کیا کسی کے کہنے پر عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم کیا جا سکتا ہے؟

عبد الاحد نامی شہری نے کراچی کی جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی موت پر ان کو شکوک و شبہات ہیں، لہٰذا ان کا پوسٹ مارٹم کروایا جائے۔

نو جون 2022 کو ڈاکٹر عامر لیاقت کو ان کی کراچی میں واقع رہائش گاہ سے مقامی نجی ہسپتال لایا گیا تھا، جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی تھی۔ (فائل تصویر: ٹوئٹر عامر لیاقت آفیشل)

 کراچی کی ایک مقامی عدالت کے حکم پر مرحوم ٹی وی شخصیت اور سابق رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی قبر کشائی کرکے پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے آج پیر کو میڈیکل بورڈ تشکیل دیے جانے کا امکان ہے۔

نو جون 2022 کو ڈاکٹر عامر لیاقت کو ان کی کراچی میں واقع رہائش گاہ سے مقامی نجی ہسپتال لایا گیا تھا، جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی تھی۔ اگلے روز جمعہ 10 جون کو عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں ان کی تدفین کی گئی تھی، جبکہ ان کے لواحقین نے پوسٹ مارٹم سے انکار کردیا تھا، ایسے میں کیا قانون میں پھر بھی ان کے پوسٹ مارٹم کرانے کی گنجائش ہے؟ اور قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

عبد الاحد نامی شہری نے کراچی کی جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی موت پر ان کو شکوک و شبہات ہیں، لہٰذا ان کا پوسٹ مارٹم کروایا جائے۔

جس پر عدالت نے 18 جون کو ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سیکریٹری صحت سندھ کو میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی ہدایت کی۔ اس کے علاوہ عدالت نے کراچی کے بریگیڈ تھانے کے ایس ایچ او کو ہدایت کی کہ اس سلسلے میں تمام انتظامات کیے جائیں۔

میڈیکل بورڈ پوسٹ مارٹم کی تاریخ کا تعین کرے گا۔ یہ حکم ہفتے کے روز ہوا تھا اس لیے پیر کو سیکریٹری صحت سندھ کی جانب سے میڈیکل بورڈ تشکیل دیے جانے کا امکان ہے۔ 

پوسٹ مارٹم نہ کرانے کی درخواست 

ڈاکٹر عامر لیاقت کی موت کے بعد ان کے بیٹے احمد عامر اور بیٹی دعا عامر نے ان کے جسم کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ 

اس کے علاوہ ڈاکٹر عامر لیاقت کی سابقہ اہلیہ بشریٰ اقبال نے بھی درخواست کی ہے کہ ان کا پوسٹ مارٹم نہ کیا جائے۔ انگریزی زبان میں پوسٹ مارٹم کے آٹھ مختلف مراحل شیئر کرتے ہوئے بشریٰ اقبال نے ٹوئٹر پر اپنی پوسٹ میں ڈاکٹر عامر لیاقت کے چاہنے والوں سے سوال کیا ہے کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ عامر کا جسم ان مراحل سے گزرے؟

بشریٰ اقبال نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ شریعت قبر کشائی اور مردے کی چیر پھاڑ کی اجازت نہیں دیتی۔

بشریٰ اقبال کے مطابق: ’کیا آپ سب جو مرحوم عامر لیاقت کے فین اور چاہنے والے ہیں پوسٹ مارٹم کے اس طریقہ کار سے عامر کا جسم گزرے اس کے حق میں ہیں؟ ان کی روح کو یہ اذیت دے کر اپنی تسلی چاہتے ہیں؟‘ 

بشریٰ اقبال نے مزید لکھا کہ: ’دعویٰ کیا ہے پوسٹ مارٹم کروانے کا اور عامر کو انصاف دلوانے کا۔ وہ اس وقت کہاں تھے جب وہ خود انصاف مانگ رہے تھے اور ان کی عزت کو تار تار کیا گیا۔ وہ اُس قبیح حرکت کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے کہ جہاز سے سفر تک نہ کر پا رہے تھے۔‘ 

اس کے علاوہ معروف اداکارہ اشنا شاہ نے بھی عامر لیاقت کی قبر کشائی کی مخالفت کرتے ہوئے ٹویٹ میں لکھا: ’اس شخص کو آرام کرنے دو۔‘

اداکارہ نے لکھا: ’قبر کشائی سے ان کے بچوں کو مزید اذیت ہو گی جو پہلے ہی کافی مشکلات سے گزر چکے ہیں۔‘

گھروالوں کے انکار کے باجود عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم ہوسکتا ہے؟

ڈاکٹر عامر حسین کی موت کے بعد ان کے گھر والوں کی جانب سے بار بار ان کے جسم کے پوسٹ مارٹم نہ کرانے کی درخواست کے باجود ایک عام شہری کی درخواست پر کیا عدالت ان کی قبرکُشائی کرکے ان کے جسم کا پوسٹ مارٹم کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے؟ 

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے کرمنل لا کے ماہر قانون دان اور کراچی کے معروف وکیل شوکت حیات سے رابطہ کیا۔ شوکت حیات گذشتہ 40 سال سے کرمنل لا کی پریکٹس کررہے ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت حیات نے کہا کہ کسی بھی فرد کی غیر طبعی موت کے بعد ان کے اپنے سگے اور خاندان والوں کی شدید مخالفت اور درخواست کے باجود کسی بھی عام شہری کی درخواست پرعدالت کو مکمل طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ قبرکشائی کرا کے پوسٹ مارٹم کا حکم دے۔ 

 شوکت حیات کے مطابق: ’عدالت کا کام ہے کہ ہر صورت میں سچ کو سامنے لا کر اس کے نتائج کو قانون کے تحت انجام کو پہنچائے۔ فوت ہونے والے فرد کے گھر والے پوسٹ مارٹم سے کیوں انکار کر رہے ہیں؟ متعدد کیسوں میں گھر والے ہی قتل میں ملوث نکلتے ہیں اور ایسا اکثر ہوتا ہے۔

'اگر کسی فرد کے غیر طبی موت کے بعد اگر گھروالے ان کی پوسٹ مارٹم کو روکنا چاہتے ہیں تو ان کو عدالت کے سامنے یہ سائنسی طور پر ثابت کرنا ہو گا کہ پوسٹ مارٹم کیوں نہ کیا جائے۔ جذباتی بیان کو عدالت نہیں مانتی۔‘ 

انہوں نے کہا کہ عدالت صرف سچ کو سامنے لانا چاہتی ہے۔ قبر کشائی کرنا عزت، غیرت یا کسی روایت کے خلاف نہیں ہے۔ پوسٹ مارٹم ایک سائنسی عمل ہے، جس سے سچ کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔

شوکت حیات کے مطابق پوسٹ مارٹم کے دوران جسم کے مختلف حصوں کا سائنسی طور پر معائنہ کیا جاتا ہے۔ مرنے والے کے معدے، کلیجے کے نمونے لے کر دیکھا جاتا ہے کہ کوئی زہر تو نہیں دیا گیا۔

ہڈیوں کے فریکچر کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد موت کا سبب معلوم کیا جاتا ہے، جس کی بنیاد پر یہ طے کیا جاتا ہے کہ وہ فرد کی طبعی موت ہوئی ہے یا اس کا قتل کیا گیا ہے۔ اور یہ بات پوسٹ مارٹم کے بعد میڈیکل رپورٹ میں سامنے آ جاتی ہے۔ جس کے بعد عدالت میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اگر قتل ہوا ہے تو کس نے اور کیوں قتل کیا۔ 

’نہ صرف عدالت بلکہ تفتیش کے دوران اگر پولیس کو بھی شک ہو کہ فوت ہونے والے فرد کو قتل کیا گیا ہے تو پولیس بھی گھروالوں کے منع کرانے کے باجود پوسٹ مارٹم کرا سکتی ہے۔‘

شوکت حیات کے مطابق کچھ عرصہ قبل کراچی کے گلستان جوہر میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ مجرموں سے پولیس مقابلے کے دوران دو نوجوان مجرم مارے گئے ہیں، مگر ان کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلا کہ کوئی مقابلہ نہیں ہوا، بلکہ پولیس نے سیدھا فائر کرکے ان کو قتل کیا تھا۔ جس کے بعد اہلکاروں کو سزا دے کر جیل بھیج دیا گیا۔ 

'کچھ عرصہ قبل ایک ایسا کیس میں نے خود چلایا، جس میں کوئٹہ شہر کا رہائشی ایک نوجوان اپنے دو دوستوں کے ساتھ کراچی میں سمندر پر نہانے گیا اور ڈوب گیا۔ ان کے والد نے اس وقت پوسٹ مارٹم نہ کرنے کی درخواست دی اور اپنے بیٹے کو دفنا دیا۔

’چار سال بعد والد کو شک ہوا ہے ان کا بیٹا ڈوبا نہیں ڈبویا گیا تھا۔ تو انہوں نے درخواست دی۔ بیٹے کے دوستوں پر مقدمہ چلا۔ چار سال بعد قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ مگر یہ ثابت نہ ہو سکا کہ ان کے دوستوں نے قتل کیا تو وہ بری ہو گئے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ عدالت کو مکمل طور پر یہ حق قانونی طور پر حاصل ہے کہ وہ پوسٹ مارٹم کا حکم سنائے اور اگر گھر والوں کو اعتراض ہے تو وہ عدالت کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلینج کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ 

سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس محمود عالم رضوی نے تصدیق کی کہ شک کی صورت ریاست اگر چاہے تو پوسٹ مارٹم کا حکم دے سکتی ہے اور اس صورت میں گھر والوں کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محمود عالم رضوی  نے بتایا: ’غیر طبعی موت کی صورت میں اگر کوئی ان کی موت کا آنکھوں دیکھا شاہد نہ ہو تو موت کا سبب جاننے کے لیے پوسٹ مارٹم ضروری ہے۔ عامر لیاقت کیس میں پولیس نے غلطی کی۔ تدفین سے پہلے ہر صورت میں پوسٹ مارٹم کراتی۔ اب قبر کشائی کرنا ان کے گھر والوں کے اذیت ہے مگر بھر بھی پوسٹ مارٹم ضروری ہے۔‘ 

طب کے شعبے میں عام طور پر کسی مریض کا آپریشن کرنے سے پہلے بھی ان کے گھر والوں سے اجازت لی جاتی ہے۔ تو کیا پوسٹ مارٹم کرنے کی صورت میں ان کے جسم کو آپریشن کی طرح کاٹ کر مختلف اعضا سے نمونے لینے سے پہلے ان کے گھر والوں سے اجازت نامہ لیا جائے گا؟

اس سوال کے جواب میں محمود عالم رضوی  کے مطابق: ’جب بات شک کی آ جائے تو اجازت کیوں لی جائے گی؟‘

سندھ ہائی کورٹ کے سینئیر وکیل اصغر ناریجو کے مطابق کسی معروف شخصیحت کی غیر طبعی موت کے بعد یہ انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ عوام الناس کو ان کی موت کا سبب بتایا جائے، اس لیے ہر صورت میں پوسٹ مارٹم کرانا ضروری ہوتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے اصغر ناریجو نے کہا: ’ایسی صورت میں عدالت ازخود نوٹس لے کر بھی پوسٹ مارٹم کا حکم دے سکتی ہے اور اگر کوئی عام فرد بھی درخواست دے جس کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہ ہو تو بھی عدالت پوسٹ مارٹم کا حکم دے سکتی ہے۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان