کراچی کے ساحل پر زہریلی بلیو باٹل سے کیسے بچا جائے؟

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق مون سون کی بارشوں سے قبل بلیو باٹل کا سمندر سے باہر آنا معمول ہے اور اس کے کاٹنے سے شدید درد ضرور ہوتا ہے مگر یہ انسان کے لیے جان لیوا نہیں ہے۔

اس سمندری حیات کا پھولا ہوا اور ترچھا حصہ بادبان کی طرح سمندر کے پانی پر تیرتا رہتا ہے اور ہوا کے دوش پر سفر کرتا رہتا ہے (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو / امر گُرڑو)

اگر آپ نے حالیہ دنوں میں کراچی کے ساحل کی سیر کی ہے تو آپ کا واسطہ ہوسکتا ہے ایک عجیب سمندری حیات سے پڑا ہو۔

لمبے تاروں سے جڑی ایک چھوٹا سے نیلے پھولے ہوئے غبارے نما یہ سمندری حیات ساحل پر پڑی ہوگی۔ یہ ہے سمندری جانور بلیو باٹل جیلی فش، جس کی کراچی کے ساحلوں پر آمد جون کے وسط سے جاری ہے۔

ماہرین سمندری حیات کے مطابق اسے ’پرتگالی مین آف وار‘ یعنی پرتگالی جنگجو بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ ان پرتگالی جنگجوؤں کی طرح دکھتا ہے جو ہوا کے دوش سے چلنے والے بادبانوں والے بحری جہاز استعمال کرتے تھے۔

اس سمندری جانور کا پھولا ہوا اور ترچھا حصہ بادبان کی طرح سمندر کے پانی پر تیرتا رہتا ہے اور ہوا کے دوش پر سفر کرتا رہتا ہے، جبکہ اس کے نچلے حصے کے تار نما زہریلے ڈنگ یا ٹانگیں مچھلیوں کا شکار کرتی رہتی ہیں۔ جون اور جولائی میں تیز ہواؤں کے باعث یہ تیرتے ہوئے ساحل پر آجاتے ہیں، جہاں مقامی مچھیرے اسے بلیو واٹر بھی کہتے ہیں۔

سی ویو ساحل پر کام کرنے والے خوانچہ فروش اور سیاحوں کو جانوروں کی سواری کرانے والے افراد کے مطابق اس سمندری جانور کے متعلق لاعلمی کے باعث ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے متعدد سیاح اس کے ڈنگ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ساحل پر آنے والوں کو کرائے پر کرسیاں دینے والے محمد حیات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلیو باٹل کی آمد کا سلسہ اگست تک جاری رہتا ہے۔

یی بھی پڑھیے: کراچی کے ساحل پر زخمی زیتونی کچھوے کی موت کیسے ہوئی؟

ان کے مطابق: ’یہ پھولے ہوئے غبارے جیسا ہوتا ہے تو بچے غبارہ سمجھ کر یا تو ہاتھ میں اٹھا لیتے ہیں، یا پھر پاؤں سے اس کو پھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور دونوں صورتوں میں یہ بچے کو کاٹ لیتا ہے۔‘ 

اکثر آپ سمندر میں نہاتے ہوئے بھی اس کا نشانہ بن سکتے ہیں جہاں یہ جلد پر چپک کر ڈنگ مارتا ہے۔  

محمد حیات نے بتایا: ’جب کسی کو بلیو واٹر کاٹ لیتی ہے تو اس کی حالت غیر ہوجاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب وہ نہیں بچے گا۔

’متاثرہ جگہ پر درد رہتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شدید ٹیسیں اٹھ رہی ہوں۔‘

بلیو باٹل کے ڈنگ کا علاج کیا ہے؟

طبی امداد کی ایسے شخص کو فوری ضرورت ہوتی ہے لیکن بعض لوگوں جن میں محمد حیات بھی شامل ہیں سمجھتے ہیں کہ اس کے زہر سے بچنے کے لیے جسم کے متاثرہ حصے پر پیاز رگڑا اور اس شخص کو پیاز کھلایا جاتا ہے۔

ان کے مطابق: ’ڈنگ سے متاثر فرد کو پیٹ میں شدید درد ہوتا ہے۔‘

دوسری جانب سی ویو ساحل پر مچھلیاں پکڑنے والے ماہی گیر محمد ابراہیم نے کہا کہ ڈنگ سے متاثرہ حصے پر پیاز رگڑنے کے علاوہ اسے گرم ریت میں دبانے سے بھی آرام آجاتا ہے۔ 

سی ویو ساحل پر جگہ جگہ پیاز پڑے ہوئے ملتے ہیں۔ مگر کیا بلیو باٹل کے کاٹنے کا علاج پیاز رگڑنے یا گرم ریت میں دبانے سے ممکن ہے؟ 

یہ بھی پڑھیے: پسنی کے ساحل پر کچرے کے ڈھیروں سے سمندری حیات کو خطرہ

اس حوالے سے جب ہم نے سمندری حیات کے ماہر محمد معظم خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے ان ٹوٹکوں کو مسترد کیا۔

انہوں نے کہا: ’پیاز رگڑنے یا گرم ریت میں دبانے سے تکیلف میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ اس لیے ایسے تمام طریقے صرف مریض کی تکلیف میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں۔‘

محمد معظم خان مرین فشریز ڈپارٹمنٹ سندھ کے 28 سالوں تک ڈائریکٹر جنرل رہے ہیں اور گذشتہ کئی سالوں سے عالمی ماحولیاتی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا: ’عام طور پر زہر پروٹین کی طرح ہوتا ہے، اس لیے بلیو باٹل جیلی فش کی ڈنگ کے زہر والے پروٹین کو توڑنے کے لیے ایسا کیمیل چاہیے جو پروٹین کو توڑ دے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پروٹین کو کیمائی طور پر توڑنے کے لیے پاپین کیمیل کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے گوشت میں موجود پروٹین کو توڑنے یا میرینیٹ کرنے کے لیے کچا پپیتا استعمال کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس میں پاپین کیمیکل ہوتا ہے۔

’اس لیے اس ڈنگ کا علاج پانین کیمیکل یا پپیتے سے ہوسکتا ہے۔‘ 

انہوں نے مزید بتایا: ’ترقی یافتہ ممالک کے ساحلوں پر جو ریسکیو ٹیمیں ہوتی ہیں، ان کے پاس پاپین کیمیکل مائع کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔ جیسے ہی بلیو باٹل کسی فرد کو کاٹ لیتی ہے تو علاج کے لیے اس کے جسم کے متاثرہ حصے پر وہ مائع سپرے کیا جاتا ہے۔‘

چیف کنزرویٹر محکمہ جنگلی حیات سندھ جاوید احمد مہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مون سون کی بارشوں کے قبل بلیو باٹل کا سمندر سے باہر آنا معمول ہے اور کئی دہائیوں سے یہ جیلی فش کراچی کے ساحلی پر نظر آتی ہے۔

ان کے مطابق دنیا بھر میں گرم پانیوں کے ساحل پر اس موسم میں اس جانور کی آمد معمول ہے۔

جاوید احمد مہر نے کہا: ’اس کے ڈنگ سے تکلیف ہوسکتی اور کچھ افراد کو یہ تکلیف شدید بھی ہوسکتی ہے مگر اس جیلی فش کا ڈنگ موت کا سبب نہیں بنتا۔ عوام کو صرف اس سمندری جانور کے متعلق آگاہی کی ضرورت ہے، تاکہ لوگ اس کے ڈنگ کا شکار ہونے کے بجائے ساحل پر آرام سے لفط اندوز ہو سکیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی صحت