پاکستان میں تیل کی قیمتوں کے آسمان سے باتیں کرنے کے بعد عام صارف یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کی حقیقت میں قیمتوں کا تعین کون کرتا ہے؟ ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا یا آئل کمپنیاں؟
پھر آئل کمپنیاں یا ریفائنریاں درآمدہ شدہ خام تیل کے ایک بیرل سے کتنا پیٹرول، ہائی سپیڈ ڈیزل، لائٹ ڈیزل، مٹی کا تیل، فرنس آئل اور نیفتھا (تارکول) نکلتا ہے؟ ان مصنوعات سے کمپنیاں کتنا منافع کما رہی ہیں؟ کیونکہ یہ سب ملا کر نرخ اور کمپنی کے منافع کا تعین ہوتا ہے۔
آئل کمپنیوں کی پیٹرول و ڈیزل کے ایک لیٹر پر کتنی لاگت آتی ہے؟ جبکہ ریفائنریاں اور مارکیٹنگ کمپنیاں عام صارف سے فی لیٹر کتنی قیمت وصول کرتی ہیں اور سب سے اہم سوال کہ ہر 15 روز بعد قیمت کے تعین میں حکومت کا کوئی کردار ہے بھی یا نہیں؟
اطلاعات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو بھجوائی گئی درخواست کے جواب میں اتھارٹی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اکاؤنٹس محمد مرتضیٰ چوہدری نے بتایا کہ ہر 15 روز بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین و نوٹیفکیشن کا اختیار انہیں حاصل نہیں، بلکہ اس کا اختیار آئل ریفائنریوں اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پاس ہے۔
جون 2011 میں وفاقی حکومت نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 15 اکتوبر 2010 کے فیصلے کی روشنی میں پیٹرولیم مصنوعات کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی منظوری دی تھی۔ نیز 28 جولائی 2020 کو اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پیٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی ماہانہ یا 15 روز بعد ایکس ریفائنری/ایکس ڈپو پرائس کے تعین اور نوٹیفکیشن کا اختیار آئل ریفائنریوں و آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو دینے کا فیصلہ کیا جبکہ وفاقی حکومت نے 24 اگست 2020 کو اکنامک کوارڈینیشن کمیٹی (ای سی سی) کے فیصلے کی توثیق کر دی تھی۔
ای سی سی کے فیصلے کے مطابق پیٹرول اور ڈیزل کی ایکس ریفائنری/ایکس ڈپو پرائس کے تعین میں حکومت کا کردار محض اتنا ہے کہ آئل ریفائنریوں اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے لیے پیٹرولیم ڈویژن کی گائیڈ لائنز پر عمل کرنا ضروری قرار دیا گیا۔
سرکاری تفصیلات کے مطابق موجودہ معاشی بحران میں جب وفاقی حکومت گذشتہ دنوں پیٹرول کے ایک لیٹر پر 47 اور ہائی سپیڈ ڈیزل پر 60 روپے کی سبسڈی دے رہی تھی تو اس وقت بھی آئل ریفائنریاں پیٹرول پر 33 اور ڈیزل پر 35 روپے تک منافع کما رہی تھیں۔ ان کا یہ منافع بدستور جاری ہے۔
ماضی میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کا اختیار آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کو دے دیا تھا۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں نتیجتاً پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو پر لگ گئے اور عالمی مارکیٹ میں مندی کے باوجود ہر 15 روز بعد پیٹرول و ڈیزل کی قیمتیں پانچ سے 10 روپے فی لیٹر بڑھنا شروع ہو گئی تھیں۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ وفاقی حکومت نے او سی اے سی کے لیے اپنا نمائندہ مقرر ہی نہیں کیا تھا۔ بالآخر وفاقی حکومت کو عوامی دباؤ میں آ کر اس فیصلے کو منسوخ کر کے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کا اختیار دوبارہ اوگرا کو دینا پڑا تھا۔
آئل ریفائنریاں قیمتوں کا تعین کیسے کرتی ہیں؟
اوگرا کی دستاویز کے مطابق آئل ریفائنریاں عرب گلف انٹرنیشنل مارکیٹ سے (کاسٹ اینڈ فریٹ کی بنیاد پر) درآمدی خام تیل کا گذشتہ 15 روز کا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں۔ وہ اس دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اوسط قیمت نکال کر درآمدی قیمت کو (بیرل کے حساب سے) روپوں تبدیل کرتی ہیں۔ (خام تیل میٹرک ٹن کے حساب سے درآمد ہوتا ہے جبکہ ادائیگی ڈالروں میں فی بیرل کے حساب سے کی جاتی ہے)
اس کے بعد ریفائننگ یا صفائی کے عمل میں خام تیل سے جو مصنوعات نکلتی ہیں ان کے تناسب سے فی لیٹر قیمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ (پیٹرولیم ڈویژن کی گائیڈ لائنز کی روشنی میں) پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) ہر ماہ کی 15 اور 30 یا 31 تاریخ کو خط بھجوا کر پریمیم (کارگو اخراجات)، سی اینڈ ایف ایڈجسٹمنٹ، اتفاقی اخراجات، سمندری نقصانات اور کسٹم ڈیوٹی کا اعلان کرتا ہے۔
پی ایس او نے یکم تا 15 جون 2022 کے لیے پیٹرول کا پریمیئم آٹھ ڈالر 47.4 سینٹ فی بیرل، سی اینڈ ایف ایڈجسٹمنٹ چار روپے 71 پیسے فی لیٹر، اتفاقی اخراجات 24 پیسے جبکہ 17 روپے 57 پیسے فی لیٹر کسٹم ڈیوٹی کا اعلان کیا تھا۔ اسی طرح ہائی سپیڈ ڈیزل کے لیے 10 ڈالر ساڑھے 49 سینٹ فی بیرل پریمیئم، پانچ روپے 87 پیسے فی لیٹر سی اینڈ ایف ایڈجسٹمنٹ، 19 پیسے فی لیٹر اتفاقی اخراجات، 36 پیسے فی لیٹر سمندری نقصانات اور 19 روپے 47 پیسے کسٹم ڈیوٹی کا اعلان کیا گیا۔ اس رقم کو پیٹرول و ڈیزل کی روپوؤں میں نکالی گئی قیمت میں شامل کر کے ایکس ریفائنری/بیس پرائس کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔
کیا حکومت کوئی ٹیکس نہیں لے رہی؟
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد متعدد بار کہا ہے کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر کوئی ٹیکس، لیوی نہیں لے رہی بلکہ 16 جون 2022 سے قیمت خرید پر عوام کو پیٹرول و ڈیزل فراہم کیا جا رہا ہے۔
اس کے برعکس پی ایس او کی جانب سے 31 مئی 2022 کو آئل ریفائنریوں کو بھجوائے گئے خط میں، جس کا حوالہ نمبر (ایف این/پی اے/220) ہے واضح طور پر ہدایت کی گئی کہ یکم تا 15 جون 2022 کے لیے پیٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر ایکس ریفائنری پرائس پر بالترتیب 17 روپے 57 پیسے اور 19 روپے 47 پیسے کسٹم ڈیوٹی وصول کی جائے۔
اوگرا قیمتوں میں ردوبدل کی سمری کس کو بھجواتا ہے؟
اوگرا کی دستاویز کے مطابق آئل ریفائنریاں اور آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ہی ہر ماہ کی 15 اور 30 یا 31 تاریخ کو پیٹرولیم مصنوعات کی ایکس ریفائنری/ایکس ڈپو پرائس کا تعین کر کے نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے۔ اوگرا اس نوٹیفکیشن کی روشنی میں قیمتوں میں ہونے والی کمی یا اضافے کی ایک سمری تیار کر کے فنانس ڈویژن کو بھجواتا ہے جو وہاں سے وزیراعظم کو بھجوائی جاتی ہے۔
اگر حکومت چاہے تو قیمتوں میں اضافے کا بوجھ صارفین پر ڈالنے کی بجائے پیٹرول و ڈیزل پر عائد سیلز ٹیکس اور لیوی کم کرکے قیمتیں برقرار رکھنے کا اعلان کرتی ہے جبکہ بصورت دیگر قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ اوگرا کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ آئل ریفائنریوں کی جاری کردہ نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن اپنی ویب سائٹ پر ری پبلش کر دیتا ہے۔
آئل ریفائنریاں فی لیٹر کتنا کما رہی ہیں؟
دوسری جانب تیل کے کاروبار سے وابستہ کسی بھی نجی کمپنی کا کوئی ایگزیکٹیو یہ ماننے کو تیار نہیں کہ وفاقی حکومت نے جولائی 2020 سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کا اختیار ان کو دے رکھا ہے۔ اس حوالے سے اٹک آئل ریفائنری لمیٹڈ کے سی ای او عادل خٹک سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اس بات کی تردید کی کہ 15 روز بعد آئل ریفائنریاں پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمت کا تعین کرتی ہیں۔
مزید برآں اٹک آئل ریفائنری لمیٹڈ کے جی ایم کمرشل آصف سعید نے پیٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی (فی لیٹر) حقیقی لاگت بتانے کے لیے رضامندی دکھائی اور وعدہ کیا کہ 16 تا 31 مئی اور یکم تا 15 جون 2022 کا درآمدی خام تیل کی قیمت، کارگو اور تیل صاف کرنے کے تمام اخراجات کا ڈیٹا دو روز میں شیئر کر دیں گے، تاہم بعد میں انہوں نے فون سننا ہی چھوڑ دیا۔
ماہرین کے خیال میں درحقیقت خام تیل سے پیٹرولیم مصنوعات کی حقیقی لاگت نکالنے کے فارمولے کو بظاہر خفیہ رکھنے میں تیل کے کاروبار سے منسلک تمام لوگوں کا مالی مفاد وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریفائنریاں درآمدی خام تیل کا پرچیزنگ ڈیٹا کسی سے بھی شیئر نہیں کرتی ہیں۔
اوپیک اور عرب گلف انٹرنیشنل مارکیٹ کے ڈیٹا کے مطابق 27 مئی تا 3 جون 2022 کے دوران پاکستان میں درآمد ہونے والے عرب لائٹ (خام تیل) کی اوسط قیمت 112 ڈالر 50 سینٹ فی بیرل تھی جبکہ 31 مئی کو پی ایس او کی طرف سے اعلان کردہ آٹھ ڈالر 47 سینٹ پریمیئم شامل کرکے فی بیرل قیمت 120 ڈالر 97 سینٹ فی بیرل بنتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اوسط قیمت 198 روپے44 پیسے رہی جب کہ اس طرح پاکستانی کرنسی میں درآمدی خام تیل کی قیمت 24 ہزار چھ روپے 49 پیسے فی بیرل بنتی ہے۔ نیز اس میں پی ایس او کی اعلان کردہ چار روپے 71 پیسے فی لیٹر سی اینڈ ایف ایڈجسٹمنٹ، 24 پیسے فی لیٹر اتفاقی اخراجات اور 17 روپے 57 پیسے کسٹم ڈیوٹی شامل کی جائے تو تین تا 15 جون کے لیے پیٹرول کی ایکس ریفائنری پرائس 173 روپے 52 پیسے فی لیٹر بنتی ہے۔
اس کے برعکس تین جون کو آئل ریفائنریوں کی طرف سے پیٹرول کی نئی قیمت کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا (یہ نوٹیفکیشن اوگرا نے بھی اپنی ویب سائٹ پر ری پبلش کیا) اس میں پیٹرل کی ایکس ریفائنری/ایکس ڈپو پرائس 206 روپے 42 پیسے درج ہے جبکہ وفاقی حکومت اس پر نو روپے 32 پیسے فی لیٹر کے حساب سے سبسڈی بھی ادا کر رہی تھی۔
نوٹیفکیشن کے مطابق 206 روپے 42 پیسے ایکس ریفائنری/ایکس ڈپو پرائس میں چار روپے 18 پیسے آئی ایف ای ایم، تین روپے 68 پیسے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا مارجن جبکہ چار روپے 90 پیسے ڈیلر کمیشن شامل کر کے عام صرف کے لیے پیٹرول کی 209 روپے 86 پیسے فی لیٹر ریٹیل پرائس کا اعلان کیا گیا۔
قیمت اور کارٹلائزیشن
دستاویز کے مطابق پی ایس او تیار شدہ پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرول و ڈیزل) کی درآمد کی کے لیے جو ٹینڈر جاری کرتا ہے، اسی کی بنیاد پر آئل ریفائنریوں کے لیے خام تیل کی درآمد کے لیے پریمیئم، سی اینڈ ایف ایڈجسٹمنٹ، اتفاقی اخراجات اور سمندری نقصانات کا تعین کرتا ہے۔ اس طرح اگر کسی کمپنی کو عالمی مارکیٹ میں خام تیل سستا ملتا ہے یا کارگو اخراجات کم ہوتے ہیں، سمندر میں آئل ٹینکر کو راستے میں اور پورٹ پر کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی تو اس کا منافع بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
اس کے برعکس ایک دوسری کمپنی جس کو عالمی مارکیٹ میں خام تیل نسبتاً مہنگا ملتا ہے یا کارگو اخراجات (کسی بھی وجہ سے) بڑھ جاتے ہیں یا سمندر میں بحری جہاز کو حادثہ پیش آنے پر آئل ٹینکر سے تیل رسنے لگتا ہے یا بندرگاہ میں بحری ٹریفک کی بہتات کی وجہ سے جہاز کو لنگر انداز ہونے کے لیے کئی دن لگ جاتے ہیں تو نہ صرف اس کا منافع کم ہو جاتا ہے بلکہ اس کو خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معاشی ماہرین کا الزام ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی جزوی ڈی ریگولیشن کے نتیجے میں آئل ریفائنریوں اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا مبینہ کارٹل بن کے رہ گیا ہے اور وہی درحقیقت نئی قیمتوں کا فیصلہ کرتی ہیں۔ آئل کمپنیاں ان الزامات کو رد کرتی ہیں۔