خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں پولیس کے مطابق بدھ اور جعمرات کی درمیانی رات پولیس کے چھاپے اور شدت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں ایک ایس ایچ او سمیت چھ پولیس اہلکار جان سے چلے گئے۔
یہ واقعات کرم، لوئر دیر اور پشاور کے اضلاع میں پیچ آئے۔
کرم میں پولیس چھاپہ
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے سب ڈویژن اپر کرم میں پولیس کے مطابق پولیس کو مطلوب ملزم کے گھر پر چھاپے کے دوران پولیس پر فائرنگ سے ایڈیشنل ایس ایچ او جان سے گئے۔
کرم پولیس کے ایک اعلٰی عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس کی بھاری نفری نے نستی کوٹ گاؤں میں ملزم عابد حسین عرف تہران طوری کے گھر پر چھاپہ مارا لیکن پولیس پارٹی پر فائرنگ شروع ہو گئی۔
انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کے نتیجے میں تھانہ روضہ کے ایڈیشنل ایس ایچ او قیصر حسین جان سے چلے گئے۔
عہدیدار نے بتایا، ’ملزم اور ان کے حمایتوں کی جانب سے پولیس پر فائرنگ شروع کی گئی اور فائرنگ کا تبادلہ آدھے گھنٹے تک جاری رہی اور پھر مجبوراً پولیس ٹیم کو ری ٹریٹ کرنا پڑا۔‘
پولیس عہدیدار کے مطابق ملزم کا تعلق کالعدم زینبیون بریگیڈ سے بتایا جاتا ہے اور اسی سلسلے میں ان کی گرفتاری کے لیے پولیس ان کے گھر پر چھاپہ مارنے گئی تھی۔
پولیس پر حملے
پہلا حملہ پشاور کے تھانہ حسن خیل پر ہوا، جہاں پولیس کے مطابق ایک اہلکار جان سے گیا۔
اسی طرح ضلع لوئر دیر کے تھانہ لاجبوک پر شدت پسندوں کے حملے میں ضلعی پولیس افسر عبدالسلام خالد کے مطابق ایک پولیس اہلکار کی موت ہوئی۔
عبدالسلام خالد نے بتایا کہ پولیس فورس ہر حال میں امن و امان یقینی بنانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں بہادری سے سر انجام دیتی رہے گی۔
اسی طرح تیسرے واقعے میں شدت پسندوں کی جانب سے گذشتہ رات دیر بالا میں پناہ کوٹ کے مقام پر پولیس وین پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار جان سے چلے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دیر بالا کے ضلعی پولیس افسر سید محمد بلال نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ پاکستان کی آزادی کے دن دیر بالا کے تین مزید پولیس اہلکاروں نے جان کی قربانی دی ہیں۔
سید محمد بلال کے مطابق وین پر حملے کے نتیجے میں چھ اہلکار زخمی بھی ہوئے، جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں گذشتہ کچھ عرصے سے امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے اور شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
قبائلی ضلع باجوڑ میں شدت پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے ماموند کے علاقے میں ’ٹارگٹڈ آپریشن‘ کا آغاز بھی کیا گیا ہے۔
آپریشن کے نتیجے میں علاقے میں کرفیو نافذ کیا گیا اور تقریباً 10 ہزار افراد نے نقل مکانی کی۔