عمران خان کا سرپرائز، کوئی نیا ایجنڈا؟

عمران خان اتنے سادہ ہرگز نہیں کہ وہ پارلیمان میں گم ہونے والی چابی کو پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں تلاش کرتے پھریں۔ اتنا تو وہ جانتے ہی ہوں گے کہ اراکین جب منحرف ہو جاتے ہیں تو وہ کسی ایک جلسہ عام کے دباؤ سے واپس نہیں آیا کرتے۔

20 مارچ 2022 کی اس تصویر میں وزیراعظم عمران خان درگئی، مالاکنڈ میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے (فوٹو: وزیراعظم آفس آفیشل فیس بک پیج)

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


کیا عمران خان اس بار پارلیمانی سیاست سے آگے کا کچھ سوچ رہے ہیں؟ ایک عدم اعتماد اس نظام میں ان کے خلاف پیش کی جا چکی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک عدم اعتماد اب وہ اس نظام کے خلاف پیش کرنے جا رہے ہیں؟

پریڈ گراؤنڈ کے آج کے جلسے سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ بحران پارلیمان کے اندر ہے، لیکن میلہ پارلیمان کے باہر سجایا جا رہا ہے۔ عمران خان اتنے سادہ ہرگز نہیں کہ وہ پارلیمان میں گم ہونے والی چابی کو پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں تلاش کرتے پھریں۔ اتنا تو وہ جانتے ہی ہوں گے کہ اراکین جب منحرف ہو جاتے ہیں تو وہ کسی ایک جلسہ عام کے دباؤ سے واپس نہیں آیا کرتے۔

تو کیا وہ اس جلسہ عام کو آئندہ انتخابات کی مہم کا نقطہ آغاز بنانا چاہتے ہیں؟ میرے خیال میں اس کا جواب بھی نفی میں ہے اور یہ بات محض جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ گذشتہ انتخابات میں جب  وہ اپنی مقبولیت کے نقطہ عروج پر تھے، تب بھی انہیں ق لیگ، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے الیکٹیبلز کو ٹکٹ دینا پڑا تب جا کر چند ووٹوں اور نصف درجن اتحادیوں کی بدولت یہ حکومت قائم ہو سکی۔ آج تو ماحول مختلف ہے۔ تب حزب اختلاف کے اقوال زریں کا رومان بھی تھا، اب تین سالہ دور اقتدار کا نامہ اعمال پیٹھ پر رکھا ہے اور الیکٹیبلز بھی منہ موڑ چکے، اب انتخابی کامیابی اتنی آسان نہیں۔

عمران خان، میرا خیال یہ ہے کہ اس بار پارلیمانی سیاست سے آگے کا سوچ رہے ہیں۔ لاہور میں ہونے والا 2011 کا تاریخی جلسہ تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست میں جس اہمیت کا حامل ہے، ہو سکتا ہے پریڈ گراؤنڈ کا جلسہ تحریک انصاف کی ’پارلیمان سے آگے‘ کی سیاست میں وہی اہمیت اختیار کر جائے۔

پارلیمانی سیاست میں بھی عمران خان جمہوری آداب سے بے نیاز رہے۔ اپنی افتاد طبع کے سارے حوالوں سے وہ پارلیمانی جمہوریت کے آدمی ہی نہیں۔ ان کی جماعت کی فکری ساخت بھی ان جمہوری تکلفات سے بے نیاز ہے۔ چنانچہ پارلیمان میں وہ حزب اختلاف کو ایک غیر ضروری چیز سمجھتے ہیں اور ان کے تنظیمی ڈھانچے کی جمہوری فہم و فراست کا خلاصہ یہ ہے کہ اوپر بندہ دیانت دار ہو تو نیچے سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اسی منطق کے تحت ہر جماعت سے بندے لیے گئے اور توڑے گئے، یہاں تک کہ زرداری کے وزیر خزانہ کو مشیر خزانہ بنا دیا گیا کہ اوپر بندہ دیانت دار ہونا چاہیے، نیچے سب چلتا ہے۔

چنانچہ بائیس سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار ملا تو معلوم ہوا کہ نہ کوئی تیاری تھی نہ منصوبہ بندی۔ بس ایک ہیرو ورشپ تھی کہ اوپر ایک دیانت دار بندہ آئے گا اور شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پینے کے بعد رات گئے تک مل کر ڈی چوک میں مٹر گشت کیا کریں گے۔ یہ بیانیہ پانی کا بلبلہ ثابت ہوا۔

تحریک انصاف کے سامنے اب دو بڑے چیلنج ہیں۔ اول: ان سے ان کی کارکردگی کا حساب نہ مانگا جائے۔ چنانچہ ایک ماحول بنایا جا رہا ہے کہ ہم آلو پیاز جیسی معمولی چیزوں کو سستا کرنے نہیں آئے، ہمارے اہداف بہت بڑے اور بلند ہیں۔دوم: اوپر بندہ ایماندار ہو تو سب ٹھیک ہو جائے گا کہ ہر جگہ اب ویسا ہی کوئی نیا رومان تخلیق کیا جائے۔

اس رومان کی مکمل نقاب کشائی میں وقت لگے گا لیکن یہ رومان آج کے جلسے میں جزوی طور پر جلوہ افروز ہو سکتا ہے۔ اب کہا جائے گا کہ اوپر بندہ ٹھیک بھی ہو تو وہ اس پارلیمانی نظام میں کام نہیں کر سکتا، کیونکہ اس میں بلیک میلنگ بہت زیادہ ہے۔ یہ ایک مکمل پوسٹ ٹروتھ پیکج ہو گا جو پوری شدت سے سامنے لایا جائے گا۔

اس کے بعد مطالبہ یہ ہوگا کہ یا تو ہمیں دو تہائی اکثریت دی جائے تاکہ جمہوری مسائل اور حزب اختلاف جیسی قباحتوں سے بے نیاز ہو کر چین ایران جیسا نظام لا سکیں یا پھر ہمیں پارلیمانی نظام قبول ہی نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اتحادی ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے تو جدوجہد پارلیمانی نظام کے اندر رہ کر ہو گی ورنہ  امکان یہ ہے کہ نیا پاکستان اب نئے نظام کی تلاش میں مجنوں ہو جائے گا۔

اس نئے نظام کی جستجو میں اجزائے تراکیبی پہلے ہی سے جمع کیے جا چکے۔ مذہب کا پرچم بھی عمران خان کے ہاتھ میں ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتیں قومی مسائل کی سیاست کر رہی ہیں لیکن عمران خان کی سیاست کا محور مذہب کا استعمال ہے۔ سامراج دشمنی کا پرچم بھی وہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ احتساب کا جھنڈا بھی انہی کے پاس ہے۔ ارطغرل بے کی طرح وہ بے پناہ خوبیوں سے مالا مال ہیں اور عقل کل ہیں لیکن یہ پارلیمانی سیاست کی بلیک میلنگ ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے، چنانچہ رجلِ رشید اب ایک نیا نظام مانگتا ہے۔

عمران خان کا یہ خیال ہے کہ ووٹر کی وابستگی ان کی ذات کے ساتھ ہے اور یہ درست بات ہے۔  معاملہ مگر یہ ہے کہ پارلیمانی سیاست میں کمپرومائز کرنے پڑتے ہیں، الیکٹیبلز ڈھونڈنے پڑتے ہیں، انہیں راضی رکھنا پڑتا ہے، اتحادیوں کی بلیک میلنگ ہوتی ہے۔ چنانچہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نظام کو بدل دیا جائے۔ قدرت نے ہمیں ایک رجل رشید دیا ہے تو ہمیں کفران نعمت کی بجائے اسے پورا موقع دینا چاہیے کہ وہ ملک کی قسمت بدل دے۔

سوال مگر یہ بھی ہے کہ عمران اگر نظام کو چیلنج کرتے ہیں تو نتیجہ کیا ہوگا؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ