’ذہنی مریض‘ خاتون مسجد میں کتا لانے پر جیل بھیج دی گئیں

انڈونیشیا میں ایک خاتون کو مسجد میں کتا لانے پر جیل بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے ان کی ذہنی حالت پر سوال اٹھانے کے باجود ان پر ’توہین مذہب‘ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

( Twitter/screengrab )

انڈونیشیا میں ایک خاتون کو مسجد میں کتا لانے پر جیل بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے ان کی ذہنی حالت پر سوال اٹھانے کے باجود ان پر ’توہین مذہب‘ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

اس واقعے کی ویڈیو ریکارڈنگ کے مطابق خاتون کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ کیتھولک ہیں جس کے بعد دارالحکومت جکارتہ کے جنوبی شہر بوگور کی پولیس کی جانب سے انہیں گرفتار کر کے توہین مذہب کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

خاتون پر جوتوں سمیت مسجد میں داخل ہونے اور اپنے شوہر کی دوسری شادی کے حوالے سے مسجد میں موجود عبادت گزاروں سے بحث کرنے کا الزام ہے۔

واضح رہے کہ مسلمان مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتارنا ضروری خیال کرتے ہیں اور وہ کتے کو نجس تصور کرتے ہیں۔

ویڈیو میں خاتون کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ان کے شوہر کچھ دیر بعد اسی مسجد میں شادی کرنے والے ہیں۔ وہ اس بارے میں مسجد میں موجود لوگوں سے سوال کر رہی ہیں جنہیں اس بارے میں بظاہر کچھ معلوم نہیں ہے۔

بوگور کے پولیس سربراہ اینڈی محمد ڈئیکی پستیکا کے مطابق خاتون کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کے تحت تفتیش کی جا رہی ہے۔ پانچ گواہان اور ویڈیو ریکارڈنگ سمیت خاتون کے جوتے ثبوتوں میں شامل ہیں۔ انڈونیشیا میں توہین مذہب کے الزام میں پانچ سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

مذکورہ خاتون اس وقت پولیس ہسپتال میں نظر بند ہیں لیکن ڈاکٹروں کی جانب سے انہیں دماغی امراض کے مرکز منتقل کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے ابھی تک خاتون کی شناخت نہیں ظاہر کی گئی۔ ہسپتال کی جانب سے کہا گیا ہے کہ خاتون کو خصوصی مرکز میں منتقل کرنے سے وہ اپنے خاندان کے قریب رہ سکیں گی اور اس طرح ان سے بات چیت میں آسانی ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس ترجمان کے مطابق خاتون کے خاندان والوں نے دو ہسپتالوں کی جانب سے جاری کیے جانے والے دستاویز پیش کیے ہیں جس کے مطابق وہ ماضی میں بھی نفسیاتی مسائل کا شکار رہی ہیں۔

پولیس کے مطابق وہ خاتون کی دماغی حالت جانچنے کے لیے ان کا نفسیاتی تجزیہ کریں گے جس کے بعد ان کی دماغی صحت کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق توہین مذہب کا یہ مقدمہ ’بدقسمتی اور بے ہودگی ‘ پر مبنی ہے۔ ان کی جانب سے یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ کس طرح انڈونیشیا میں توہین مذہب کا قانون اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ اس قانون میں اصلاحات ہونی چاہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو عثمان حامد کہتے ہیں کہ ’ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ ان کی فلاح پر توجہ دیں۔ ان کی جانب سے کی جانے والی حرکت نامناسب محسوس ہوتی ہے لیکن یہ معاملہ پرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے۔ یہ عدالت میں بھیجے جانے والا معاملہ نہیں ہے۔‘

خاتون کے ساتھ مسجد میں داخل ہونے والے کتے کو مسجد سے باہر نکال دیا گیا تھا لیکن منگل کو جانوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کی جانب سے اسے پکڑنے کی کوشش کے دوران وہ کار کی ٹکر سے مر گیا۔

گذشتہ سال سمارٹا کی ایک عدالت نے آزان کی بلند آواز کے بارے میں شکایت کرنے پر ایک خاتون کو توہین کے الزام میں 18 ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم انہیں مئی میں پرول پر رہا کر دیا گیا ہے۔

خاتون کے بیان کے بعد جولائی 2016 میں ایک مشتعل ہجوم کی جانب سے تنجونگ بالائی کے علاقے میں کم سے کم 14 بدھ عبادت گاہوں کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا تھا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا