عیدالاضحیٰ پاکستان کی فلمی صنعت کے لیے آخری موقع؟ 

اس عید پر آنے والی دو فلمیں ایسی ہیں جن کی کامیابی یا ناکامی بتائے گی کہ پاکستانی فلمی صنعت کا مستقبل کیا ہے۔

فہد مصطفیٰ اور ماہرہ خان پہلی بار ایک دوسرے کے ساتھ فلم ’قائداعظم زندہ باد‘ میں کام کر رہے ہیں (فوٹو: فلم والا فلمز)

دنیا بھر میں کرونا (کورونا) وائرس کی عالمی وبا کے بعد پابندی کی شکار سینیما کی صنعت بحالی کی جانب گامزن ہے لیکن پاکستان میں پے در پے فلموں کی ناکامی نے ایک بار پھر اس کا وجود ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔

آئندہ چند دنوں میں عیدالاضحیٰ پر آنے والی دو پاکستانی فلمیں ’قائداعظم زندہ باد‘ اور ’لندن نہیں جاؤں گا‘ کی کامیابی یا ناکامی اس ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔

گذشتہ سال اکتوبر میں کرونا وائرس کی پابندیوں میں نرمی کے بعد سے کھلنے والے سینیما کا واحد سہارا ہالی وڈ کی چند فلمیں رہی ہیں، جبکہ نومبر سے اب تک ایک بھی پاکستانی فلم ایسی نہیں جس کے باکس آفس کو قابلِ رشک قرار دیا جا سکے۔

گذشتہ نومبر میں جب پاکستانی فلم ’کھیل کھیل میں‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی تو اس فلم سے کافی امیدیں تھیں مگر سجل علی اور بلال عباس کی یہ فلم باکس آفس پر بمشکل چھ کروڑ ہی کما پائی۔

عیدالفطر تک آنے والی تمام پاکستانی فلمیں جن میں ’کہے دل جدھر‘، ’چھولے آسمان‘، ’تھوڑی لائف تھوڑی زندگی‘ اور ’عشرت، میڈ ان چائنا‘ شامل تھیں، باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوئیں۔

’کہے دل جدھر‘ نے باکس آفس پر 60 لاکھ، ’عشرت، میڈ ان چائنا‘ نے صرف 68 لاکھ کمائے جبکہ دیگر دو فلموں کا بزنس تو قابلِ ذکرہے ہی نہیں۔

عیدالفطر پر لگنے والی چار فلموں میں سے صرف صبا قمر کی ’گھبرانا نہیں ہے‘ نے اب تک 15 کروڑ کے قریب کمائے ہیں، باقی تینوں فلمیں ’دم مستم‘، ’پردے میں رہنے دو‘ اور ’چکّر‘ کا باکس آفس بزنس توقع سے بہت کم رہا۔

’پردے میں رہنے دو‘ تقریباً تین کروڑ 68 لاکھ، ’چکر‘ دو کروڑ 67 لاکھ، جبکہ ’دم مستم‘ کا تقریباً آٹھ کروڑ روپے کا باکس آفس بزنس رہا۔

عیدالفطر کے بعد ریلیز ہونے والی تمام فلمیں جن میں ’رشتے،‘ ’تھوڑی سیٹنگ تھوڑا پیار،‘ ’کھیل،‘ ’پیچھے تو دیکھو،‘ ’چوہدری‘ اور ’رہبرا‘ شامل ہیں، سب کی سب باکس آفس پر ناکام رہی ہیں۔ ’رشتے‘ اور ’کھیل‘ کا بزنس تو قابلِ ذکر ہی نہیں، ’تھوڑی سیٹنگ تھوڑا پیار‘ نے سات لاکھ روپے، ’پیچھے تو دیکھو‘ نے لگ بھگ 42 لاکھ ، ’چوہدری‘ نے تقریباً 20 لاکھ اور ’رہبرا‘ نے اب تک 43 لاکھ باکس آفس پر کمائے ہیں۔

صرف سرمد کھوسٹ کی فلم ’کملی‘ نے چار کروڑ سے اوپر کما کر کچھ ساکھ بچائی ہے اور اس فلم کو ناظرین اور ناقدین کی جانب سے بھی پذیرائی ملی۔

واضح رہے کہ سینیما میں فروخت ہونے والے ہر ٹکٹ کی رقم کا 50 سے 60 فیصد حصہ سینیما کا ہوتا ہے جبکہ پانچ سے 15 فیصد تک تقسیم کار (ڈسٹری بیوٹر) کا حصہ ہوتا ہے۔ پروڈیوسر کے پاس فلم کا بمشکل 30 فیصد حصہ ہی آتا ہے۔ یعنی اگر ایک فلم پانچ کروڑ میں بنتی ہے تو پروڈیوسر کے پاس اپنے پیسے واپس کمانے کے لیے فلم کو کم از کم 15 کروڑ کمانے ہوتے ہیں۔

اب اس پس منظر میں عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہونے والی دونوں بڑی فلموں کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ اب پاکستانی فلمی صنعت کے آگے بڑھنے کا دارومدار بہت حد تک انہی پر ہے۔

یاد رہے کہ آٹھ جولائی کو عیدالاضحیٰ سے دو دن پہلے مارول کی ’تھور لوّ اینڈ تھنڈر‘ بھی نمائش کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

یہاں عید الاضحیٰ پر آنے والی پاکستانی فلموں کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں:

قائدِ اعظم زندہ باد

اپنے نام ہی کی طرح یہ فلم کئی لحاظ سے منفرد ہے۔ فلم کے مرکزی کردار ماہرہ خان اور فہد مصطفیٰ ہیں جو پہلی بار ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان دونوں نے اس سے پہلے فلم یا ڈراما تو کجا، کسی اشتہار میں بھی ساتھ کام نہیں کیا ہے۔

اس فلم میں ماہرہ خان تین سال بعد اور فہد مصطفیٰ چار سال بعد سینیما کے پردے پر نظر آئیں گے اور اس بار ان دونوں کی اس عید پر کوئی اور فلم ریلیز نہیں ہورہی ہے۔

2018 میں فہد کی ’لوڈ ویڈنگ‘ اور ’جوانی پھر نہیں آنی 2‘ ایک ساتھ ریلیز ہوئی تھیں جبکہ 2019 میں ماہرہ خان کی ’سپر سٹار‘ اور ’پرے ہٹ لوّ‘ ایک ساتھ سینیما میں لگی تھیں جس سے ان کے مداح دونوں فلموں میں بٹ گئے تھے۔

یہ فلم ایکشن، کامیڈی اور رومانس سے بھرپور بارہ مسالحے رکھتی ہے، جس میں بدعنوانی کے خلاف ایک سماجی پیغام بھی ہے جو فضہ علی میرزا اور نبیل قریشی کا خاصہ ہے۔ یہ دونوں اس سے پہلے ’نامعلوم افراد‘ اور ’ایکٹر ان لا‘، جیسی کامیاب فلمیں دے چکے ہیں۔

فلم میں فہد مصطفیٰ ایک پولیس والے کا کردار کررہے ہیں جبکہ ماہرہ خان جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن کا کردار کررہی ہیں۔ اب تک جاری ہونے والے گانوں میں اس جوڑی کو پسند کیا جارہا ہے اور ان کی کیمسٹری بھی خوب جچ رہی ہے۔ فلم میں جاوید شیخ پہلی مرتبہ ایک سندھی پولیس کانسٹیبل کے روپ میں نظر آئیں گے۔

ماہرہ خان اور فہد مصطفیٰ کی سٹار پاور اور ’فلم والا‘ کے بڑے بینر کے ساتھ اس فلم سے بہت زیادہ امیدیں ہیں۔

فلم کا ٹریلر دلچسپ ہے اور فلم دیکھنے کی ترغیب دیتا ہے، مزید یہ کہ ٹریلر میں جدید ٹیکنالوجی (وی ایف ایکس) کا استعمال بھی اچھے انداز سے کیا گیا ہے جو پاکستانی فلموں میں کم کم ہی ہوتا ہے۔ 

لندن نہیں جاؤں گا

مہوش حیات اور ہمایوں سعید کی یہ فلم اس سے پیشتر آنے والی فلم ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کا ری بوٹ ورژن معلوم ہوتی ہے۔ فلمسازوں کا کہنا ہے کہ اس کی کہانی بالکل مختلف ہے، البتہ کچھ چیزوں میں مماثلت ضرور ہے مگر وہ کہانی کی ضرورت تھی۔

مہوش حیات اور ہمایوں سعید کی جوڑی سینیما پر اس سے پہلے دو کامیاب ترین فلمیں ’جوانی پھر نہیں آنی‘ اور ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ دے چکی ہے۔

خلیل الرحمٰن قمر کے سکرپٹ کی وجہ سے اس کے مکالموں میں جان ہے، موسیقی کچھ روایتی سی ہے مگر ترنم اور نغمگی سے بھرپور ہے۔ فلم کی ہدایات ندیم بیگ نے دی ہیں۔

ٹریلر دیکھیں تو لگتا ہے کہ اس فلم کا بڑا سرپرائز کبریٰ خان ہو سکتی ہیں جنہوں نے ایک چھوٹے شہر کی پنجابی لڑکی کا کردار ادا کیا ہے۔ اب تک ریلیز ہونے والے گانے میں ان کا رقص کافی پسند کیا جا رہا ہے۔ 

ہمایوں سعید کا کردار ان کے گزشتہ کردار فواد کھگہ جیسا ہی ہے مگر وہ بہت ہی مقبول کردار تھا۔ اس لیے امکان ہے کہ لوگ اسے پسند کریں گے، ویسے بھی پچھلے سات سالوں سے سوائے  ایک (پراجیکٹ غازی) کے ہمایوں سعید کی کوئی فلم ناکام نہیں ہوئی ہے۔

فلم کی سب سے بڑی چمک تو مہہوش حیات ہیں جو حالیہ دور کی سب سے کامیاب فلمی ہیروئن ہیں۔ ان کا نام ہی اب تک کامیابی کی ضمانت ہے۔ حالیہ دنوں میں مس مارول میں ان کے کام کے بعد تو انہیں بین الاقوامی شہرت مل چکی ہے، جو اس فلم میں ان کے کافی کام آسکتی ہے۔

اس فلم میں گوہر رشید اور واسع چوہدری بھی ہیں۔ ہمایوں کے مطابق اس فلم میں مزاح بہت زیادہ ہے جو عید کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔

لفنگے

سینسر بورڈ کا شکار ہونے کے بعد آخری لمحات میں اس فلم کو فل بورڈ ریویو میں کئی مکالمے اور کچھ سین کاٹ کر نمائش کی اجازت دے دی گئی۔ یہ ایک ہارر کامیڈی فلم ہے جس میں سمیع خان، مبین گبول، سلیم معراج اور مانی کے علاوہ نازش جہانگیر مرکزی کرداروں میں ہیں، جبکہ بہروز سبزواری بھی طویل عرصے بعد فلم میں کام کررہے ہیں۔

فلم سازوں کا دعویٰ ہے کہ یہ فلم پاکستان کی پہلی ہارر کامیڈی فلم ہے اور یہ ان چار مردوں کی کہانی ہے جو خواب تو دیکھتے ہیں مگر انہیں حاصل کرنے کا کوئی طریقہ ان کے پاس نہیں۔

اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دیگر دو فلموں سے بہت ہی مختلف موضوع پر ہے لیکن اس فلم میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کے نام پر باکس آفس کی کوئی کامیاب فلم ہو۔ اس لحاظ سے اس فلم کے لیے ابتدا میں عوام کو اپنی جانب کھینچنا کچھ مشکل ہوسکتا ہے۔

پاکستانی سینیما کے مسائل کا پس منظر

پاکستانی سینیما کا بنیادی مسئلہ فلموں کی کمی ہے۔ سینیما کو ہر ہفتے ایک فلم درکار ہوتی ہے اور پاکستانی صنعت میں اتنی گنجائش ہی نہیں ہے۔

پاکستانی سینیما اپنے آغاز ہی سے بالی وڈ فلموں پر انحصار کرتا آیا ہے۔ 1965 کی پاکستان بھارت جنگ کے بعد حکومت پاکستان نے ملک میں بالی وڈ فلموں کی نمائش پر پابندی لگائی جس میں 2007 میں اس وقت کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے نرمی کی اور بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بالی وڈ فلموں کی نمائش کی مشروط اجازت دےدی۔

لیکن اس 42 سالہ پابندی میں سینکڑوں سینیما گھر ٹوٹ گئے اور فلموں کی تعداد گھٹتے ہوئے یہاں تک نوبت آئی کہ 2005 میں ایک بھی فلم نہیں بنی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے کہ پاکستان میں بالی وڈ کی فلموں کا شمار ممنوعہ درآمدی اشیا کی فہرست میں ہوتا تھا اور 2008 کی پالیسی کے تحت بھارتی فلموں کو پاکستانی سینیما میں نمائش کی خاطر خصوصی استثنیٰ دیا جاتا تھا، جس کے بعد وہ فلم درآمد کرکے اسے سینسر بورڈ سے سرٹیفیکیٹ جاری ہوتا تھا۔

2008 کے بعد بھارتی فلموں کی نمائش کا فائدہ یہ ہوا اورکہ پاکستان میں نئے سینیما گھروں کی تعمیر شروع ہوگئی اور بڑے شہروں میں جدید ملٹی پلیکس سینیما تعمیر ہوئے۔ سینیما کی تعداد بڑھی تو پاکستانی پروڈیوسرز کو ہمت ملی اور انہوں نے فلمیں بنانا شروع کیں۔

لیکن ستمبر 2016 میں، بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اُڑی کیمپ پر حملے کے دو ہفتے بعد انڈین موشن پکچرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی فنکاروں کے بھارت میں کام کرنے پر پابندی عائد کردی، جس کے بعد پاکستان میں سینیما مالکان نے بھارتی فلموں کی نمائش روک دی تھی، لیکن یہ خود ساختہ پابندی دسمبر 2016 میں اٹھا لی گئی، لیکن سرکاری کاغذی کارروائیوں اور مختلف اجازت نامے درکار ہونے کی وجہ سے مزید دو ماہ تک کسی بھی بھارتی فلم کی پاکستان کے سینیما میں نمائش نہ ہو سکی۔

ان پانچ ماہ کے دوران پاکستانی سینیما جانے والوں کی تعداد ایک چوتھائی سے بھی کم رہ گئی۔ سینیما مالکان کے مطابق جو پاکستانی فلمیں چل رہی تھیں انہیں بھی شدید نقصان ہوا کیونکہ سینیما میں لوگوں کی آمد میں شدید کمی واقع ہوگئی جس کے نتیجے میں پاکستانی فلموں کو بھی نقصان ہوا اور کئی شہروں میں زیر تعمیر سینیما بھی روک دیے گئے۔

14 فروری 2019 کو پلوامہ (بھارت کے زیرانتظام کشمیر) میں ہونے والے حملے کے بعد ہونے والی کشیدگی کے بعد بھارتی فلم پروڈیوسروں نے اپنی فلموں کی پاکستان میں نمائش سے انکار کردیا۔ اس مرتبہ پاکستان نے فوری رد عمل دیا لیکن اسی ماہ 26 فروری کو بھارت کی جانب سے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں مبینہ فضائی حملے کے بعد پاکستانی سینیما مالکان نے بالی وڈ کا بائیکاٹ کر دیا۔

تب سے اب تک پاکستان میں بالی وڈ کی فلموں پر پابندی عائد ہے اور ضمن میں کوئی اہم پیشرفت بھی نہیں ہو رہی ہے۔ اس دوران کرونا کی عالمی وبا نے بھی نہلے پر دہلا مار دیا اور سسکتی ہوئی فلمی صنعت کو مزید کسمپرسی میں ڈال دیا۔

سینیما مالکان اور فلمی صنعت سے وابستہ افراد کی بڑی اکثریت متفق ہے کہ بالی وڈ پاکستانی سینیما کے لیے انتہائی ضروری ہے مگر سیاسی حالات اس میں رکاوٹ ہیں۔

(فلموں کے باکس آفس کے اعداد و شمار ان فلموں کے تقسیم کاروں نے دیے ہیں)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم