بھارت: کیا ’اگنی پتھ‘ کے پیچھے آر ایس ایس کی سوچ ہے؟

اس سکیم کے خلاف بھارت میں حزب اختلاف کی تمام جماعتیں بھی برسر احتجاج ہیں جبکہ کئی سابق فوجی افسران بھی اس کی کھل کر مخالفت کر چکے ہیں۔

بھارت میں نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے گذشتہ کم و بیش ایک ہفتے سے جاری پرتشدد مظاہروں اور حزب اختلاف سمیت مختلف حلقوں کے سخت ردِ عمل و احتجاج کے باوجود متنازع ’اگنی پتھ‘ سکیم کے تحت فوج میں بھرتی کا پہلا نوٹیفکیشن جاری کر کے واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے واپس نہیں لے گی۔

نوٹیفکیشن کے مطابق بھرتی کے لیے رجسٹریشن کا عمل اگلے ماہ یعنی جولائی سے شروع ہو گا۔ سپاہی کے لیے جنرل ڈیوٹی کے لیے دسویں پاس جبکہ ٹیکنیکل کیڈر اور کلرک و سٹور کیپر کے لیے بارہویں جماعت پاس ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

نریندر مودی نے سوموار کو بھارت کے جنوبی شہر بنگلور میں ایک عوامی اجتماع سے اپنے خطاب میں ’اگنی پتھ‘ کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ اصلاحات ہی ہیں جو ایک ملک کو نئے اہداف کی دہلیز پر لے جاتی ہیں۔

’اس وقت کئی اصلاحات کئی لوگوں کو غیر منصفانہ نظر آتی ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔‘

بھارت کی تینوں دفاعی افواج (بری فوج، بحریہ اور فضائیہ) کے سینیئر عہدیداروں نے منگل کو نئی دہلی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ’اگنی پتھ‘ کی منسوخی یا اس میں ترمیم کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اگنی ویر‘ بھی دوسرے جوانوں کی طرح گیلینٹری ایوارڈز یا بہادری کے اعزازات کے حقدار ہوں گے۔

’اگنی پتھ‘ سکیم پر تنازع کیوں؟

رواں ماہ کی 14 تاریخ کو مودی حکومت نے بھارت کی تینوں دفاعی خدمات یعنی فوج، بحریہ اور فضائیہ میں نچلی سطح پر ملازمت کے خواہش مند نوجوانوں کے لیے ’اگنی پتھ‘ نامی ایک بھرتی سکیم کو منظوری دی۔

’اگنی پتھ‘ ہندی زبان کے دو الفاظ ’اگنی‘ اور ’پتھ‘ کا مجموعہ ہے جس کا اردو میں معنی ’آگ کا راستہ‘ ہے۔

حکومت نے اس سکیم کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے تحت دفاعی خدمات میں بھرتی ہونے والے نوجوان ’اگنی ویر‘ (یعنی آگ پر چلنے والے) کہلائیں گے اور اس کو متعارف کرنے کا ایک بڑا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ ’محب وطن اور حوصلہ مند نوجوانوں‘ کو خاص طور پر مسلح افواج میں اپنی خدمات انجام دینے کا موقع ملے گا۔

اسی بارے میں: بھارت کو کم عمر فوجیوں کی تلاش

سکیم کے تحت ساڑھے 17 سال سے 23 سال تک کی عمر کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو فوج، بحریہ یا فضائیہ میں چار سال کے لیے بھرتی کیا جائے گا اور مدت کے اختتام پر ان سب میں سے صرف 25 فیصد کی مدت ملازمت بڑھائی جائے گی۔

بھرتی ہونے کے پہلے سال ’اگنی ویروں‘ کو ملنے والی ماہانہ تنخواہ 21 ہزار اور آخری سال 28 ہزار روپے ہو گی۔ چار سالہ مدت ختم ہونے کے بعد ’اگنی ویروں‘ کو ان کے کارپس فنڈ میں جمع ہونے والی رقم، جو 11 سے 12 لاکھ روپے کے درمیان ہو گی، اور ایک سند دے کر رخصت کیا جائے گا۔

لیکن ’اگنی ویر‘ مہنگائی الاؤنس، ملٹری سروس پے، پینشن اور گریجویٹی جیسے اہم مراعات پانے کے اہل نہیں ہوں گے۔

گو کہ حکومت اس سکیم کو اصلاحات پر مبنی ایک ایسی ’پرکشش بھرتی سکیم‘ کے طور پر پیش کر رہی ہے جس کے تحت پہلے سال 46 ہزار نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے گا، لیکن اس کا اصل اور بنیادی مقصد فوجیوں کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر آنے والے خرچے کو کم کرنا ہے۔

تاہم کچھ لوگوں کا خیال اور الزام ہے کہ اس سکیم کا مقصد سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں بھرتی کے لیے نوجوانوں کو سرکاری سطح پر تربیت دینا ہے۔

اس سکیم کی تفصیلات عام ہونے کے ساتھ ہی گذشتہ ہفتے بھارت کی مختلف ریاستوں میں وہ نوجوان سڑکوں پر نکل کر توڑ پھوڑ اور آتش زنی کرنے لگے جو پچھلے کم از کم تین برسوں سے فوج میں بھرتی ہونے کی تیاری کر رہے تھے یا اس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔

توڑ پھوڑ اور آتش زنی کی وارداتوں میں اب تک جس سیکٹر کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے وہ بھارتی ریلویز ہے جس کی درجنوں ٹرینیں نذر آتش کی جا چکی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق توڑ پھوڑ اور آتش زنی کی وارداتوں سے بھارتی معیشت کو ہزاروں کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے اور اب تک پولیس کی کارروائی میں کم از کم ایک احتجاجی مارا گیا ہے۔

اس سکیم کے خلاف بھارت میں حزب اختلاف کی تمام جماعتیں بھی برسر احتجاج ہیں جبکہ کئی سابق فوجی افسران بھی اس کی کھل کر مخالفت کر چکے ہیں۔  

مقصد پیسے بچانا ہے

غزالہ وہاب نئی دہلی سے قومی سلامتی اور ایرو سپیس پر شائع ہونے والی ماہانہ میگزین ’فورس‘ کی ایگزیکٹو ایڈیٹر اور ’بارن اے مسلم‘ نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ نریندر مودی کی حکومت نے ’اگنی پتھ‘ سکیم پیسے بچانے کے مقصد سے متعارف کی ہے۔

’حکومت پیسہ بچانا چاہتی ہے کیوں کہ اسے زبردست مالی تنگی کا سامنا ہے۔ صاف اور واضح الفاظ میں کہوں تو حکومت کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں۔ ہماری اقتصادی حالت اتنی خراب چل رہی ہے کہ ملک میں بےروزگاری کی شرح اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے۔

’چوں کہ حکومت نوکریاں نہیں دے پا رہی تھی تو اس نے پیسے بچانے کے چکر میں مختصر مدتی ملازمت کی یہ سکیم سامنے لائی ہے۔ حکومت کی سوچ ہے کہ ہم ایسا کریں گے تو ہمیں پینشن اور گریجویٹی جیسے اہم مراعات نہیں دینی ہوں گی۔ وہ اس کے ذریعے لوگوں کو بھی بتانا چاہتی تھی کہ دیکھیں ہم نے نوکریاں دینے کا عمل بحال کر دیا ہے۔‘

غزالہ وہاب کہتی ہیں کہ اس سکیم کے متعارف کیے جانے سے پہلے بھارت میں فوج میں نوکری ایک ایسی 15 سالہ مدتی سرکاری نوکری ہوتی تھی جس سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی ایک فوجی آرام سے اپنی زندگی گزار لیتا ہے۔

’لیکن حکومت نے اس نئی سکیم کے ذریعے اسے مختصر مدتی اور مراعات سے محروم کر دیا ہے۔ ان لوگوں نے ملازمت کی مدت یہ سوچ کر چار سال رکھی ہے کیوں کہ ہمارے ملک میں پانچ سال تک ملازمت کرنے والوں کو گریجویٹی ملتی ہے۔

’نوجوانوں نے جس طرح اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے میں اس کی حمایت نہیں کرتی لیکن بحیثیت مبصر میں نے دیکھا ہے کہ نوجوانوں کی طرف سے اس طرح سے اپنے غصے کا اظہار کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘

غزالہ وہاب کا کہنا ہے کہ اس مختصر مدتی ملازمت والی سکیم کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ فوج میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کا جذبہ ڈگمگا سکتا ہے۔

’اس سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کی وجہ سے رجمنٹیشن پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ ایک فوجی کا اپنی رجمنٹ یا پلٹن کے تئیں بے پناہ عقیدت اور محبت ہوتی ہے۔ فوج میں کہا ہی جاتا ہے کہ جب فوجی لڑتے ہیں تو وہ ملک سے زیادہ اپنی پلٹن کے لیے لڑتے ہیں۔

’ایک فوجی اور اس کی پلٹن کے درمیان رشتہ استوار اور پائیدار ہونے میں وقت لگتا ہے۔ چند سال میں یہ رشتہ اور جذبہ پیدا نہیں ہو گا۔ وہ بھی ایسی صورت حال میں جب ایک فوجی کو معلوم ہو کہ وہ اس پلٹن میں مہمان جیسا ہے۔‘

دفاعی خدمات کی نج کاری کی باری آئی ہے؟

یونیورسٹی آف حیدرآباد کی طلبہ یونین کے صدر ابھیشیک نندن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چوں کہ مودی حکومت ہر ادارے کی نج کاری میں مصروف ہے تو ایسے میں لگتا ہے کہ ریلوے اور ایئرپورٹوں کے بعد اب دفاعی خدمات کی باری آئی ہے۔

’بحیثیت نوجوان اور سٹوڈنٹ لیڈر میں سمجھتا ہوں کہ یہ قومی سلامتی کے ساتھ ایک سمجھوتہ ہے۔ نوجوان یہ سوچ کر اپنا دل، دماغ اور جان لگا کر ڈیوٹی دیتے تھے کہ ہمارے پاس فل ٹائم جاب ہے اور مختلف طرح کے مراعات ہیں لیکن اب وہ بات نہیں رہی۔

’بہت وقت سے مختلف سرکاری اداروں میں بھرتی کا عمل بند تھا۔ اب جب نوکریاں دینے کا وقت آیا تو یہ لوگ ایک ایسی سکیم لے کر آئے جس کے تحت ہمارے ملک کے نوجوانوں کو دسویں جماعت کے بعد فوج میں کچھ سال کی ملازمت ملے گی اور پھر انہیں بینکوں اور نجی کمپنیوں کے باہر ڈنڈا لے کر زندگی بھر کھڑا رہنا پڑے گا۔‘

ابھیشیک نندن، جو بھارت کی بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی ایم کی طلبہ تنظیم سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) کے رہنما ہیں، نے بتایا کہ اس مختصر مدتی نوکری کی وجہ سے فوجیوں میں پایا جانے والا جذبہ کمزور پڑ جائے گا۔

’اب یہ لوگ عجیب و غریب جواز پیش کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ اسی طرح کی تربیت ہے جیسے این سی سی کیڈٹوں کی سکولوں اور کالجوں میں ہوتی ہے۔

’این سی سی پڑھائی کے دوران فٹنس پر دھیان دینے کی تربیت ہے لیکن یہ تو ملازمت ہے۔ یہ لوگ فوجیوں کو 21 ہزار روپے ماہانہ دیں گے۔ اس مہنگائی کے زمانے میں تو یہ کوئی رقم ہی نہیں ہے۔ جو جوان اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا ہے وہ ملک کی خدمت کیسے کر سکتا ہے؟‘

’اس کے پیچھے آر ایس ایس کی سوچ کارفرما ہے‘

بھارتی مسلمان طلبہ کی معروف تنظیم کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی) کے قومی صدر ایم ایس ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اگنی پتھ‘ سکیم ایک مخصوص سیاسی نظریہ کی پیداوار نظر آتی ہے۔

’ہمارے ملک میں ایسی سکیم متعارف کر کے سماج کو فوجی تربیت دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیوں کہ ہمارا ملک کسی دوسرے ملک کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہے نہ یہاں کوئی بڑا تنازع ہے۔

’جب ملک میں مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہوں تو ایسی سکیموں سے سماج کے ایک مخصوص طبقے کو ملیٹرائز کرنے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ آنے والے وقت میں ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔

’نوجوانوں کا بڑی تعداد میں اسلحہ چلانے کا تربیت یافتہ ہونا کسی بھی سماج کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ سماج کو ملیٹرائز کرنا آر ایس ایس کی سوچ ہے جس کا مقصد لوگوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے۔

’اس اقدام سے ملک کی حالت مزید ابتر ہو سکتی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سکیم پر صرف کی جانے والی رقم کو سکالرشپ کے لیے استعمال کیا جائے اور تعلیم کے لیے بہتر انفراسٹرکچر بنایا جائے۔‘

ایم ایس ساجد کہتے ہیں کہ اس سکیم کے دوسرے خطرناک نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں کیوں کہ جس عمر میں حکومت نوجوانوں کو فوج میں مختصر مدتی ملازمت دینے جا رہی ہے اُس عمر میں ان کو سکولوں اور کالجوں میں ہونے چاہیے۔

’یہ نوجوانوں کو کچھ پیسوں کے عوض ہمیشہ کے لیے محتاج بنانے کا سبب بنے گی۔ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ چار سال بعد ان نوجوانوں کو فوراً کہیں ملازمت ملے گی؟ اور جو نوجوان بہت سالوں سے فوج میں بھرتی ہونے کی کوششوں میں لگے ہیں ان کا کیریئر اس سکیم کی وجہ سے داؤ پر لگ گیا ہے۔‘

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سکریٹری حذیفہ عامر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملک کے موجودہ حالات میں میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ میں مودی حکومت کی جانب سے سامنے لائی جانے والی سکیموں کے متن کو پڑھوں۔

’اس ملک کے اندر دہرے قانون اور دہرے رویے کی حکمرانی ہے۔ ملک کا میڈیا آج کہتا ہے کہ یہ نوجوان غصے میں آ کر توڑ پھوڑ اور ٹرینوں کو نذر آتش کر رہے ہیں۔ لیکن جب مسلمان پیغمبر اسلام کی گستاخی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرتے ہیں تو وہ پتھر باز اور دہشت گرد کہلاتے ہیں اور ان کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جاتے ہیں۔

’سہارنپور میں تو پولیس تھانے کے اندر مسلمانوں کی بری طرح پٹائی کر کے اس کی ویڈیوز بی جے پی رہنماؤں کو بھیجی گئیں۔ ایسے واقعات دہرے قانون اور دہرے رویے کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔‘

فوج میں نوکری کے بعض حقائق

غزالہ وہاب کہتی ہیں کہ بھارت میں فوج میں بھرتی کی ایک بڑی سچائی یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت خاندان ایسے ہیں جن میں فوج میں نوکری کرنے کی روایت کافی پرانی ہے۔

’ہر سال فوج میں بھرتی ہونے والے 60 فیصد نوجوانوں کا تعلق ان ہی خاندانوں سے ہوتا ہے۔ یہ وہ نوجوان ہوتے ہیں جن کے باپ دادا فوج میں رہے ہوں۔

’چوں کہ فوج میں بھرتے ہونے والوں کو طرح طرح کے مراعات ملتی ہیں لہٰذا گاؤں دیہاتوں کے نوجوانوں کے لیے یہ سرکاری نوکری پانے کا ایک بہت بڑا موقع ہوتا تھا۔‘

غزالہ وہاب کے مطابق بھارت میں فوج میں بھرتی کا نظام رضاکارانہ ہے اور نوجوان اپنی مرضی سے سامنے آتے ہیں۔

بھارتی وزیراعظم کی اس سکیم کے اعلان پر جہاں ایک بڑی تعداد کی جانب سے اس پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں بھارت کے بڑے کاروباری گروپ ٹاٹا کمپنیز نے اس اعلان کو ’ایک انقلابی قدم‘ قرار دیا ہے جبکہ دیگر کئی کاروباری شخصیات نے بھی اس سکیم کی حمایت کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا