ورلڈ کپ 1999 فائنل: شکست پر فکسنگ کے الزامات کیوں لگے؟

پاکستانی ٹیم اس ورلڈ کپ میں بہت مضبوط اور چیمپیئن بننے کے لیے ہاٹ فیورٹ تھی۔ ٹیم کی بیٹنگ اور بولنگ اس قدر مضبوط تھی کہ ہر بڑے تجزیہ نگار اور سابق ٹیسٹ کرکٹر نے پاکستان کی جیت کی پیشن گوئی کی ہوئی تھی۔

20 جون 1999 کی اس تصویر میں آسٹریلوی بولر شین وارن پاکستانی بلے باز اعجاز احمد کو آؤٹ کرنے کے بعد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں، وکٹوں کے پیچھے ایڈم گلکرسٹ بھی دیکھے جا سکتے ہیں(اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ پر فکسنگ کے اثرات اس قدر گہرے رہے ہیں کہ اگر پاکستان ٹیم کوئی میچ اچھا کھیل کر بھی ہار جائے تو فکسنگ کی آوازیں اٹھتی ہیں اور عوامی ردعمل یہی ہوتا ہے کہ شاید کھلاڑیوں نے ہارنے کے لیے پیسے لے لیے ہیں۔

1999 کا ورلڈکپ انگلینڈ میں کھیلا گیا جس کے فائنل میں آسٹریلیا نے پاکستان کو یک طرفہ طور پر شکست دے کر جیت لیا تھا۔

پاکستان ٹیم اس ورلڈ کپ میں بہت مضبوط اور چیمپیئن بننے کے لیے ہاٹ فیورٹ تھی۔ ٹیم کی بیٹنگ اور بولنگ اس قدر مضبوط تھی کہ ہر بڑے تجزیہ نگار اور سابق ٹیسٹ کرکٹر نے پاکستان کی جیت کی پیشن گوئی کی ہوئی تھی۔

پاکستان نے اپنے گروپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف فتح سے آغاز کیا تھا اور چار میچ باآسانی جیت لیے تھے جبکہ اسے تین میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سپر سکس مرحلے پر جنوبی افریقہ سے شکست پر تو کسی کی انگلی نہیں اٹھی تھی لیکن بھارت کے خلاف قومی ٹیم کی کارکردگی پر سوال اٹھا تھا۔ سب سے حیرت انگیز شکست بنگلہ دیش کے خلاف تھی جس کو ابھی تک ٹیسٹ سٹیٹس نہیں ملا تھا، اس کےخلاف قومی ٹیم ریت کی دیوار ثابت ہوئی تھی اور وہیں سے شکوک کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

پاکستان بنگلہ دیش میچ

پاکستان بنگلہ دیش میچ میں وہ بلے باز اوندھے منہ گر پڑے تھے جو بڑی ٹیموں کے خلاف تابڑ توڑ سنچریاں بنارہے تھے۔

 سعید انور، شاہد آفریدی، انضمام الحق، اعجاز احمد، معین خان، عبدالرزاق اور اظہر محمود پر مشتمل زبردست بیٹنگ لائن 223 رنز کا ہدف بھی عبورنہیں کرپائی تھی اور 161 رنز پر سمٹ گئی تھی۔

میچ میں کچھ ایسے انہونے واقعات ہوئے جس نے سب کو حیران کردیا۔ سعید انور نے اچھا کھیلتے ہوئے اچانک بیٹ گرپ تبدیل کی اورغیر ضروری رن لیتے ہوئے رن آؤٹ ہوگئے۔

یہی حرکت وسیم اکرم اور اظہر محمود نے کی جبکہ انضمام الحق ایسے بولر سے خوفزدہ تھے جس کا معیار کلب کرکٹ بھی نہیں تھا حالانکہ یہ میچ چھوٹے سے کرکٹ گراؤنڈ نارتھمپٹن میں ہو رہا تھا۔

اس میچ کے بعد وزڈن نے سوال اٹھایا تھا کہ وسیم اکرم اور اظہر محمود نے اچھا کھیلتے ہوئے وکٹیں کیوں ضائع کیں اور آسان ہدف سے کیوں فرار اختیار کی؟ وزڈن نے اس میچ کو مشکوک قرار دیا تھا۔

پاکستان بھارت میچ

پاکستان بھارت میچ مانچسٹر میں کھیلا گیا۔ جہاں بھارتی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے شدید مشکلات کا شکار تھی۔ وسیم اکرم، شعیب اختراور اظہر محمود کی سوئنگ بولنگ پر بھارت بمشکل تمام 227 رنز بنا سکا۔

 پاکستان کی عظیم الشان بیٹنگ لائن نے ایک بار پھر دھوکہ دیا اور 180 رنز پر اس طرح آؤٹ ہوئی جیسے کوئی کلب ٹیم۔

انضمام الحق نے ایک بار پھر سست ترین بیٹنگ کی اور شکست تک پہنچنے کی کامیاب اننگز کھیلی۔

فائنل میچ

پاکستان سپر سکس مرحلے پر دو میچ ہار کر بھی سیمی فائنل میں پہنچ گیا جہاں اس نے نیوزی لینڈ کو یک طرفہ شکست دے کرپاکستانیوں کو یقین دلا دیا کہ 20 جون کو آسٹریلیا کے خلاف وہ شاندار کارکردگی دکھائے گا۔

پورا ملک بے چین تھا کہ کب فائنل شروع ہو اور سنہری جھلملاتی ٹرافی پر سبز سفید پرچم اپنا رنگ جمائے۔

لارڈز کے تاریخی گراؤنڈ میں راقم الحروف نے جب میچ سے قبل متعدد انگریز تماشائیوں سے پوچھا کون جیتے گا تو سب کا متفقہ فیصلہ تھا۔ پاکستان

کیونکہ پاکستان دو غیر متوقع شکستوں کے باوجود فیورٹ تھا اس لیے سب کی نظریں پاکستان پر تھیں۔

پاکستان کے کروڑوں مداحوں کے ساتھ سٹیڈیم میں موجود ہزاروں برطانوی پاکستانیوں کو جیت کی امید تھی لیکن پاکستان ٹیم نےایک بار پھر دھوکہ دیا اور ایک آسان پچ پر محض 132 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔

اپنے کیرئیر کی بہترین فارم میں سعید انور انضمام الحق نے مایوس کن بیٹنگ کی جبکہ بقیہ بلے بازوں نے فائنل میچ کو کسی کلب میچ سے بھی برے انداز میں کھیلا۔

اس پورے ٹورنامنٹ میں وقار یونس کو نظر انداز کیا گیا، جبکہ محمد یوسف کی موجودگی میں وجاہت اللہ واسطی کو کھلایا گیا۔

فائنل میچ کی شرمناک ہار سے بھونچال آگیا

سٹیڈیم میں موجود پاکستانی تماشائیوں نے ٹیم کی بد ترین کارکردگی پر شور مچایا جبکہ انگریز تماشائیوں نے اسے کھلی ہوئی فکسنگ قرار دیا۔ ایک فائنل میچ میں اس سے بڑی شکست نہیں ہوسکتی تھی۔

پاکستان میں تہلکہ مچ گیا اور لوگ بھرپور احتجاج کرنے لگے۔ حالات میں تناؤ اور الزامات کی بارش دیکھ کر اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن جسٹس کرامت بھنڈاری کی سربراہی میں تشکیل دیا جس نے بے دلی سے اس کی رسمی تحقیقات شروع کی۔

کمیشن نے کچھ کھلاڑیوں، چند صحافیوں اور بورڈ کے چیئرمین خالد محمود کے بیانات قلمبند کیے۔

کمیشن نے چند سوالات اٹھائے کہ بنگلہ دیش کے میچ میں وزڈن کے مطابق وسیم اکرم اور اظہر محمود کیوں جان بوجھ کر آؤٹ ہوئے؟

بنگلہ دیش کے میچ کے فوری بعد ملین ڈالر بورڈ کے اکاؤنٹ میں کہاں سے ٹرانسفر ہوئے؟

بنگلہ دیش کے میچ میں کھلاڑی کیوں برا کھیلے؟

کمیشن نے سست روی سے تحقیقات کرتے ہوئے۔ 2001 میں فیصلہ دیا کہ پاکستان ٹیم کے کسی فکسنگ یا کرپشن میں ملوث ہونے کےثبوت نہیں ملے اور نہ کسی کو سزا دی گئی۔

سرفراز نواز اور جاوید میاں داد کے الزامات

سابق فاسٹ بولر سرفراز نواز نے ورلڈکپ کے دوران ہی کہا تھا کہ پاکستان ٹیم شروع دن سے فکسنگ کرنے کا منصوبہ لے کر آئی ہے اوراس نے تین میچ فکس کیے ہیں۔

سرفراز نواز نے الزام لگایا کہ پاکستان بنگلہ دیش، بھارت اور آسٹریلیا سے پاکستان جان بوجھ کر ہارا ہے اور وسیم اکرم سمیت ٹیم کے متعدد کھلاڑی جوئے میں ملوث ہیں۔ جاوید میاں داد نے بھی ٹیم ارکان پر فکسنگ کے الزامات لگائے۔

ٹیم کے ایک رکن اور تاحیات پابندی کے شکار سلیم ملک نے بھی بیس سال بعد منہ کھولا اور کہا مجھے خراب کھیلنے کے لیے کہا گیا تھا جس کے پیچھے فکسرز تھے۔

بورڈ کے اس وقت کے چئیرمین خالد محمود نے گذشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر عطاالرحمان اپنا بیان نہ بدلتے تو وسیم اکرم سمیت کئی کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی لگ جاتی۔

عمران خان کی تنقید

اس ورلڈکپ کے بعد جب نواز شریف نے کمیشن تشکیل دیا تو عمران خان نے تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ نواز شریف خود کرپٹ ہیں، انہیں کرکٹ کا کچھ پتہ نہیں ہے اس لیے اس شکست کو سمجھ نہیں رہے۔

عمران خان جو فکسنگ کے سخت مخالف رہے ہیں ان کی جانب سے یہ بیان حیرت انگیز تھا، انہوں نے اپنے ایک اخباری آرٹیکل میں لکھا کہ نواز شریف کا کمیشن بنانے کا مقصد صرف عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنا ہے ورنہ ان کو اگر کرپشن ختم کرنا ہوتی تو 1993 کے فکسنگ کے مجرموں کو پہلے کیفر کردار تک پہنچاتے اورپہلے بورڈ کی تحقیقات کرتے کہ کیوں وہ فکسنگ کے پرانے الزامات پر ایکشن لینے میں ناکام رہا تھا۔

ورلڈکپ 1999 کا فائنل فکس تھا یا نہیں؟ اس کا معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا ہے لیکن میچ میں پاکستان کی پسپائی اور لاپرواہی نےشکوک شبہات کو نہ صرف مستحکم کیا تھا بلکہ فائنل کے دن انگلینڈ میں شرطیں لگانے کی دکانوں پر پاکستان کی جیت پر ایک کےسو مل رہے تھے جس کے باعث جوا کھیلنے والوں نے بے تحاشہ رقم لگائی تھی اور ہر ایک کو یقین تھا کہ پاکستان جیت جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 لوگوں کے امیر ہونے کے خواب اس دن اس ہی وقت ٹوٹنا شروع ہوگئے تھے جب پاکستان نے ابر آلود موسم میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور پھر سعید انور نے جس طرح پہلے دو اوورز کھیلے اس سے اندازہ ہورہا تھا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

جسٹس بھنڈاری کمیشن کے سامنے سپورٹس صحافی عبدالوحید اور فرشتے گیتی زاد نے اگرچہ اس بات کی تردید کی تھی کہ فائنل کے دن کسی طرف سے کوئی فکسنگ کی افواہ ملی تھی لیکن انگریز صحافیوں نے میڈیا گیلری میں اس میچ پر فکسنگ کا شک عائد کیا تھا۔

کیا ٹیم کے علاوہ بھی کوئی ملوث تھا؟

اس ورلڈکپ کے دوران کچھ ایسی خبریں گشت کررہی تھیں کہ ایک حکومتی پارٹی کے رہنما ٹیم کو ہدایات دے رہے ہیں اور ان کا کپتان سے براہ راست رابطہ ہے۔

 نیز اس رہنما کے پھر بکیز سے رابطے بھی کافی عرصہ بعد سامنے آئے تھے اگرچہ ان خبروں کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی لیکن ان رہنما کے ایک بھائی احتساب کمیشن کے سربراہ بھی تھے اور حکومتی حلقوں سے بہت قریبی تعلقات تھے۔

کوچز کا میوزیکل چئیر گیم

پاکستان کے کوچ جاوید میاں داد نے ورلڈ کپ سے چند ہفتے قبل استعفی دے دیا تھا۔ کچھ حلقوں کے مطابق ان سے استعفے لیا گیا۔

ورلڈکپ سے دو دن قبل مشتاق محمد کو کوچ مقرر کیا گیا جبکہ جنوبی افریقی کوچ رچرڈ پائی بس اسسٹنٹ کوچ بنائے گئے۔

ناقدین پائی بس کی نامزدگی کو بھی فکسنگ سے جوڑتے ہیں جن سے مشتاق محمد خوش نہ تھے، پائی بس اگلے ورلڈکپ تک پاکستانی ٹیم کا تیاپانچہ کرتے رہے اور آخر کار اگلے ورلڈکپ کی شرمناک شکست کے بعد رخصت ہو گئے۔

اس دوران وسیم راجہ اور مدثر نذر بھی کوچ بنے لیکن ان دونوں کی ٹیم سے نہ بن سکی۔

23 سال کے طویل عرصہ کے بعد بھی یہ سوال ہنوز قائم ہے کہ فائنل میچ کس نے فکس کیا تھا اور کون کون اس میں حصہ دار تھا؟

تاریخ کیلنڈر پر تو بدل جاتی ہے، لیکن ذہنوں میں نہیں۔۔۔

 تاریخ آج بھی اس فائنل میچ میں شکست کے ذمہ داروں کو تلاش کررہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ