بھارت: فوجی بھرتی پالیسی کے خلاف مظاہرے، ایک ہلاک

فوج میں نئے بھرتی نظام کو ’اگنی پتھ‘ کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت ساڑھے 17 سے 21 سال کی عمر کے افراد کو چار سال کی مدت کے لیے فوج میں بھرتی کیا جائے گا.

بھارت میں مختصر مدت کے لیے فوج میں بھرتی کی پالیسی کے خلاف جاری مظاہروں میں شدت آ گئی ہے اور اس دوران جمعے کو کم از کم ایک شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جمعے کو بھی بھارت کے کچھ علاقوں میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران مشتعل نوجوانوں نے ٹرین کی بوگیاں جلا دیں، کئی اہم شاہراہیں بند کر دیں اور پولیس پر پتھراؤ کیا۔

پولیس نے بتایا کہ جمعے کو ہونے والی ہلاکت جنوبی بھارت کے شہر سکندرآباد میں ہوئی جہاں پولیس نے تقریباً 500 مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور گولیاں چلائیں۔

پولیس کے مطابق مظاہرین نے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک ریلوے سٹیشن پر ہنگامہ کیا اور اس دوران 15 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی بتایا کہ مشتعل مظاہرین نے پولیس پر پتھروں سے حملہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی فوٹیج میں مظاہرین کو ٹرین کی خالی بوگیوں کو آگ لگاتے اور ریلے کی املاک کی توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

مظاہرین نے ٹائر جلا کر ٹرین کی پٹریوں کو بلاک کر دیا جس سے علاقے میں کئی گھنٹوں تک ٹرین سروس میں خلل پڑا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے رواں ہفتے بھارت کی مسلح افواج کے لیے بھرتیوں کی بحالی کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد فوجیوں کی اوسط عمر اور پنشن کے اخراجات کو کم کرنا ہے۔

لیکن سابق فوجیوں، اپوزیشن لیڈرز اور یہاں تک کہ مودی کی اپنی جماعت کے کچھ ارکان نے بھی بھرتی کے اس نئے نظام پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

فوج میں نئے بھرتی نظام کو ’اگنی پتھ‘ کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت ساڑھے 17 سے 21 سال کی عمر کے مرد و خواتین کو چار سال کی مدت کے لیے فوج میں بھرتی کیا جائے گا جن میں صرف ایک چوتھائی افراد کو ہی طویل مدت کے لیے فوج برقرار رکھا جائے گا۔

اس سے قبل بری فوج، بحریہ اور فضائیہ میں اہلکاروں کو الگ الگ بھرتی کیا جاتا تھا اور عام طور پر 17 سال عمر تک والے افراد کو سب سے کم رینک دیا جاتا تھا۔

مختصر مدت کے اس نظام سے بھرتی ہونے والے اہلکاروں میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔

مشرقی ریاست بہار میں جمعے کو بھی پرتشدد مظاہرے ہوئے جہاں مظاہرین نے آج بھی ٹرین کی چھ بوگیوں کو آگ لگا دی اور دفاتر اور بجلی کی تنصیبات سمیت ریلوے سٹیشنوں کو نقصان پہنچایا۔

پولیس افسر ایس کے سنگھل نے اے پی کو بتایا کہ مظاہرین نے شاہراہوں کو بھی گھنٹوں بلاک رکھا۔

سنگھل نے کہا کہ مظاہرین نے ریاست بہار کے ایک قصبے بیتیا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مقامی رہنما رینو دیوی اور سنائے جیسوال کے گھروں پر پتھراؤ کیا تاہم ان واقعات میں کسی کے زخمی ہونے کی اطلاعات نہیں ہیں۔

ریلے کے ترجمان وریندر کمار نے بتایا کہ احتجاج کے باعث 30 ٹرینوں کی روانگی منسوخ کرنا پڑی جب کہ 29 دیگر ٹرینوں کو دیگر راستوں کی طرف موڑ دیا گیا۔

شمالی ریاست اتر پردیش میں بھی مظاہرین نے جمعے کو وارانسی شہر میں بسوں پر پتھراؤ کیا۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر ملازمت فراہم کرنے کا دباؤ ہے کیونکہ کرونا کی وبا کے بعد بھارت میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ قلیل مدتی فوجی بھرتی کے پیچھے حکومت کا ایک خیال یہ ہے کہ مسلح افواج کے تربیت یافتہ افراد بعد میں پولیس یا نجی شعبے میں ملازمتیں تلاش کر سکتے ہیں۔

14 لاکھ فعال اہلکاروں کے ساتھ بھارت کی فوج چین کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی اور کل دفاعی اخراجات کے لحاظ سے تیسری سب سے بڑی فوج ہے۔

بھارت میں فوجی ملازمتیں پرکشش ہوتی ہیں کیونکہ یہ دیگر ملازمتوں کے مقابلے بہتر تنخواہ اور مراعات فراہم کرتی ہیں۔

کرونا وبا کی وجہ سے فوج میں بھرتی پچھلے دو سالوں سے روک دی گئی ہے اور ہزاروں خواہشمندوں نے فوج میں شمولیت کے لیے زیادہ تیاریاں کی ہوئی ہیں۔

مظاہرین میں شامل ایک نوجوان نے کہا: ’آب ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہمارے پاس صرف چار سال کے لیے ملازمت ہو گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا