’اتنی مشکلوں سے ملنے کے بعد وہ گھر میرے ہاتھ سے چلا گیا‘

گذشتہ سال اکتوبر میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے آسان ماہانہ اقساط اور سبسڈائزڈ یعنی کم شرح سود پر مبنی ہاؤسنگ منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا مگر بعد میں اسے 31 اگست 2022 تک معطل کر دیا گیا۔

مارچ 2022 میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کمرشل بینکوں کے ساتھ مل کر فیصل آباد میں ’میرا پاکستان میرا گھر‘ پروگرام کے تحت ایک میلے کا انعقاد کیا تھا۔ (تصویر: نعیم احمد/ فائل)

عبدالغفار کو جوں ہی پچھلی حکومت اور سٹیٹ بینک کی سکیم ’میرا گھر میرا پاکستان‘ سے قرض کی منظوری ملی، انہوں نے گھر تلاش کرنا شروع کردیا۔ کئی ماہ بعد جب انہیں اپنا من پسند گھر ملا تو سٹیٹ بینک نے قرضہ دینے سے معذرت کر لی۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے عبدالغفار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس سکیم کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ جن کا کوئی گھر نہیں ہے یہ سکیم ان کے لیے لانچ کی گئی تھی۔ مگر گھر بنانے والوں کا خواب اب خواب ہی رہ جائے گا۔ تین ماہ اور بیس گھروں کو دیکھنے کے بعد مجھے اپنا من پسند گھر ملا مگر اب قرضہ نہ ملنے کے باعث میں گھر کا بیانہ نہیں دے سکتا۔ اتنی مشکلوں سے ملنے کے بعد وہ گھر میرے ہاتھ سے چلا گیا۔‘

گذشتہ سال اکتوبر میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے آسان ماہانہ اقساط اور سبسڈائزڈ یعنی کم شرح سود پر مبنی ہاؤسنگ منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک کے 21 کمرشل بینکوں کے ساتھ مل کر لوگوں کو گھر بنانے کے لیے قرضے دینے کا آغاز کیا تھا۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق میرا گھر میرا پاکستان سکیم کو گذشتہ حکومت اور نیا پاکستان ہاؤسنگ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے شروع کیا گیا تھا۔

اس منصوبے کے تحت درخواست دہندگان نہ صرف مکان یا فلیٹ خریدنے کے لیے قرض لے سکتے تھے بلکہ گھر بنانے کے لیے خالی پلاٹ کی خریداری، خالی پلاٹ پر نئے مکان کی تعمیر، تعمیر شدہ گھر میں اضافی تعمیراتی کام یا ذاتی خالی پلاٹ پر نئے مکان کی تعمیر کے لیے بھی قرضہ لیا جاسکتا تھا۔ 

سٹیٹ بینک کے مطابق یہ سکیم ان پاکستانی شہریوں اور اوورسیز پاکستانوں کے لیے شروع کی گئی تھی جو کہ پہلی بار اپنا گھر تعمیر کر رہے تھے۔ اس سکیم کے تحت ایک کروڑ روپے تک قرض مل سکتا تھا۔ قرضہ چکانے کی مدت پانچ سے 20 سال تھی۔

شروع کے پانچ سالوں کی قسطوں میں شرح سود صرف تین سے سات فیصد تھی۔ کم سے کم ماہانہ قسط 3300 روپے اور زیادہ سے زیادہ 87467 روپے تھی۔

البتہ رواں سال 30 جون کو سٹیٹ بینک کے ڈائریکٹر ڈاکٹر میاں فاروق حق کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا: ’موجودہ حکومت میرا گھر میرا پاکستان سکیم کو ملک کے وسیع طر معاشی مفاد میں 31 اگست 2022 تک معطل کر رہی ہے۔ اس دوران حکومت اس سکیم کے نکات اور خصوصیات پر غور کرے گی۔‘

مزید کہا گیا: ’تاہم وہ افراد جنہیں 30 جون 2022 تک اپنے قرض کی آدھی رقم مل چکی ہے صرف انہیں باقی رقم دی جائے گی۔ دیگر درخواستوں پر دو ماہ کے بعد غور کیا جائے گا۔‘

کراچی کے رہائشی عبدالغفار کا کہنا تھا: ’میں نے وہ گھر اپنی والدہ کو بھی دکھا دیا تھا اور انہیں وہ بہت پسند آیا تھا۔ میں نے اس گھر کے مالک سے تمام معاملات طے کر لیے تھے۔ میں اپنی جیب سے گھر کا ٹوکن بھی دے چکا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کے ہاؤسنگ لون کا کیس بینک کے لیگل ڈپارٹمنٹ میں منظوری کے لیے گیا ہوا تھا۔

’میرا گھر لینے کا خواب پوری طرح مکمل ہوچکا تھا، سب کچھ تیار تھا، لیکن اچانک سے 30 جون کو سٹیٹ بینک کا ںوٹیفیکیشن آیا تو مجھے یقین نہیں آیا کہ حکومت نے ایسا کیوں کیا؟‘

انہوں نے کہا کہ حکومت تبدیل ہونے کے بعد بھی اسے جاری رکھ سکتی تھی۔ ’مجھے 20 اپریل کو بینک سے رقم کی منظوری ملی اور صرف 90 دنوں کا وقت ملا گھر تلاش کرنے کے لیے۔ جب یہ تمام وقت گزر گیا تو حکومت نے سکیم روک دی۔‘

انہوں نے کہا کہ دیگر کمرشل بینکوں کے ہاؤس لون اور ہاؤس بلڈنگ فائنانس کی شرح سود اس قدر بلند ہے کہ عام آدمی اسے برداشت ہی نہیں کرسکتا۔

میرا گھر میرا پاکستان منصوبے کے ابتدائی مرحلے کے حوالے سے گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کہنا تھا: ’ابتدائی مرحلے میں بینکوں نے اس پروجیکٹ کے لیے آنے والی درخواستوں پر 109 ارب روپے قرضوں کی منظوری دی تھی۔ تقریبا 260 ارب روپے سے زائد مالیت کی درخواستیں آئی تھیں۔ ہر ہفتے تقریباً 1.7 ارب روپے قرض کی رقم تقسیم کی جاتی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رواں سال مارچ میں سٹیٹ بینک کے کمرشل بینکوں کے ساتھ مل کر مختلف شہروں میں کئی میلے بھی سجائے تھے، جہاں لاکھوں لوگوں نے آکر اس سکیم کی معلومات حاصل کی تھیں، درخواستیں جمع کروائی تھیں۔

اس ہی طرح کا ایک میلہ فیصل آباد میں بھی منعقد کیا گیا تھا جس میں شرکت کرنے والے ایک شہری نوید احمد نے بتایا: ’جب حکومت نے پہلی دفعہ گھر بنا کر دینے کے لیے درخواستیں مانگی تھیں تو میں نے اس وقت درخواست دی تھی لیکن ابھی تک اس کا کوئی رسپانس نہیں آیا۔‘

ان کا کہنا تھا: ’اب لاگت یا لیبر کے اخراجات میں تقریباً 40 فیصد سے زائد فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ ابھی دو ماہ پہلے ایک دوست نے 625 روپے میں سیمنٹ کی بوری خریدی تھی، کل وہ بتا رہا تھا کہ اب بوری 890 روپے کی ہو گئی ہے۔ اس طرح روزانہ کی بنیاد پر ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کسی کو کیا پلاٹ لینا ہے اور کیا گھر بنانا ہے۔‘

معاشی و کاروباری امور کے ماہر سمیع اللہ طارق نے بتایا کہ ملک کے دیگر کمرشل بینکوں یا ہاؤس بلڈنگ فائنانس کی ہاؤسنگ سکیموں میں پہلے پانچ سالوں میں شرح سود تقریبا 18 سے 19 فیصد ہوتی ہے۔ مگر میرا گھر میرا پاکستان سکیم میں یہ شرح صرف تین سے سات فیصد تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ 20 لاکھ کے قرض پر بھی ماہانہ قسط صرف 11 ہزار روپے بنتی۔ واقعی یہ سکیم ایک عام آدمی کے لیے بہت سستی تھی۔

ان کے خیال میں حکومت اس سکیم کو اس لیے جاری نہیں رکھ سکتی کیوں کہ اس وقت ہماری ملکی سیاسی صورت حال صحیح نہیں ہے۔ اس وقت حکومت کوئی بھی ایسا منصوبہ برداشت نہیں کرسکتی جس سے عوامی طلب میں اضافہ ہوتا ہو کیونکہ حکومت اس وقت عوام کو پیسے دینے کی حالت میں نہیں ہے۔

ان کے بقول: ’گذشتہ حکومت نے اس منصوبے میں شرح سود سات فیصد طے کی ہوئی تھی مگر اب شرح سود میں کافی اضافہ ہوگیا ہے اس لیے حکومت کے لیے ممکن نہیں کہ پرانے ریٹس پر لوگوں کو قرض دے۔ اگر یہ سکیم دوبارہ شروع ہوگئی تو ماہانہ اقساط بھی پہلے سے کافی زیادہ ہوں گی۔

’بہت سے لوگ تو اہلیت کے معیار سے ہی باہر نکل جائیں گے۔ پہلے اس سکیم میں درخواست دہندہ کی کم از کم آمدنی صرف 25000 روپے ہونا تھی۔ مگر اب شرح سود بڑھ جانے کے بعد اہلیت کا معیار اور کم از کم آمدنی کا معیار بھی کافی بڑھ جائے گا۔‘

سیٹ بینک نے 30 جون ایک اور نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس کے مطابق میرا گھر میرا پاکستان منصوبے کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت کی ایک اور سبسڈائزڈ سکیم ’کامیاب جوان‘ سکیم کو بھی ملک کے وسیع طر معاشی مفاد میں 15 جولائی تک معطل کردیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر