عمران خان نے مغرب کو برا بھلا کیوں کہا؟

سلمیٰ شاہ لکھتی ہیں کہ اگر ہمارے کئی سال کی محنت اور ترقی پذیر دنیا کی مدد کرنے کا کوئی مطلب ہے تو اب اس کا پھل ملنے کا وقت ہے۔

وزیر اعظم عمران خان وزیرآباد میں 13 مارچ 2022 کو جلسہ عام سے خطاب کر رہے ہیں ۔عمران خان کو اب ان ممالک سے خطرہ ہے جو معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے امدادی پروگراموں پر بھاری رقم خرچ کرتے ہیں (پی آئی ڈی)

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں گذشتہ دنوں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے مغربی سفارت کاروں کی جانب سے پوتن کے یوکرین پر حملے کی مذمت کے لیے ممالک پر ڈالے جانے والے مغربی دباؤ پر تنقید کی۔

متحدہ عرب امارات، چین اور بھارت کے ساتھ پاکستان نے روسی کارروائی پر ووٹنگ سے اجتناب کیا اور اس اقدام پر تنقید کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’آپ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کیا ہم آپ کے غلام ہیں کہ آپ جو کہیں گے ہم کریں گے؟‘

پاکستان کو اپنے موقف پر آگے چل کر افسوس ہو سکتا ہے۔ غیرجانبدار رہنے کی کوشش کرتے ہوئے، یہ افغانستان میں نیٹو کی حمایت کی وجہ سے اپنے مصائب کے بارے میں پرانی شکایات کو ساتھ ہی پیش کر رہا ہے۔

وہ ان قوموں کے خلاف سخت موقف اختیار کر رہے ہیں جو ان کے معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے امدادی پروگراموں پر بھاری رقم خرچ کرتی ہیں اور دوسری چیزوں کے علاوہ لاکھوں پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کے ذریعے لوگوں کو غربت سے نکالنے کی کوشش کرتی ہیں۔

بحران کے دوران مغربی طاقتوں کو اس سیاسی دباؤ کے بارے میں زیادہ منظم ہونا چاہیے جو وہ ان لوگوں پر ڈال سکتے ہیں جو دوسری قوموں کی سخاوت سے فائدہ تو اٹھاتے ہیں لیکن ان کا اعتراف کرنے سے کتراتے رہتے ہیں۔ ان کا بھی ہم پر فرض ہے۔ حال ہی میں برطانیہ اور امریکہ، پاکستان کو دو طرفہ امداد دینے والے ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔

بلاشبہ، امدادی رقم بنیادی طور پر مدد کے لیے ہوتی ہے۔ امیر ممالک کی طرف سے انسانی مصائب کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ یہ ایک دوسرے پر انحصار بڑھاتی ہوئی دنیا میں ہمارے اپنے سلامتی کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے بھی تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ صورت حال مختلف نہیں ہے۔

اگر ہماری ترقی پذیر دنیا کی مدد کرنے کا کوئی مطلب ہے، تو اب اس کا پھل آنے کا وقت ہے۔ عمران خان نے عام پاکستانیوں کی طرف سے برداشت کیے جانے والے مصائب کی نشاندہی درست کی اور کہا کہ وہ تعداد میں ہم سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہیں۔ وہ یہ پوچھنے میں بھی درست تھے کہ کیا ہم نے اسی تجربے کو بھارت پر لاگو کیا تھا، لیکن ہم یہ ماننے کی چال میں نہیں پھنس سکتے کہ ہمیں قوموں کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔

پوتن کمزور قوموں کی طرف سے حمایت کی یقین دہانیوں کو بڑی قیمت پر حاصل کرنے سے پہلے دو بار نہیں سوچیں گے۔ اس کے باوجود مغربی اقوام کو محض ایک واقعے میں مایوسی کا اظہار کرنے پر مسترد کر دیا جاتا ہے۔

ہم غلط اقدامات پر اس بدماشی کا نشانہ بن رہے ہیں کیوں کہ ہم نے غلطیاں کی ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں میں مغرب کی عالمی سطح سے پسپائی غیرمعمولی رہی ہے۔ خاص طور پر امریکہ اب دنیا کے پولیس مین کا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس میں عراق جنگ کی ناکامی کے بعد شدت آئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ علیحدگی ہماری سیاست میں زیادہ اندرونی معملات کو دیکھنے کی ایک پاپولسٹ تبدیلی کے ساتھ موافق ہے۔ لیکن اب ہمارے لیے ایک اہم کردار ادا کرنا ہے، اور ہمیں اپنے اختیار میں موجود آلات کو استعمال کرتے ہوئے سنجیدہ ہونا چاہیے۔

مغربی لبرل تسلط کے خاتمے کے ساتھ ساتھ، اور پرانے عالمی نظام کی گمشدگی کے بارے میں تمام تجزیوں کے درمیان، عمران خان کا انداز جغرافیائی سیاسی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے تقریباً سرد جنگ کی طرح۔ ممالک تیزی سے ’ہم بمقابلہ ان کے‘ کے منظر نامے میں تقسیم ہو رہے ہیں۔

برطانوی وزیر اعظم کے دفتر، نمبر 10، کے سابق کمیونیکیشن کے ڈائریکٹر ایلسٹر کیمبل نے اس تقسیم کو آمریت بمقابلہ جمہوریت، پرانے سرمایہ دار بمقابلہ کمیونسٹ کے طور پر نہایت اچھے طریقے سے بیان کیا ہے۔ ہر ملک آمریت کی تشریح پر فٹ نہیں بیٹھتا، لیکن وہ طاقتور، آئیکون کلاسک تھیم مخالف فریق میں موجود ہے۔

ہم جمہوری اقدار اور ان کو برقرار رکھنے کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہیں، ہم اپنی ’سافٹ پاور‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اس برطانوی برانڈ کی شناخت کو بیرون ملک کیسے بیچنا ہے کیوں کہ یہ گونجتی ہے، لیکن یہ سب کچھ بے معنی ہے اگر ہم اس کی پشت پناہی براہ راست اور اصل کارروائی کے ساتھ نہیں کرتے ہیں۔

یہ پابندیوں کے بارے میں بھی درست ہے، یہ فوجی امداد کے بارے میں سچ ہے اور یہ یقینی طور پر ہمارے سرد ہارڈ کیش کے بارے میں سچ ہے۔ ہماری پوزیشن غیر مستحکم ہے۔ اگر ہم واقعی اپنی مشکل سے جیتی گئی آزادی پر یقین رکھتے ہیں، تو ہمیں اپنا پیسہ وہیں لگانا چاہیے جہاں ہمیں ضرورت ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ