دریائے کابل کی مشہور شیر ماہی مچھلی بقا کے مسائل سے دوچار

موسمی تغیر، شدید بارشیں، سیلاب، آلودہ پانی اور شکار کی زیادتی شیر ماہی مچھلی کی نسل میں کمی کا باعث ہیں۔

شیر ماہی افغانستان سے منسلک دریاؤں میں پائی جاتی ہے اور مچھلی کے شوقین اسے ٹراؤٹ مچھلی سے ملتی جلتی قرار دیتے ہیں

خیبر پختونخوا میں پائی جانے والی مشہور مچھلی شیر ماہی، جس کا مرکزی مسکن دریائے کابل ہے، ماحولیاتی تغیر، پانی کی آلودگی اور کثرتِ شکار کی وجہ سے بقا کے شدید مسائل سے دوچار ہے۔

شیر ماہی افغانستان سے منسلک دریاؤں میں پائی جاتی ہے اور مچھلی کے شوقین اسے ٹراؤٹ مچھلی سے ملتی جلتی قرار دیتے ہیں کیونکہ مچھلی کی ان دونوں اقسام میں صرف ریڑھ کا کانٹا ہوتا ہے اور دونوں کھانے میں انتہائی لذیذ ہوتی ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا محکمہ ماہی پروری کے ماہرین، زوالوجسٹ اور مچھلی کے کاروبار سے منسلک تاجروں کے مطابق شیرماہی کی پیداوار میں نمایاں کمی محسوس کی جا رہی ہے اور ان کے مطابق موسمی تغیر، شدید بارشیں، سیلاب، آلودہ پانی اور شکار کی زیادتی شیر ماہی مچھلی کی نسل میں کمی کا باعث ہیں۔

1960 میں ورسک ڈیم بننے سے بھی اس نسل میں نمایاں کمی آئی، جس کی وجہ سے خطے میں شیر ماہی کی آمد و رفت مکمل طور پر بند ہو چکی ہے۔ اس سے قبل شیر ماہی دریائے کنہار، دریائے کابل اور جلال آباد میں پائی جاتی تھی اور افغانستان کے راستے طورخم، پشاور سے ضلع چارسدہ اور ضلع مردان سے ہوتی ہوئی نظام پور نوشہرہ کے مقام پر دریائے سندھ تک جاتی اور کالا باغ صوبہ پنجاب تک سفر کرتی تھی۔

شیر ماہی کی افزائش نسل میں یہ مسئلہ بھی لاحق ہے کہ یہ نہایت حساس مچھلی ہے اور اسی وجہ سے پانی کے تالاب یا مچھلی فارم میں پالی نہیں جا سکتی۔ کچھ لوگ شیر ماہی مچھلی کی ہیچری کا ناکام تجربہ کر چکے ہیں۔

ضلع چارسدہ کے گاؤں حاجی زئی میں دریائے کابل کے کنارے ایک فش ہٹ کے مالک مسافر خان کے مطابق کچھ سالوں سے مچھلی پکڑنے میں وہ شیر ماہی مچھلی کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔

اس طرح ضلع پشاور کے ماہی گیر گل رحیم دعویٰ کرتے ہیں دس سال پہلے وہ 15 سے 20 کلوگرام مچھلی کا شکار کرتے تھے جس سے اُن کو اچھا خاصا منافع بھی ہوتا تھا لیکن آج کل وہ صرف ایک یا ڈیڑھ کلو مچھلی پکڑتے ہیں۔

شیر ماہی مچھلی کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے اس مچھلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تین چار سال پہلے شیر ماہی مچھلی 400 سے 500 روپے پاکستانی تک فروخت ہوتی تھی جبکہ آج کل اس کی قیمت 11 سو روپے فی کلو ہے اور غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گھنٹہ گھر پشاور کی مچھلی مارکیٹ میں مچھلی ہوٹل کے مالک محمد عابد دُرانی نے بتایا دس بارہ سال قبل پشاور مارکیٹ میں شیر ماہی وافر مقدار میں پائی جاتی تھی، جبکہ آج کل کبھی کبھار صرف تین چار کلو ہی دیکھنے میں نظر آتی ہے۔

گذشتہ رمضان المبارک کے مہینے میں پوری مچھلی مارکیٹ میں 20،30 کلوشیر ماہی مچھلی کا کاروبار ہوا جس کی وجہ رمضان المبارک کے مہینے میں دن کے وقت مقامی ہوٹلوں کا بند ہونا ہے۔

مچھلی مارکیٹ کے صدر محمد آصف دُرانی اور مچھلی سوداگر حاجی نور حسین اور اول گل کے مطابق شیر ماہی مچھلی زیادہ لذیذ اور ایک کانٹا ہونے کی وجہ سے بہت پسند کی جاتی ہے مگر کم دستیابی سے اس کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے۔

انہوں نے بتایا چارسدہ میں دس، پندرہ مچھیرے موجود ہیں جو شیرماہی کا شکار کرتے ہیں، مگر ان مچھیروں کے مطابق شیر ماہی مچھلی کی مقدار میں واضح طور پر کمی آئی ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا محکمہ ماہی پروری کے ڈائریکٹر محمد دیار خان کے مطابق پچھلے کئی سالوں سے شیر ماہی کی نسل میں خطرناک حد تک کمی دیکھنے کو مل رہی ہے جو اس مچھلی کی نسل کے لیے تشویش ناک ہے۔

محمد دیار خان کے مطابق محکمہ ماہی پروری نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی سروے نہیں کیا تاہم مقامی مچھیروں اور دریا کے قریب مقیم افراد کے مطابق شیر ماہی مچھلی کی نسل تقریباً 50 فیصد کم ہو چکی ہے۔ دیار خان نے اس بات کی تردید کی کہ مچھلی پکڑنے کے نئے طریقوں مثلاً کرنٹ دینے یا ڈانمائٹ کے استعمال سے شیر ماہی مچھلی کی نسل ختم ہوئی۔

انہوں نے کہا ڈانمائٹ اور کرنٹ کے ذریعے ٹھہرے ہوئے پانی سے مچھلی پکڑی جاتی ہے جبکہ شیر ماہی مچھلی تازہ اور چلتے پانی کی مچھلی ہے۔

اس مچھلی کی قیمت میں اضافے کی وجہ زیادہ لوگوں کا شکار کرنا ہے جو شیر ماہی پر زیادہ دباؤ کا باعث ہے۔ قیمتوں میں اضافے کا منفی پہلو اس مچھلی کی کم پیداوار ہونے کے ساتھ ساتھ مچھیروں کی زیادہ آمدن بھی ہے۔

محکمہ ماہی پروری کے ریٹائرڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقصود احمد صدیقی نے کہا اگرچہ شیر ماہی کی نسل میں کمی کی متعدد وجوہات ہیں لیکن گلوبل وارمنگ سے پانی میں آکسیجن میں کمی کی وجہ سے دریائے کابل کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت بھی شیر ماہی مچھلی کی نسل کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

مقصود صدیقی نے بتایا دریا میں درجہ حرارت میں بڑھوتری اور پانی میں آلودگی کی وجہ سے پانی میں پی ایچ لیول تبدیل ہو جاتا ہے اور دریا کے پانی میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔

اسی طرح پشاور یونیورسٹی کے محکمہ زوالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ضیغم حسن نے بتایا شیر ماہی بہت حساس مچھلی ہے اور زندہ رہنے کے لیے اسے پانی میں زیادہ مقدار میں آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پانی میں آکسیجن کی مقدار پانچ حصہ فی دس لاکھ ہو تو شیر ماہی مچھلی کو چھ حصہ آکسیجن درکار ہوتی ہے۔

ضیغم حسن نے مزید بتایا شیر ماہی مچھلی کو اپنی افزائش نسل اور انڈوں کے لیے زیادہ آکسیجن والا پانی درکار ہوتا ہے، اسی لیے مچھلی کی یہ نسل ناپید ہوتی جا رہی ہے۔

انہوں نے بتایا شیر ماہی مچھلی انتہائی نازک ہونے کی وجہ سے جال میں پکڑتے ہی مر جاتی ہے۔ مزید برآں مچھلی کی خوراک جو کہ چھوٹے کیڑے مکوڑے ہیں، آلودہ پانی کی وجہ سے اس میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔

ضیغم حسن نے کہا پانی کی آلودگی کا ماخذ ضلع چارسدہ میں دریائے کابل کے کنارے شبقدر کے مقام پر سینکڑوں ماربل فیکٹریوں کا ناکارہ فضلہ ہے۔ مہمند ایجنسی جو کہ ماربل ٹائلز بنانے میں مشہور ہے اور یہاں پر تقریباً ڈیڑھ سو ماربل فیکٹریاں اپنے فضلہ جات کو ٹھکانے لگانے کے لیے دریائے کابل ہی استعمال کرتی ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی خیبر پختونخوا ڈاکٹر محمد بشیر نے انڈپینڈنٹ اُردو کو بتایا تمام ماربل فیکٹریوں کو ماحولیاتی آلودگی کے قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی ہدایات کی گئی ہیں۔

اُن سے جب سبحان خوڑ ضلع مہمند، جو دریائے کابل کے کنارے واقع ہے، کے آلودہ ہونے کے متعلق بات کی گئی توانہوں نے بتایا حال ہی میں قبائلی علاقہ جات کے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے دائرہ کار میں آئے ہیں اور تمام فیکٹریوں کو ماحولیاتی آلودگی کے قوانین پر عمل پیرا ہونے کا کہا گیا ہے۔

اسی طرح انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ٹیکنیکل محمد حنیف نے بتایا سبحان خوڑ میں تقریباً 90 ماربل فیکٹریوں میں سے صرف چار فیکٹریوں کے پاس فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے زیر زمین تالاب موجود ہیں۔

انہوں نے کہا انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی اس مسئلے سے باخبر ہے اور عدالتی کاروائی کے بعد انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی تمام ماربل فیکٹریوں کو فضلہ ٹھکانے لگانے کے تالاب بنانے کی ہدایات جاری کرے گی۔

اسی طرح واٹر اینڈ سینیٹین سروسز پشاور کے افسر برائے تعلقاتِ عامہ جاوید علی نے بتایا 2017 کی مردم شماری کے مطابق پشاور شہر کی آبادی تقریباً 42 لاکھ ہے جس میں افغان مہاجرین شامل نہیں، یعنی 50 لاکھ سے زیادہ آبادی کے تمام فضلہ جات براستہ شاہی کٹھہ و دیگر نالوں سے ہوتے ہوئے دریائے کابل میں جا گرتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اُردو سے بات کرتے ہوئے جاوید علی نے کہا پچھلے ادوارمیں پشاور شہر میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس بنانے کا کام شروع ہوا تھا جو مختلف وجوہات کی بنا پر ادھورا پڑا ہے۔

غرضیکہ مندرجہ بالا تمام عوامل نہ صرف شیر ماہی مچھلی بلکہ دریائے کابل کی تمام آبی حیات کے لیے زیادہ نقصان دہ ہیں۔

زیادہ آبادی، آلودہ پانی، گرم موسم اور شکار کی زیادتی سے شیر ماہی جیسی اہم مچھلی کی نسل مسلسل ختم ہو رہی ہے اور خدشہ ہے کہ آئندہ صرف اس کا نام اور اس کے ذائقے کی یاد ہی باقی رہ جائے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات