کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور اسمبلی کے مرکزی دروازے کو اندر سے تالے لگا کر اس پر خاردار تاریں لگا دی گئیں، جس پر انہوں نے بھی شدید غم وغصے کا اظہار کیا۔ 

آج صرف چوہدری پرویز الٰہی وہ شخص تھے جو اپنے چند ساتھیوں سمیت اسمبلی کے اندر گئے اور وہاں کچھ اہم ملاقاتیں کیں جس کے بعد ڈپٹی سپیکر اسمبلی دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نوٹفیکیشن جاری کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ تحریک عدم اعتماد صبح کے وقت ہی اسمبلی سیکرٹیریٹ میں جمع کروا دی گئی تھی اور جب سیکرٹیریٹ نے اسے جاری کیا تو اس پر سات اراکین کے دستخط تھے۔ 

اس صورت حال پر مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی جانب سے غصے کا اظہار بھی کیا گیا لیکن ان کے اندر باقاعدہ کنفیوژن دیکھی گئی اور وہ اسی بات پر اصرار کرتے رہے کہ اجلاس آج چھ تاریخ کو ہی ہوگا لیکن کب اور کہاں اس حوالے سے ان کو خود علم نہیں تھا۔

گرمی اور روزے کی حالت میں اسمبلی کے باہر ارکان اسمبلی اور میڈیا دونوں ہی اجلاس کے حوالے سے گومگو کا شکار رہے اور افطاری سے قبل تمام اراکین اسمبلی واپس ہوٹل چلے گئے۔ جونہی مسلم لیگ ن اور اتحادی اراکین پنجاب اسمبلی سے گئے تو عمران خان کے سابق مشیر شہباز گل چند ساتھیوں کے ہمراہ پنجاب اسمبلی کے باہر اکٹھے ہو گئے۔ وہاں انہوں نے احتجاج کیا اور پاکستان تحریک انصاف کے ناراض اراکین کے خلاف نعرے لگوائے۔ شہباز گل اپنی روایتی ہنسی ہنستے ہوئے لوٹا کریسی کے خلاف نعرے لگا کر چند منٹ بعد ہی وہاں سے رخصت ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی اثنا میں مریم نواز شریف نے ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ ساڑھے سات بجے حمزہ شہباز سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے پنجاب اسمبلی پہنچیں گی، لیکن کچھ وقت کے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے بیان جاری ہوا کہ مریم نواز اظہار یکجہتی کے لیے اس ہوٹل پہنچیں گی جہاں اراکین اسمبلی کو ٹھہرایا گیا ہے۔

سات بجے مریم نواز مین بلیوارڈ گلبرگ پر واقع نجی ہوٹل میں پہنچ گئیں جہاں سے وہ حمزہ شہباز اور تمام ایم پی ایز کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے قریب واقعہ ایک ہوٹل کی جانب روانہ ہوئیں۔

 پہلے وہ حمزہ شہباز کے ہمراہ اپنی گاڑی میں بیٹھیں لیکن بعد میں وہ ایک بس میں سوار ہو گئیں جس میں دیگر ایم پی ایز بھی تھے۔ چار بسوں اور متعدد ذاتی گاڑیوں پر مشتمل یہ قافلہ پنجاب اسمبلی پہنچا جہاں پر مزید سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں گی جبکہ اس ہوٹل میں اجلاس کروانے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ 

دپٹی سپیکر دوست محمد مزاری اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے باوجود سارا دن مختلف میڈیا کو یہی کہتے رہے کہ اجلاس ہو گا اور وہ جو بھی کر رہے ہیں آئیں اور قانون کے دائرے میں رہ کر کر رہے ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے اپنے وکلا سے بھی مشاورت کرلی ہے۔

اسی دعوے کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ سات بجے پنجاب اسمبلی پہنچ گئے جہاں انہیں اسمبلی کے مرکزی دروازے پر روک لیا گیا اور انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہاں انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ وقت پر اسمبلی پہنچ گئے ہیں مگر انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں ملی اور انہوں نے پھر اس بات پر اصرار کیا کہ اجلاس تو آج ہی ہوگا۔ 

دوسری جانب پنجاب اسمبلی کے ارد گرد پانچ سو میٹر کی حدود میں دفعی 144 کا نفاذ کر دیا گیا اور انسداد فسادات پولیس کو کسی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے طلب کر لیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان