تحریک عدم اعتماد: وزیر اعظم اتحادیوں کے مطالبات مانیں گے؟

حکومت کی اتحادی جماعتوں کو شکوہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان سے ملاقاتیں تو کی ہیں لیکن اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر ان سے سیاسی لین دین کی بات نہیں کی۔

وزیراعظم عمران خان نے منگل کو مسلم لیگ ق کے رہنماؤں سے  لاہور میں ملاقات کی (سکرین گریب/ مسلم لیگ ق)

پاکستان میں سیاسی ہلچل بظاہر حتمی مرحلے کی طرف بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اندار ناراض اراکین کے علاوہ اس کی اتحادی جماعتیں بھی خوش نہیں ایسے میں وزیر اعظم عمران خان اتحادیوں سے ملاقاتوں کے دوران ان سے تحریک عدم اعتماد میں حمایت کرنے کی بات ہی نہیں کر رہے ہیں۔ 

وزیر اعظم عمران خان کی گذشتہ دنوں مسلم لیگ ق اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں برف نہیں پگھلی ہے تو کیا وزیراعظم کو سیاسی بحران کو ٹالنے کے لیے ان اتحادیوں سے ایک اور ملاقات کا راؤنڈ کرنا چاہیے یا نہیں؟

ایوانوں میں نمبرز گیم کے معاملے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق حصہ بقدرِ جثہ لینے کے باوجود پنجاب کا سب سے بڑا عہدہ وزارت اعلیٰ حاصل کرنے کی جستجو میں ہے جبکہ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کی ذاتی رائے میں مائنس عمران خان کی صورت میں ہی حکومت بچ سکتی ہے۔ وہ کہہ چکے ہیں: ’تحریک انصاف حکومت بچ سکتی ہے لیکن عمران خان کا بچنا مشکل ہے۔‘

ق لیگ کی قیادت چوہدری پرویز الہی کی سربراہی میں وفاق میں پانچ اور پنجاب میں 10 نشستوں کے باوجود حکومت اور اپوزیشن سے سودے بازی میں سب سے آگے ہے۔

ق لیگ جو پہلے ہی چند نشستوں کے ساتھ سپیکر پنجاب اسمبلی اور وفاق اور پنجاب میں دو دو وزارتیں لے چکی ہے اب دونوں جانب سے وزارت اعلیٰ پنجاب کا عہدہ دیے جانے کی توقع کر رہی ہے۔

چوہدری پرویز الہی گذشتہ کئی روز سے انٹرویوز میں اپنا جھکاؤ کبھی اپوزیشن تو کبھی حکومت کی طرف ڈال کر اپنی سیاسی اہمیت کا احساس دلا رہے ہیں۔

حکومت کی اتحادی جماعتوں کو شکوہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان سے ملاقاتیں تو کی ہیں لیکن اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر ان سے سیاسی لین دین کی بات نہیں کی۔

چوہدری پرویز الہی کے بقول وزیر اعظم اتحادی جماعتوں سے اس معاملے پر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں لہذا وہ اپنا کوئی بھی فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔

عمران خان اتحادیوں سے مذاکرات کیوں نہیں کر رہے؟

پنجاب کے صوبائی وزیر سید یاور بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملاتے ہوئے ان کے تمام مطالبات مان لیے تھے۔

ان کے مطابق: ’ق لیگ کو پنجاب میں سپیکرشپ اور دو وزارتیں دیں جبکہ وفاق میں بھی دو وزیر بنا دیے لہذا اب وزیر اعظم موجودہ صورت حال میں جب ان سے ملاقات کے لیے گئے تو انہیں معلوم تھا یہ اتحادی ہیں اور ہمارے ساتھ ہیں جیسا کہ چوہدری پرویز الہی بیانات بھی دے رہے ہیں کہ وہ حکومت کے اتحادی ہیں اور ساتھ چلیں گے۔‘

وزیر اعظم عمران خان نے یکم مارچ کو مسلم لیگ ق کے رہنماؤں سے ان کے گھر پر ملاقات کی تھی۔

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے یاور بخاری کے مطابق ترین اور علیم خان گروپ بھی ابھی تک پی ٹی آئی کا حصہ ہیں تاہم وہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تبدیلی چاہتے ہیں۔

یاور بخاری کے مطابق: ’وہ نہ چوہدری پرویز الہی کو وزیراعلیٰ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں نہ ہی اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہمارے اراکین ابھی تک ہمارے ساتھ ہیں عمران خان جس کو کہیں گے، ہم اس کا ساتھ دیں گے۔ اگر عثمان بزدار کو برقرار رکھتے ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں، اور اگر کسی اور کو سامنے لاتے ہیں تو اس کا ساتھ دیں گے۔‘

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ چوہدری برادران نے حکومت کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا وہ پانچ سال ساتھ ہی رہیں گے۔

سابق نگران وزیر اعلیٰ اور سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اخلاقیات یا جمہوری روایات کی بجائے اقتدار کا حصول اہم سمجھا جاتا ہے۔

ان کے مطابق چوہدری بردران نے پہلے بھی تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار دلانے کے لیے حصہ لیا تھا اور اب اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف تحریک عدم اعتماد کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ وزارت اعلیٰ پنجاب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب اگر حکومت یہ عہدہ دیتی ہے یا اپوزیشن، وہ اپنے فائدے کے لیے ہی ساتھ دیں گے۔

حسن عسکری کے بقول موجودہ صورت حال میں عمران خان نے ق لیگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی سے ملاقاتیں تو کی ہیں ان کا مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو اپنے ساتھ سمجھتے ہیں۔ تاہم درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے گذشتہ شب ایک ٹی وی چینل پر کہا کہ مائنس عمران خان کی صورت میں شاید تحریک انصاف حکومت بچ سکیں گی ورنہ نہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا اور لاپتہ کارکنوں کے معاملے پر انہوں نے وزیراعظم کو بےبس پایا۔ 

پرویز الہی کو وزارت اعلیٰ ملنے کا کتنا امکان ہے؟

موجودہ صورت حال اور پنجاب اسمبلی میں نشستوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپوزیشن نے بھی وفاق کی طرح پنجاب میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاری کر رکھی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترجمان مسلم لیگ ن عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وفاق کی طرح پنجاب میں بھی اپوزیشن نے نمبرز پورے کر رکھے ہیں اور جیسے ہی قیادت ہدایت دے گی پنجاب میں بھی تحریک عدم اعتماد جلد پیش کر دی جائے گی۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ پنجاب میں بھی کئی حکومتی اراکین ان کی حمایت کرنے کو تیار ہیں، ترین اور علیم گروپ بھی رابطے میں ہیں، اور جلد ہی وہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کریں گے۔

ان سے پوچھا گیا کہ کیا ق لیگ کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ دینے کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اس بارے میں قیادت ہی اعلان کر سکتی ہے کیوں کہ چوہدری برادران سے معاملات پی ڈی ایم قیادت مل کر طے کر رہی ہے۔ ’جو ان کا فیصلہ ہوگا ہمیں قبول ہوگا۔‘

اس بارے میں تجزیہ کار حسن عسکری نے کہا کہ ق لیگ کے علاوہ بھی اپوزیشن حکومتی اراکین کی حمایت کا دعویٰ کر رہی ہے اور ابھی تک دونوں بڑی جماعتوں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے پرویز الہی کو وزیر اعلیٰ بنانے پر آمادگی ظاہر نہیں کی گئی ہے اسی لیے شاید پرویز الہی بھی کسی حتمی اعلان تک نہیں پہنچے۔

ان کے بقول ابھی صرف پیپلز پارٹی نے انہیں وزارت اعلیٰ پنجاب کی پیشکش کی ہے لیکن ان کی پنجاب میں صرف سات نشستیں ہیں لہذا ان کی پیشکش کو زیادہ سنجیدہ نہیں سمجھا جاسکتا۔

اس لیے ابھی تک اتحادی کوئی حتمی اعلان نہیں کر پائے اور اسی صورت حال کے پیش نظر حکومت بھی اتحادیوں کو مزید کوئی عہدہ دینے کو تیار نہیں ہے۔

مسلم لیگ ق کی قیادت گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں سیاسی ملاقاتوں کے بعد پیر کو اچانک واپس لاہور پہنچ گئی تھی۔

پرویز الہی کے حامیوں کی جانب سے گذشتہ دنوں مسلم لیگ ق کے دفتر کے اطراف وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کو بنانے کے مطالبہ پر مبنی بینرز بھی آویزاں کر دیے  گئے تھے لیکن آج بروز جمعرات وہ ہٹا دیے گئے ہیں۔

تحریک انصاف کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ رابطے یقیناً جاری ہوں گے لیکن عمران خان کی ان سے ایک اور ملاقات ان کی سیاسی مشکلات کو شاید ٹال سکیں گے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست