تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ: آج قومی اسمبلی میں کیا ہو گا؟

آئین كے آرٹیكل 95 كے تحت پیش كی گئی عدم اعتماد كی قرارداد پر ووٹنگ قومی اسمبلی كے طریقہ كار كے قواعد 2007 كی شق 37 كے تحت سیكنڈ شیڈول میں درج طریقے كے مطابق كی جاتی ہے۔

قومی اسمبلی كے 28 مارچ كے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی قرارداد پیش كر دی گئی، جس پر آج ووٹنگ ہوگی (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاكستانی پارلیمان كے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی قرارداد پر ووٹنگ آج یعنی اتوار کو ہوگی، جو ہاؤس كے اراكین كی كل تعداد كی سادہ اكثریت (172 اراكین) كی حمایت سے ہی كامیاب ہو سكتی ہے۔ 

قومی اسمبلی كے اتوار کے اجلاس كے ایجنڈے میں وزیراعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی قرارداد پر ووٹنگ كو چوتھے نمبر پر ركھا گیا ہے۔

تلاوت قرآن پاک سے شروع ہونے والے آج كے اجلاس كے ایجنڈے كا دوسرا آئٹم سوالات كا وقفہ ہے، جبكہ آئٹم نمبر تین میں ركن قومی اسمبلی فہیم خان كال ٹو اٹینشن نوٹس پیش كریں گے۔

حزب اختلاف كی جماعتوں كی جانب سے وزیراعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی قرارداد كی ناكامی كی صورت میں پاكستان تحریک انصاف كی حكومت (وزیر اعظم عمران خان اور ان كی كابینہ) كام جاری ركھے گی۔ 

دوسری صورت یہ ہو سكتی ہے كہ حزب اختلاف ایوان میں 172 اراكین قومی اسمبلی كو قرارداد كے حمایت میں پیش كر كے اسے كامیابی سے ہمكنار كر دے۔ 

عدم اعتماد كی قرارداد كی كامیابی كے بعد آئین پاكستان كے تحت وزیراعظم عمران خان اور ان کی وفاقی حکومت ختم ہو جائے گی۔ 

واضح رہے كہ وزیراعظم كے خلاف عدم اعتماد كی قرارداد کی محرک حزب اختلاف كی جماعتیں ہیں، اس لیے آج كے اجلاس میں 172 اراكین كی حمایت پیش كرنا اپوزیشن كی ذمہ داری ہے۔ 

دوسری طرف حكومتی جماعت یا وزیراعظم عمران خان كے حامیوں كی عدم اعتماد كی قرارداد پر ووٹنگ كے دوران ایوان میں موجودگی یا غیر موجودگی كوئی معنی نہیں ركھتی۔  

عمران خان كے وزیراعظم پاكستان نہ رہنے اور وفاقی حكومت كے ختم ہونے كے بعد اگلا مرحلہ نئے وزیراعظم كے انتخاب كا ہوگا، جو ملک كا نظام چلانے كے لیے اپنی كابینہ یا حكومت تشكیل دیں گے۔  

یاد رہے كہ حزب اختلاف كی جماعتوں نے آئین كے آرٹیكل 95 كے تحت وزیراعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی تحریک اور ایوان کا اجلاس طلب كرنے كی درخواست آٹھ مارچ كو قومی اسمبلی سیكرٹیریٹ میں جمع كی تھی۔ 

سپیكر اسد قیصر نے حزب اختلاف كی جانب سے قومی اسمبلی كا طلب كردہ اجلاس اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم كے اجلاس كے باعث دو دن تاخیر سے 25 مارچ كو بلایا، جس میں تحریک عدم اعتماد پر كوئی كارروائی نہ ہو سكی۔ 

تاہم قومی اسمبلی كے 28 مارچ كے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی قرارداد پیش كر دی گئی، جس پر آج ووٹنگ ہوگی۔

ووٹنگ كیسے ہوگی؟ 

آئین پاكستان كے آرٹیكل 95 كے تحت پیش كی گئی عدم اعتماد كی قرارداد پر ووٹنگ قومی اسمبلی كے طریقہ كار كے قواعد 2007 كی شق 37 كے تحت سیكنڈ شیڈول میں درج طریقے كے مطابق كی جاتی ہے۔ 

سیكنڈ شیڈول کے پہلے پیراگراف میں درج ہے كہ ووٹنگ شروع ہونے سے قبل سپیكر پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجانے كی ہدایت كریں گے، تاكہ جو اراكین قومی اسمبلی ایوان (چیمبر) میں موجود نہیں ہیں وہ آ جائیں۔ 

گھنٹیاں بجنا بند ہونے پر اسمبلی كا سٹاف چیمبر كے تمام دروازے بند كر دے گا اور ووٹنگ كے ختم ہونے تک كسی كو اندر یا باہر جانے نہیں دیا جائے گا۔ 

سیكنڈ شیڈول كے دوسرے پیراگراف كے تحت تب سپیكر عدم اعتماد كی قرارداد اسمبلی كے سامنے پڑھیں گے، اور ان اراكین كو جو قرارداد كی حمایت میں ووٹ دینا چاہتے ہیں كو اسمبلی كے ایک دروازے سے گزرنے كے لیے قطار بنانے كا کہا جائے گا، جبكہ اس مخصوص دروازے سے گزرنے والے اراكین كا ووٹ ریكارڈ كرنے كے لیے ٹیلرز (Tellers) كھڑے كیے جائیں گے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قرارداد كے حق میں ووٹ ڈالنے والے ہر ركن قومی اسمبلی كے مخصوص دروازے یا ٹیلر كے ڈیسک كے قریب پہنچنے پر پہلے سے دیا گیا ایک مخصوص نمبر پكارے گا، جس پر ٹیلر ركن اسمبلی كا نام پكار كر تقسیم كی فہرست میں سے ان كا نام كاٹ دے گا۔

 ركن اسمبلی وہاں سے یہ یقینی بنائے بغیر نہیں ہٹیں گے كہ ان كا ووٹ مناسب طریقے سے پول ہوگیا ہے، اور ووٹ ڈالنے كے بعد وہ ركن اسمبلی دوبارہ گھنٹیوں كے بجنے تک اسمبلی ہال (چیمبر) میں واپس نہیں آئیں گے۔ 

سیكنڈ شیڈول كے پیراگراف نمبر تین میں درج ہے كہ سپیكر یہ تسلی كر لینے كے بعد كہ جو جو ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں انہوں نے ووٹ استعمال كر لیا ہے ووٹنگ كے اختتام كا اعلان كریں گے۔ 

قومی اسمبلی كے سیكریٹری اس كے بعد ڈالے گئے ووٹوں كی فہرستیں حاصل كریں گے، اور ووٹوں كی گنتی كریں گے، اور گنتی كا نتیجہ سپیكر كے حوالے كر دیں گے۔ 

اس كے بعد سپیكر دو منٹ تک گھنٹیاں بجانے كی ہدایت كریں گے تاكہ باہر موجود تمام اراكین ایوان  میں واپس آ سكیں۔ گھنٹیاں بجنا بند ہونے پر سپیكر نتیجے كا اعلان كر دیں گے۔ 

آئین پاكستان كے آرٹیكل 95(4) كے تحت عدم اعتماد كی قرارداد ایوان كی اكثریت كی حمایت سے منظور ہونے كی صورت میں وزیراعظم اپنے عہدے سے ہٹ جائیں گے۔ 

نیا وزیر اعظم

اكثر آئینی ماہرین كے خیال میں آئین كے آرٹیكل 94 كے تحت صدر مملكت عدم اعتماد كی قرارداد كی منظوری اور وزیراعظم عمران خان كے ہٹ جانے كے بعد انہی كو اگلے وزیراعظم كے انتخاب تک فرائض سرانجام دینے كا كہہ سكتے ہیں۔ 

سابق اٹارنی جنرل آف پاكستان عرفان قادر كا كہنا تھا كہ وزیراعظم كا عہدہ خالی نہیں رہ سكتا، اور ایک وزیر اعظم كے ہٹائے جانے كے بعد اور دوسرے كے آنے تک صدر مملكت اسی كو كام جاری ركھنے كا كہہ سكتے ہیں۔ 

انہوں نے كہا كہ عدم اعتماد كی كامیابی كی صورت میں نئے وزیراعظم كا انتخاب قومی اسمبلی كے اسی سیشن میں نہیں ہوگا، بلكہ اس كے لیے نیا اجلاس بلانا پڑے گا۔ 

تاہم دوسرے ماہرین اس سے اختلاف كرتے ہوئے كہتے ہیں كہ آرٹیكل 94 كا تعلق اس صورت حال سے ہے جس میں وزیراعظم خود استعفیٰ پیش كرتے ہیں یا قومی اسمبلی تحلیل كر دی جاتی ہے۔ 

سپریم كورٹ آف پاكستان كے وكیل عمران شفیق كا كہنا تھا كہ صدر كیسے ایک ایسے شخص كو وزیراعظم كے طور كام جاری ركھنے كا كہہ سكتے ہیں، جو ہاؤس كا اعتماد كھو چكا ہو۔

انہوں نے کہا: ’یہی وجہ ہے كہ صدر كی اجازت سے كام جاری ركھنے كا ذكر آرٹیكل 94 میں كیا گیا ہے، جو وزیراعظم كے خلاف عدم اعتماد كے طریقہ كار سے پہلے ہے، جبكہ وزیراعظم كے خلاف عدم اعتماد كا ذكر آرٹیكل 95 میں دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے وضاحت كرتے ہوئے كہا: ’آئین پاكستان كا منشا یہی نظر آتا ہے كہ عدم اعتماد كی صورت میں اگلے وزیراعظم كا انتخات جلد از جلد كیا جائے۔‘ 

عمران شفیق كے خیال میں وزیراعظم كے خلاف عدم اعتماد كی كامیابی كی صورت میں سپیكر قومی اسمبلی كو فوراً نئے چیف ایگزیكٹیو كا انتخاب كروانا چاہیے۔ 

ان  كا كہنا تھا كہ آئین کے آرٹیکل 58(2) کے تحت، وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی کا ایک الگ اجلاس خالصتاً یہ معلوم كرنے كے لیے بلایا جاتا ہے كہ كسی دوسرے ایم این اے كو ایوان کا اعتماد حاصل ہے۔

گذشتہ کئی عشروں سے سپریم كورٹ آف پاكستان كی رپورٹنگ كرنے والے صحافی اور وی لاگر مطیع اللہ جان كے خیال میں وزیراعظم كے خلاف عدم اعتماد  كی كامیابی پہلی مرتبہ ہو گی اس لیے كنفیوژن ہو سكتی ہے، كیونكہ آئین میں اس سلسلے میں خاموشی یا ابہام پایا جاتا ہے۔ 

انہوں نے کہا: ’میرے خیال میں اپوزیشن كو عدم اعتماد كی كامیابی كی صورت میں ایک دوسرا اجلاس ریكوزیشن كرنا پڑے گا كہ نئے وزیراعظم كا انتخاب كیا جا سكے۔‘ 

تاہم انہوں نے كہا كہ عین ممكن ہے كہ عدم اعتماد كی كامیابی كے فوراً بعد ہی اكثریتی جماعت كو نیا لیڈر آف دا ہاؤس كے انتخاب كا موقع دے دیا جائے۔ 

سپریم كورٹ كے وكیل انعام الرحیم نے سوال اٹھایا: 'جب پورا ایوان ایك شخص پر بحیثیت وزیر اعظم عدم اعتماد كا اظہار كر دے تو اسی كو كیوں كر عارضی مدت كے لیے اسی عہدے پر ركھا جا سكتا ہے؟' 

انہوں نے كہا كہ سپیكر اور عدم اعتماد كی كامیابی كی صورت میں اسی موقع پر فوراً وزیر اعظم كے انتخاب كا عمل شروع اور پورا كرنا ہو گا۔ 

دوسری جانب پاكستان پیپلز پارٹی كی سیكریٹری اطلاعات شازیہ مری نے اس سلسلے میں اسمبلی كے طریقہ كار كے ضوابط كی شق نمبر 32 كی طرف اشارہ كرتے ہوئے كہا: ’یہ شق واضح كرتی ہے كہ كسی بھی وجہ سے وزیراعظم كا عہدہ خالی ہونے كی صورت میں قومی اسمبلی كوئی دوسرا بزنس اٹھانے سے قبل بحث كے بغیر اراكین میں كسی ایک مسلمان ركن كو وزیراعظم كے طور پر منتخب كرے گی۔‘

انہوں نے كہا كہ اس شق كی موجودگی میں سپیكر قومی اسمبلی كے پاس عدم اعتماد كی تحریک منظور ہونے كے بعد نئے وزیراعظم كے انتخاب كو موخر كرنے كا حق حاصل نہیں ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست