عدم اعتماد: کیا عمران خان گیم الٹ سکتے ہیں؟

حکومت کے پاس آپشن تو ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ بعض اوقات آپشن بھاری پتھر بن جاتے ہیں، اٹھائے نہیں جاتے۔

وزیراعظم عمران خان 27 مارچ کو اسلام آباد میں تحریک عدم اعتماد سے قبل پی ٹی آئی کے پاور شو میں (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

کھیل تو بظاہر ختم ہو چکا لیکن عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کا آخری گیند تک مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سوال یہ ہے کیا اسے محض سیاسی بیان سمجھا جائے یا واقعی عمران کے پاس اب بھی ایسے آئینی آپشن موجود ہیں جو عدم اعتماد کو ناکام بنا سکتے ہیں؟

اراکین ان کے منحرف ہو چکے، اتحادی ساتھ چھوڑ گئے، عدم اعتماد آ جانے کے بعد اسمبلی وہ توڑ نہیں سکتے، ایمرجنسی کا نفاذ بھی فی الوقت ممکن نہیں، سوال یہ ہے کہ وہ آخری گیند تک مقابلہ کیسے کریں گے۔ ویسے بھی اگر آخری گیند پر جیت کے لیے 50 رنز درکار ہوں تو وکٹ پر کھڑے ہونے کا بھی کیا فائدہ؟ آخری گیند کھیل کر بھی اگر شکست ہی مقدر ہو تو اس کا کھیلنا کیا اور نہ کھیلنا کیا؟

تاہم عمران خان نے اگر آخری گیند تک مقابلے کی بات کی ہے تو لازم ہے وہ کچھ چوکے چھکے مارنے کی کوشش کریں گے اور ریورس سوئنگ اور یارکر کے ساتھ ساتھ کچھ باؤنسر پھینکنے کی کوشش بھی کریں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اگر وہ ایک اور یوٹرن نہیں لیتے اور سچ میں آخری گیند تک مقابلے کی ٹھان لیتے ہیں تو آج ایوان میں ان کے پاس کون کون سے آپشن موجود ہوں گے۔

اصل نکتے کی طرف آنے سے پہلے کہ عمران کیا کر سکتے ہیں، مناسب ہو گا کہ معاملے کا تھوڑا سا آئینی پس منظر بھی دیکھ لیا جائے۔

ہمارے ہاں آرٹیکل 63 اے پر بہت بات ہوئی ہے لیکن اس کا ایک اہم پہلو زیر بحث نہیں آ سکا۔ زیادہ توجہ اسی نکتے پر رہی کہ اگر تحریک انصاف کے کسی منحرف رکن نے عدم اعتماد کے موقعے پر عمران کے خلاف ووٹ دیا تو کیا ہو گا۔ یہاں بھلے آئینی پوزیشن یہی ہو کہ ان اراکین کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جا سکتا اور ان کا ووٹ درست بھی ہو گا اور گنا بھی جائے گا، بھلے وہ بعد میں ڈس کوالیفائی ہو جائیں۔ لیکن اس سے پہلے بھی ایک آئینی پیچیدگی آتی ہے اور یہی پیچیدگی عمران خان کے لیے ایک مفید آپشن بن سکتی ہے۔

آرٹیکل 63 اے کی ذیلی دفعہ 1 اے میں ایک اور نکتہ بھی موجود ہے جس کا عدم اعتماد کے موقعے پر منحرف ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے مطابق اگر کوئی رکن پارلیمان اپنی پارٹی سے مستعفی ہو جاتا ہے یا کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار لیتا ہے تو پارٹی سربراہ اس کے خلاف سپیکر کو ایک ڈیکلیریشن بھیجے گا کہ یہ آدمی اب ہماری پارٹی کا نہیں رہا۔

سپیکر پابند ہے کہ دو دن کے اندر اندر اس رکن کے خلاف ریفرنس الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔ کمشنر اسے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھے گا اور کمیشن نے اس ڈیکلیریشن کی تصدیق کر دی تو وہ شخص پارلیمان کی رکنیت سے محروم ہو جائے گا۔

اب یہاں آئینی سکیم کو سمجھیے۔ پارٹی چھوڑنے کا تعین تو استعفے سے ہو گا۔ لیکن کسی دوسری پارٹی میں شمو لیت والے نکتے کا تعین کسی دستاویز سے نہیں طرز عمل سے ہو گا۔ عمران خان اس معاملے میں بظاہر اپنا ہوم ورک مکمل کر چکے ہیں۔ تحریک انصاف منحرف اراکین کو شوکاز جاری کر چکی ہے اور جواب پر فیصلہ بھی کر چکی ہے کہ عمران خان اس سے مطمئن نہیں۔ گویا پارٹی میں کسی کے ہونے یا پارٹی چھوڑ جانے کے تعین کے لیے جو واقعاتی شواہد اور قانونی طریقہ کار ضروری تھا وہ عمران خان پورا کر چکے۔

عمران خان ایک اور کام بھی کر چکے اور اس کا تعلق آرٹیکل 63 کی ذیلی دفعہ 1 بی کے ساتھ ہے۔ اس دفعہ میں ایک نکتہ ہے کہ اگر کوئی رکن پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے برعکس عدم اعتماد کے موقع پر غیر حاضر رہتا ہے تو اس کے خلاف بھی ڈس کوالیفیکیشن کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر سپیکر اس کی شرح یوں بیان کر دیں کہ اہم نکتہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کی خلاف ورزی ہے، بھلے غیر حاضر رہ کر ہو یا حاضر ہو کر، تو کیا منظر بنے گا؟

فرض کریں عمران خان سپیکر کو لکھ بھیجیں کہ یہ ایم این اے اب تحریک انصاف کے نہیں رہے۔ یہ دوسری پارٹیوں میں شامل ہو چکے ہیں اور ہم شوکاز نوٹس بھیج کر قانونی طریقہ کار پورا کر کے باقاعدہ تسلی کر چکے ہیں کہ یہ لوگ اب پی ٹی آئی کا حصہ نہیں رہے۔ پارٹی سربراہ اپنا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس لیے آپ فوری طور پر ان کے خلاف الیکشن کمشنر کو ریفرنس بھیجیں۔ ذرا سوچیے اب کیا ہو گا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرض کریں سپیکر اجلاس شروع ہوتے ہی رولنگ دے دیتے ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ کی جانب سے آرٹیکل 63اے کی ذیلی دفعہ 1 اے کے تحت ڈیکلیریشن آ چکا ہے اور جن اراکین کے خلاف یہ ڈیکلیریشن آیا ہے وہ عدم اعتماد کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اور وہ یہ بھی کہہ دیں کہ انہوں نے پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اجلاس میں شرکت کی ہے اس لیے ان کے خلاف میں الیکشن کمشنر کو ریفرنس بھیج رہا ہوں۔

سپیکر اگر ایسا کر دیتے ہیں تو پھر کیا ہو گا؟ دو صورتیں ہوں گی۔ پہلی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ حزب اختلاف ان ووٹوں سے بے نیاز ہو کر آئے اور حکومت کے ٹوٹے ہوئے اتحادیوں کی حمایت سے میدان مار لے۔ لیکن اس صورت میں مقابلہ بہت سخت ہو گا اور ایم کیو ایم یا بلوچستان عوامی پارٹی کے دو چار لوگ اگر حکومت نے بھی توڑ رکھے ہوئے تو پھر؟

کسے معلوم خود ن لیگ یا پیپلز پارٹی میں سے ایک دو لوگ بیمار ہو جائیں یا کوئی اور مسئلہ ہو جائے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی قربانی دے کر یہ منصب ق لیگ کو دینے کا فیصلہ اگر عمران خان نے کیا ہے تو جواب آں غزل میں ان کے سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر کچھ یقین دہانیاں بھی تو لی ہوں گی، جو ہو سکتا ہے ق لیگ تک محدود نہ ہوں، اس کے علاوہ بھی ایک آدھ پرندے کو اسیر کر لائیں۔

دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ حزب اختلاف سپیکر کی اس رولنگ کو عدالت میں چیلنج کر دے۔ عدالت کا فیصلہ کیا ہو گا یہ تو کسی کو معلوم نہیں لیکن اتنا یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ صادق سنجرانی کے معاملے میں یوسف رضا گیلانی کی درخواست خارج کر چکی ہے۔ گویا پارلیمان کے پریزائڈنگ افسر کی رولنگ کے خلاف عدالت کچھ نہیں کرے گی۔

 تاہم اگر عدالت سپیکر کی رولنگ کے خلاف بھی فیصلہ دے دے تب بھی اس فیصلے تک تو عدم اعتماد کا معاملہ التوا میں چلا جائے گا۔ اس دوران عمران خان کے پاس مختلف آپشن ہوں گے جن میں سے ایک یہ بھی ہو گا کہ وہ اسے اپنی فتح قرار دیتے ہوئے بالادست حیثیت میں انتخابات کا اعلان کر دیں۔

ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو۔ ہو سکتا ہے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے اور عمران خان کلین بولڈ ہو کر پویلین کو لوٹ جائیں۔ اس تحریر کا تعلق صرف اس امکان سے ہے کہ اگر عمران خان واقعی آخری گیند تک مقابلے کی ٹھان لیتے ہیں تو ان کے پاس کون سے آئینی آپشن دستیاب ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ بعض اوقات آپشن موجود ہوتے ہیں مگر بھاری پتھر بن جاتے ہیں۔ اٹھائے نہیں جاتے۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ