’پنجاب اسمبلی تحلیل کرنا حکومت کے آئینی اختیار سے باہر‘

پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کا انتخاب کرائے بغیر چند منٹ میں اجلاس چھ اپریل تک ملتوی کیے جانے پر متحدہ اپوزیشن نے اسمبلی میں ہی دھرنا دے دیا ہے اور انہوں نے شیڈول کے مطابق انتخاب کرانے کا مطالبہ کیاہے۔

پاکستان کے پولیس افسران یکم جون 2013 کو لاہور میں نومنتخب صوبائی قانون سازوں کی حلف برداری کی تقریب کے دوران (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کی پارلیمانی سیاسی صورتحال پنجاب میں بھی وفاق سے زیادہ مختلف نہیں ہے، سابقہ حکومت انتظامی سیٹ اپ اپنا ہونے کے باعث پنجاب میں بھی متحدہ اپوزیشن کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔

سپیکر نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا شیڈول خود جاری کیا مگر ڈپٹی سپیکر نےپولنگ کے دن، آج اتوار کو ہونے والا اجلاس بغیر کارروائی کے ملتوی کردیا۔

سپیکر چوہدری پرویز الہی کے مطابق اپوزیشن نے انتخاب سے قبل ایوان میں ہنگامہ آرائی کی، لہذا امن وامان کو برقرار رکھنے کی وجہ سے ڈپٹی سپیکر نے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے اجلاس چھ اپریل تک ملتوی کردیا۔

جب کہ اپوزیشن رہنما حسن مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی کی شکست دیکھ کر ڈپٹی سپیکر نے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت غیر قانونی طور پر انتخابی عمل روک کر اجلاس ملتوی کیاہے۔

اپوزیشن سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے گی صورتحال سب کے سامنے ہے پی ٹی آئی میدان میں اترنے کو تیار نہیں ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلی کا انتخاب ہونے سے کچھ دیر پہلے گورنر پنجاب چوہدری سرور کو برطرف کردیا گیا۔

چوہدری سرور نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپوزیشن کے موقف کوتقویت بخشی ان کا کہنا ہے کہ ’انہیں رات گئے فون کر کے کہاکہ پرویز الٰہی ہار رہے ہیں لہذا آئینی اختیارات کے تحت یا اجلاس ملتوی کردیں یا اسمبلی تحلیل کر دیں، میں نے انکار کیا تو رات کے اندھیرے میں برطرف کردیا گیا۔ جب کہ میں نے خود پیش کش کی تھی کہ استعفیٰ لے لیں لیکن انہوں نے برطرف کردیاہے۔ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں غیر آئینی اقدام سے بچ گیا ہوں۔‘

کیا پنجاب اسمبلی کو بھی تحلیل کرنا ممکن ہے؟

پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی کے سابق صدر خواجہ نصیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 133 کے تحت عثمان بزدار کوعبوری طور پر نئے وزیر اعلی کے انتخاب اور حلف اٹھانےتک کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اٹھارھویں ترمیم کے تحت ان کے پاس اختیار نہیں کہ گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دے سکے۔ دوسرا یہ کہ وزیر اعلی عثمان بزادر مستعفی ہوچکے ہیں استعفی منظور ہوچکاہے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی غیر موثر نہیں ہوئی ابھی اسمبلی سیکرٹریٹ میں موجود ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اٹھارھویں ترمیم کے تحت چیف ایگزیکٹو وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ جب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری صدر یا گورنر کو بھجوائیں گے تو وہ پابند ہیں اور اس سمری پر عمل درآمد کریں وہ مسترد نہیں کر سکتے۔

خواجہ نصیر کے بقول اسمبلی تحلیل کرنے کاواحدآئینی راستہ یہ ہے کہ ’نئے گورنر وزیر اعلی عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرنے کا اقدام واپس لیں اور انہیں عہدے پر بحال کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کریں، پھر جو ان کے خلاف پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے اکثریت ثابت کریں، پھر وہ اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھجوا سکتے ہیں جو موجودہ صورتحال میں ممکن نہیں۔ لہذا اس موقع پر حکومت کے لیے آئینی طور پر پنجاب اسمبلی تحلیل کرناآئینی اختیار سے باہر ہے۔‘

پنجاب اسمبلی کی صورتحال:

پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کا انتخاب کرائے بغیر چند منٹ میں اجلاس چھ اپریل تک ملتوی کیے جانے پر متحدہ اپوزیشن نے اسمبلی میں ہی دھرنا دے دیا ہے اور انہوں نے شیڈول کے مطابق انتخاب کرانے کا مطالبہ کیاہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ متحدہ اپوزیشن نے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے آئینی راستہ اختیار کیا اور تحریک عدم اعتماد اپنے قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے جمع کرائی۔ ان کے بقول اس صورتحال میں حکومت نے عثمان بزدار کو مستعفی کرادیا گیا اور سپیکر چوہدری پرویز الہی کو وزارت اعلی کا امیدوار نامزد کردیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم نے اس کا بھی خیر مقدم کیا اور ان کے مقابلہ میں متحدہ اپوزیشن نے حمزہ شہباز کو امیدوار نامزد کردیا سپیکر نے خود شیڈول جاری کیا جس کے تحت آج انتخاب ہونا تھا مگر شکست دیکھ کر اجلاس ملتوی کر کے راہ فرار اختیار کی۔‘

عطا اللہ تارڑ کے مطابق اجلاس ملتوی کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے ’سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے جا رہے ہیں، ہم استدعا کریں گے سپریم کورٹ سے کہ وزیراعلی پنجاب کا انتخاب شیڈول کے مطابق آج کیا جائے۔ پرویز الٰہی نے شکست کو دیکھ کر اجلاس ملتوی کرایاایوان میں ہمارے ارکان کی تعداد ابھی بھی 203 ہے۔‘

اپوزیشن اراکین کی جانب سے اسمبلی میں موجود رہنے کا اعلان کیا گیا تو انتظامیہ نے پنکھے اور لائٹیں بند کرادیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان