پاکستانی نوجوان ارجیت سنگھ کے کنسرٹ کے خواہش مند کیوں؟

چند روز قبل ٹورانٹو میں ارجیت سنگھ کے کنسرٹ کے دوران ایک پاکستانی مداح نے پاکستان کا پرچم لہرانے کی کوشش کی تو سکیورٹی کے عملے نے اسے روک دیا لیکن ارجیت سنگھ نے فوراً مداخلت کرتے ہوئے سکیورٹی عملے کو ایسا کرنے سے منع کر دیا۔

15 مئی 2022 کی اس تصویر میں بھارتی گلو کار ارجیت سنگھ امریکہ میں ہونے والے ایک کنسرٹ کے دوران(تصویر: ارجیت سنگھ ٹوئٹر)

جب بات ارجیت سنگھ کی ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ پاکستانی ہیں یا بھارتی۔

اگر گذشتہ برس وہ بھارت میں سب سے زیادہ سنے گئے آرٹسٹ تھے تو پاکستان میں بھی ان سے آگے کوئی نہ تھا۔ پہلے ان کی آواز نے مداحوں کو دیوانہ کیا تو اب پاکستان کے بارے میں ان کا پیار بھرا رویہ لوگوں کے دل جیت رہا ہے۔ 

دو دن پہلے ٹورانٹو میں اپنے کنسرٹ کے دوران ’اگر تم ساتھ ہو‘ کے گلوکار نے ایک بار پھر پاکستان کے بارے میں خوبصورت بات کی۔ جب کنسرٹ ہال میں ایک شخص پاکستان کا پرچم لہرانے لگا تو سکیورٹی عملے نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ ارجیت نے جیسے ہی دیکھا فوراً مداخلت کی اور عملے کو ایسا کرنے سے منع کر دیا۔

جذبات کی رو میں بہتے سامعین نے ان کی تائید کرتے ہوئے ہال سر پہ اٹھا لیا۔ بعد میں یہی شور سوشل میڈیا پہ سنائی دیا جہاں پاکستانی پرستاروں کی بہت بڑی تعداد ارجیت کے وارے جا رہی ہے۔ 

مگر ایسا نہیں کہ سٹیج پر کھڑے ہو کر انہوں نے پہلی بار اپنے رویے سے پاکستانیوں کے دل جیتے ہوں۔ اس سے قبل گذشتہ برس نومبر میں ابو ظبی میں شو کے دوران انہوں نے پاکستانی گلوکاروں پر بالی وڈ کے دروازے بند کیے جانے پر صدائے احتجاج بلند کی۔

پاکستانی گلوکاروں کے گیت گانے سے پہلے انہوں نے رک کر کہا ’میرا ایک سوال ہے۔ یہ ایک غلط (یعنی) متنازع سوال ہے۔ لیکن پھر بھی میں پوچھنا چاہتا ہوں کیونکہ میرے کو گھنٹہ فرق نہیں پڑتا۔‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’میں خبریں نہیں دیکھتا اس لیے مجھے ایک چیز بتائیے کہ کیا پاکستانی موسیقی پر بھارت میں پابندی ہے؟ کیا یہ ابھی تک برقرار ہے یا اٹھا لی گئی ہے؟‘ اس کے بعد انہوں نے عاطف اسلم، راحت فتح علی خان اور شفقت امانت علی کا نام لیتے ہوئے انہیں اپنے پسندیدہ فن کاروں میں شمار کیا۔

اس سے ملتا جلتا ایک منظر ہیوسٹن میں دیکھنے کو ملا۔ گذشتہ ماہ امریکی ریاست میں پرفارم کرتے ہوئے ارجیت نے اپنے ایک پاکستانی پرستار کو دیکھا جو مسلسل ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہیں داد دیے جا رہا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے پاکستانی مداح کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’میں پاکستان کے دورے کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘

 گویا وہ کہہ رہے ہوں پیار کے کچھ پھول بچا کر رکھو وہاں نچھاور کرنا۔

اس کلپ کا سوشل میڈیا پر وائرل ہونا تھا کہ پاکستانی پرستار فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر دھڑا دھڑ ارجیت سنگھ کو ویلکم کرنے لگے۔ نوجوانوں کی حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ ان کی اس سے بڑھ کر کوئی دوسری خواہش نہیں کہ ارجیت سنگھ پاکستان آئیں اور وہ انہیں براہ راست پرفارم کرتا ہوا دیکھ سکیں۔ 

ہم نے اپنے بڑوں کو اس بات پر افسوس کرتے دیکھا کہ وہ کبھی محمد رفیع یا لتا منگیشکر کو پاکستان میں شو کرتے نہیں دیکھ سکے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ ان کی زندگی کے خوبصورت ترین خوابوں میں سے ایک کی تکمیل ہوتی۔

رفیع صاحب بہت جلد چلے گئے تھے، اب تو لتا جی بھی نہیں رہیں لیکن پاکستان کی تین چار نسلیں آج بھی اپنے اندر یہ خلا محسوس کرتی ہیں جنہیں اب کوئی نہیں بھر سکے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماضی میں گلوکاروں کے گیت ریڈیو پر بجتے، کیسٹ کی شکل میں خریدے اور فلم کے اندر دیکھے جاتے تھے۔ ان تینوں میں گلوکار کی آواز تھی چہرہ نہیں۔ بہت ہوا تو کبھی میگزین یا اخبار میں اپنی پسندیدہ آوازوں کو مجسم دیکھ لیا۔ مگر ان کی سرکولیشن تھی ہی کتنی؟ سو ماضی کے ہر عہد میں لوگ آواز جس کی بھی سن رہے ہوں چہرہ ہیرو اور ہیروئن کا دیکھتے اور خود کو انہی سے ریلیٹ کرتے تھے۔ 

سوشل میڈیا نے پس پردہ گلوکار کو پس پردہ نہیں رہنے دیا۔ اب ان کی موجودگی اور پرستاروں کی منظم تعداد باقاعدہ فالونگ کی شکل میں نئے رجحانات متعارف کروا رہی ہے۔

 رفیع اور لتا سٹیج پر ’گاتے‘ جبکہ ارجیت اور شریا گھوشال ’پرفارم‘ کرتے ہیں۔ اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کی بنا پر کشور اور خوبصورتی کی وجہ سے رونا لیلی بھی سٹیج پر پرفارم کرتے رہے لیکن سوشل میڈیا نہ ہونے کے سبب یہ ایک محدود سرگرمی تھی۔ 

ماضی میں فلم دیکھنے کے بعد ہیرو یا ہیروئن کا امیج تادیر ذہن کے پردے پر رقص کرتا جبکہ آج معلومات کی فراوانی اور سوشل میڈیا ایپس تک آسان رسائی زیادہ وقت کے لیے ایک مقام پر ٹکنے نہیں دیتی۔ یہ بات بھی کافی حد تک گلوکاروں کے حق میں گئی۔ 

گیت سننا پہلے کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہو گیا۔ واک کرتے ہوئے، سفر یا کسی کے انتظار کے دوران ہینڈز فری کان میں لگانا اور نہایت معمولی ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ گلوکاروں کے گیت سننا زندگی کے معمول میں شامل ہو گیا۔

آج کتنے لوگ ریڈیو یا ٹیپ ریکارڈر کو ہاتھ میں لے کر گھر سے یوں نکلتے ہوں گے جیسے آپ موبائل لے کر پھرتے ہیں؟ 

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ تک رسائی کی بدولت ہیرو کو گلوکار کے مقابلے میں ایک اور مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ہیرو کا موازنہ براہ راست عالمی ستاروں کے ساتھ ہونے لگا۔ بالی وڈ کی فارمولا فلموں سے اکتا کر نوجوان نسل ہالی وڈ میں جھانکنے لگی۔ سیزن کا رجحان اور ان کی مقبولیت اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہو رہی ہے۔

 انٹرٹینمنٹ کے لیے بالی وڈ فلمیں دیکھنے کے باوجود آج کے ٹین ایجرز عامر، شاہ رخ یا سلمان کی طرف ویسے نہیں لپکتے جیسے ویرات کوہلی یا ارجیت سنگھ کی طرف۔

تینوں خانز نوے کی دہائی میں جوان ہوتی نسل کے مقبول ترین فرد تو ہو سکتے ہیں لیکن 21ویں صدی میں، بالخصوص گذشتہ ایک دہائی سے بالی وڈ فلموں کی نسبت ان کے گیتوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ آج کے ٹین ایجرز خان کی بجائے سنگھ کو ’بادشاہ‘ کہتے اور مانتے ہیں۔

 ہالی وڈ فلمیں اور کوریا کے سیزن دیکھنے والے نوجوان بھی اپنے جذبات کا عکس مقامی گیتوں میں ہی دیکھتے ہیں۔ وہ فلمیں کسی بھی زبان کی دیکھیں گیت سننے کے لیے اپنے کلچر کی فضا میں پلٹنے پر مجبور ہیں۔

ہم نے محبت، اداسی اور زندگی کے بیشتر جذباتی لمحات ارجیت سنگھ کی آواز میں بسر کیے۔ ہم انہی کو پوجتے ہیں۔ اس لیے پاکستانی نوجوانوں کی سب سے بڑی خواہش ارجیت سنگھ کو اپنے سامنے پرفارم کرتا دیکھنا ہے۔

ہمیں کسی بالی وڈ ہیرو کی ضرورت نہیں بس گٹار تھما کر ارجیت کو پاکستان کا دورہ کرنے دیجیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی