اتحادیوں سے ملاقات: کیا عمران خان نے دیر کر دی ہے؟

پاکستان میں ان دنوں سیاسی گرماگرمی عروج پر ہے جہاں ایک طرف اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کی تیاری کر رہے ہیں تو دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے پہلے عوام کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کیا اور پھر اتحادیوں سے ملنے لاہور پہنچ گئے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی ملاقاتوں اور ملک میں حالیہ سیاسی گرماگرمی کے بعد وزیراعظم عمران خان بھی چودھری برادران سے ملاقات کرنے ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان منگل کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ہمراہ حکومتی اتحادی چودھری برداران کی لاہور میں رہائش گاہ گئے جہاں چودھری پرویز الہی نے ان کا استقبال کیا۔

واضح رہے کہ عمران خان کابینہ اجلاس ملتوی کر کے منگل کو لاہور پہنچے ہیں جہاں انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب اور پنجاب کے اراکین اسمبلی سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔

اس سے قبل اپوزیشن قائدین شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن بھی چودھری برادران سے حکومت مخالف تحریک عدم اعتماد پر حمایت کے سلسلے میں ملاقاتیں کر چکے ہیں۔

اس حوالے سے پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بیان میں کہا ہے کہ وزیر اعظم چودھری برادران سے ملاقات کے لیے نہ جاتے تو افواہیں جنم لیتیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک پڑ چکا ہے۔ کوئی تحریک عدم اعتماد نہیں آئے گی۔‘

پاکستان میں ان دنوں سیاسی ہلچل عروج پر ہے جہاں ایک طرف حزب اختلاف کی جماعتوں نے لاہور میں غیرمعمولی ملاقاتیں کیں، تحریک عدم اعتماد کا اعلان کیا اور ساتھ ہی لانگ مارچ بھی جاری ہے۔

ایسے میں گذشتہ روز پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں عوام کو بجلی، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر کے ایک ’بڑا ریلیف‘ دیا ہے۔

تاہم حزب اختلاف کی جماعتوں نے عمران خان کے اس اقدام کا بھی کریڈٹ خود لیتے ہوئے کہا کہ یہ سب اپوزیشن کے ’دباؤ‘ کی وجہ سے ہوا ہے۔

وزیر اعظم کے سیاسی رابطے

عمران خان کی جانب سے کچھ عرصہ قبل تک اپنی اتحادی جماعتوں یا ناراض اراکین سے رابطوں کی بجائے بیانات سامنے آئے کہ وہ کسی سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔

اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور بی اے پی قیادت کو بھی یہی شکوے تھے کہ انہیں حکومتی فیصلوں پر اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔

اس طرف حکومت کی توجہ نہ تھی اسی لیے حکومتی اتحاد میں شامل بی این پی مینگل بھی دور ہو گئی۔

تاہم جیسے ہی اپوزیشن قیادت کی جانب سے لاہور میں سیاسی ہلچل شروع ہوئی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کی قیادت سے حزب اختلاف نے معاملات طے کرنا شروع کیے اور پیپلز پارٹی نے کراچی سے 27 فروری کو لانگ مارچ کا آغاز کیا تو وزیر اعظم عمران خان سمیت دیگر حکومتی شخصیات متحرک ہوگئیں۔

ایک طرف وزیر اعظم نے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا تو دوسری جانب شاہ محمود قریشی کی قیادت میں سندھ حقوق مارچ شروع کر دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ساری صورتحال کے حوالے سے سینیئر اینکر منصور علی خان کا کہنا ہے کہ ’وزیر اعظم پہلے دوسروں کو کہتے تھے گھبرانہ نہیں ہے لیکن اب وہ خود گھبرا گئے ہیں۔‘

منصور علی خان کے خیال میں اسی لیے وہ (عمران خان) اب معاشی دباؤ کے باوجود پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر رہے ہیں، تاکہ لوگوں کو ریلیف دے کر اپوزیشن کی تحریک میں شمولیت سے روکا جائے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے منصور علی خان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان جہانگیر ترین یا اتحادی جماعتوں سے رابطے بھی موجودہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے کر رہے ہیں اور لاہور میں اراکین سے ملاقات کر کے انہیں بھی ساتھ رکھنے کے لیے خوش کرنا چاہتے ہیں۔

ان کے بقول ’اب دیر ہوچکی ہے، میچ خان صاحب کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ سب کو پتہ ہے وہ میچ ہار رہے ہیں لیکن وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ آخری گیند تک مقابلہ کریں گے۔‘

کیا موجودہ صورتحال میں ریلیف کے لیے وسائل موجود ہیں؟

اس سوال کے جواب میں ماہر معیشت ڈاکٹر پرویز طاہر کا کہنا ہے کہ اس وقت روس کے یوکرین پر حملے کے باعث دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، بجلی کی قیمت کم کرنے کے بھی معیشت پر منفی اثرات ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف سے حکومتوں معاہدوں کے مطابق آف بجٹ آئٹمز کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جاسکتی تو حالیہ اعلانات سے آئی ایم ایف سے آئندہ ملاقاتوں میں مسائل پیدا ہوں گے۔‘

’حکومت نے کچھ عرصہ پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ عوام کو ریلیف دیں گے لیکن وسائل پیدا نہیں کیے، آئندہ بجٹ کے لیے تین سو ارب روپے کی رقم چاہیے جس کے جمع ہونے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ لہذا اس طرح سیاسی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ایسے اقدامات ملکی معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب کریں گے لیکن موجودہ حکومت بھی گذشتہ حکومتوں کی طرح اپوزیشن کے جلسے جلوس ناکام کرنے کے لیے معاشی صورتحال کی پرواہ کیے بغیر اقدامات اٹھا رہی ہے۔‘

پرویز طاہر نے کہا کہ اراکین کو بھی ساتھ رکھنے کے لیے فنڈز کا اجرا شروع کر دیا گیا اور جو منصوبے چل رہے ہیں ان کے فنڈز بھی روکنا مشکل ہوگئے۔ 

’ایسی صورتحال میں جب دنیا میں غیر یقینی صورتحال ہے حکومت کو ملکی معاشی صورتحال بہتر کرنے کی بجائے سیاسی دباؤ روکنے کے لیے سبسڈی دینے اور اخراجات بڑھانا شروع کر دیے ہیں جو کسی بھی صورت ملکی معیشت کے لیے بہتر اقدام نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست