عمران خان کا مستقبل کیا ہوگا؟

تیسرا دور یہ فیصلہ کرے گا کہ یہ آل راؤنڈر ہر وکٹ پر کھیل سکتا ہے یا اس کی بولنگ اور بلے بازی کے جوہرصرف ہوم گراؤنڈ پر مرضی کی پچ تک محدود ہیں جہاں امپائر بھی نیوٹرل نہ ہو۔

28 فروری 2022 کی اس تصویر میں  کراچی میں لوگ ٹی وی پر وزیراعظم عمران خان کا خطاب سن رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں۔


تحریک عدم اعتماد کے بعد عمران خان کا مستقبل کیا ہے؟ وہ سیاست کی ایک تلخ یاد بن کر فعل ماضی ہو جائیں گے یا یہ بحران انہیں مزید مضبوط کر دے گا؟

عمران خان کی سیاست کے دو ادوار مکمل ہوئے، پہلا دور تحریک انصاف کے قیام سے لے کر لاہور کے مشہور زمانہ جلسے تک ہے اور دوسرا دور اس جلسے سے شروع ہوا اور تحریک عدم اعتماد کے نتیجے سے قطع نظر، اب تمام ہونے کو ہے۔ اب وہ تیسرے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ دور فیصلہ کرے گا کہ رخِ یار سچ میں لعلِ احمر تھا یا پانیوں پر کشیدہ کاری کی گئی تھی۔

عمران خان کی سیاست کا پہلا دور حسرت اور نارسائی کا مجموعہ ہے۔ کرشن بہاری نور کے الفاط مستعار لوں تو وہ غزل سنا کر بھی اکیلے ہی کھڑے ہوتے تھے۔ خود ہی مکرر مکرر کا مطالبہ کرتے اور اپنے مطلع اور مقطع پر خود ہی واہ واہ کرتے رہتے۔ قریب تھا کہ کسی ادھورے شعر کی طرح ان کی سیاست کا خاتمہ ہو جاتا لیکن پھر وقت کا موسم بدلا اور جاڑے گلزار ہو گئے۔ دروغ بر گردنِ راوی، روایت یہ ہے کہ سال کے ’بارہ موسموں‘ نے ان کا ہاتھ تھام لیا۔ مدعی، آرزو اور مدعا، سب عشق ہوگئے۔

عمران خان کی سیاست کا دوسرا دور اسی نسبت عشقی کا دیوان ہے۔ وہ ایسے آئے جیسے ’چڑھی تیوری، چمن میں میر آیا۔‘ بے خودی، بے ادائی، بے نیازی، سارے نوشتے اس دیوان کا حصہ ہیں۔ اچانک ہی تحریک انصاف جھوم کے اٹھی اور ایک سونامی بن گئی۔ ڈی چوک سے لے کر کوچہِ اقتدار تک ایک بزمِ اطفال سی سج گئی۔ نہ کوئی غم نہ پریشانی، نہ ذمہ داری کا کوئی بوجھ نہ درد مندی اور معاملہ فہمی۔ انتہائی اہم قانون سازی کے مراحل بھی درپیش ہوئے تو کسی نے حزب اختلاف سے بات کرنا گوارا نہ کیا۔ لیکن پھر بھی جنگل کے بھید کی طرح ’قانون سازیاں‘ ہوتی رہیں اور حزب اختلاف تعاون فرماتی رہی۔ گالیاں کھا کر بھی بےمزہ نہ ہوئی۔

روایت ہے کہ یہ موسم تمام ہونے کو ہے اور اب عمران خان نے جو کرنا ہے اپنی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی سے خود کرنا ہے۔ اب اسے اپنی پیاس بجھانے کے لیے خود ہی کنواں کھودنا ہے۔ اب دسمبر گرم نہیں ہوگا اور جون میں ٹھنڈی ہوائیں نہیں چلیں گی۔ یہ خبر آتے ہی تحریک انصاف خزاں کے پتوں کی طرح بکھرتی نظر آ رہی ہے اور سارے پنکھ پکھیرو آنکھوں میں اندیشے لیے ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں۔ مارگلہ میں بہار کا موسم ہے تو کچھ ابھی سے جا کر سندھ ہاؤس کے انجیر کے درخت پر جا بیٹھے ہیں۔ عمران خان کی سیاست کا یہ تیسرا دور ہے۔

 تیسرا دور اب طے کرے گا کہ عمران خان کا مستقبل کیا ہے۔ عدم اعتماد کی کامیابی اور اقتدار سے الگ کر دیے جانے سے کسی کی سیاست ختم نہیں ہو جاتی اگر اس میں سیاسی بصیرت موجود ہو۔ نواز شریف کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ اقتدار سے الگ کیے گئے لیکن ’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ کے ایک جملے نے انہیں کھڑا کر دیا۔ بھٹو صاحب کے ساتھ کیا نہیں ہوا لیکن اس میں کیا کلام ہے کہ سیاست کی دنیا میں ’بھٹو زندہ ہے‘ کا نعرہ مبالغہ نہیں، ایک حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جس کا اعتراف خود عمران خان کر رہے ہیں۔ مظلومیت کی ایک طاقت ہوتی ہے اور یہ مظلومیت محض ایک تاثر ہو تب بھی یہ طاقت غیر معمولی ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران خان کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ وہ اقتدار کے نہیں احتجاج کے آدمی ہیں۔ لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان کا اقتدار ہو یا ان کی احتجاجی سیاست، یہ دونوں ان کے دوسرے سیاسی دور کی کہانیاں ہیں۔ جب سارے موسم ان کی دہلیز پر ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ جب دسمبر گرم ہوتا تھا، جون میں بہار آتی تھی اور جولائی میں برف اترتی تھی۔ پھولوں کی سیج پر چل کر آنا اور ڈی چوک میں بادلوں کی چھاؤں میں احتجاج کرنا اور بات ہے اور ناسازگار موسم میں احتجاجی سیاست کرنا بالکل دوسری بات ہے۔

اپنے پہلے سیاسی دور میں اقتدار تک تو نہ پہنچ پائے لیکن سوال یہ ہے کیا اس دور میں وہ ڈھنگ کا ایک احتجاج بھی کر پائے؟ ہیرو تو وہ اس وقت بھی تھے۔ ورلڈ کپ کے فاتح تو وہ تب بھی تھے۔ شوکت خانم ہسپتال جیسا کام تو اس وقت بھی انجام دیا جا چکا تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس دور میں ان کے جلسہ عام پانچ سات درجن لوگوں تک محدود ہوا کرتے تھے؟

پھر یہ بھی اہم ہے کہ کیا محض احتجاجی سیاست کسی کو سرخرو کر سکتی ہے؟ تین سال کے اقتدار کے بعد تحریک انصاف کے پاس احتجاج، شعلہ نوائی اور لہجوں کے آزار کے سوا کیا ہے؟

اب تو موسموں کا مصنوعی پن بھی نہیں رہا۔ اقوال زریں کا رومان بھی ختم ہو گیا۔ اپنے دور اقتدار میں وہ لوگوں پر ایسے کھُلے کہ ایسے کھُلے! کیا اب عمران خان احتجاجی سیاست کا یہ بھاری پتھر اٹھا پائیں گے؟ جیل اور ہتھکڑی احتجاجی سیاست کے لوازمات ہیں، کیا عمران موسموں کے اصل رنگوں میں ان کے متحمل ہو سکیں گے؟ ان کا ماضی دیکھیں تو اس سوال کی معنویت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کہ جب پرویز خٹک اور کارکنوں کے قافلے سڑکوں پر تھے لیکن عمران خان باہر آنے کی بجائے بنی گالہ میں ڈنڈ پیلتے رہ گئے۔

تیسرا دور یہ فیصلہ کرے گا کہ یہ آل راؤنڈر ہر وکٹ پر کھیل سکتا ہے یا اس کی بولنگ اور بلے بازی کے جوہرصرف ہوم گراؤنڈ پر مرضی کی پچ تک محدود ہیں جہاں امپائر بھی نیوٹرل نہ ہو۔ یا پھر اس کی سیاست کا کُل دارومدار اسی امید پر ہوگا کہ وہی سہانے زمانے لوٹ آئیں، دسمبر پھر سے گرم ہو جائے، مئی میں بہار آ جائے اور جون میں ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔

اب یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دانش کدوں اور خانقاہوں سے کیا پیغام آتے ہیں۔ مفت مشورے، قصیدے اور وظائف میسر ہوں گے یا خانہ ساز دانش اور روحانیت ہی سے کام چلانا ہوگا؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ