صحافی بمقابلہ صحافی۔ کیا ایسے ہوگی کھلی لڑائی؟

کیا صحافی کے مقابلے میں صحافی نہیں لایا جا رہا؟ کہیں یہ وہی لڑائی تو نہیں جس میں ’لڑتے لڑتے ہوگئی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دُم۔‘

جو اپنے صحافتی پیشے سے مخلص ہیں ان کی اکثریت پریس کلبز کا رخ کرنے سے کتراتی ہے، یہ وہ صحافی ہیں جو سال کے سال صرف ووٹ دینے پریس کلب کا رخ کرتے ہیں۔(اے ایف پی)

میڈیا پر حالیہ دنوں میں بندش و سینسرشپ کے حوالے سے معروف ٹی وی اینکر حامد میر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اب ہوگی کھلی لڑائی۔ جو پہلے مختلف اصطلاحات استعمال کی جاتی تھیں اب وہ نہیں ہوں گی۔ میر صاحب نے وارننگ دیتے ہوئے کہا ’آپ باز نہ آئے تو ہم کھل کہ آپ کا نام لیں گے۔‘ حامد میر پاکستانی میڈیا میں چلنے والی لگ بھگ ہر مہم میں پیش پیش ہوتے ہیں، چاہے وہ میڈیا کو دباو میں لینے کے خلاف بات ہو یا پھر ورکرز کی تنخواہوں کا مسئلہ۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اسی  پاکستانی میڈیا کمیونٹی کے بہت سے عامل صحافی اس سخت گیر موقف پر حامد میر کو طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ میر صاحب خیر ہو، اچانک ایسا کیا ہوگیا؟ سب ٹھیک تو ہے نا؟

ایسے ہی جب گذشتہ چند روز قبل پاکستان کے تین نیوز چینلز کو شدید دباؤ کے بعد بند کیا گیا تو ان چینلز سے جڑے اینکرز کی تو آوازیں اٹھیں اور صحافتی تنظیموں نے بھی مذمتی بیانات دیئے مگر کیا آپ سوچ سکتے ہیں انہی چینلز سے وابستہ کچھ سابق اور کچھ حاضر سروس صحافیوں نے ردعمل میں کیا کہا؟ فیس بک پر بعض دوست یہ اعلان کرتے نظر آئے کہ ’یہ نیوز چینل اگر ہماری پچھلی تنخواہیں کلئیر کر دے تو ہم اس کی بندش پر احتجاج کے لیے تیار ہیں، ورنہ اسے بند ہی رکھیں تو بہتر ہے۔‘

ابھی چند دن کی بات ہے، اپنے چبھتے سوالات اور تحقیقاتی صحافت کے لیے مشہور عمر چیمہ، اعزاز سید اور نیوز کاسٹر وجیہہ ثانی نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹس غیرفعال کر دیئے، وجہ بتائی گئی کہ ان صحافیوں کو اپنے ادارے کی جانب سے دباؤ کا سامنا تھا۔ جہاں زباں بندی کے اس عمل میں کئی صحافیوں نے افسوس اور یکجہتی کا اظہار کیا وہیں بہت سے متحرک صحافی یہ کہتے بھی نظر آئے کہ ایک صحافی کو صحافی ہی ہونا چاہیئے، سیاسی ٹرولنگ  کریں گے تو دباؤ تو آئے گا۔

زیادہ پرانی خبر نہیں، اسلام آباد میں چند صحافیوں کو زبردستی حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی رہائش گاہ فیڈرل لاجز سے بیدخل کیا گیا، چھینا جھپٹی ہوئی، دھکم پیل ہوئی اور کئی صحافی حکومتی رہائشی فلیٹ سے نکال باہر کر دیئے گئے۔ اس خبر کو کئی صحافی ساتھیوں نے مزے لے لے کر سنایا اور حکومتی اقدام کو خوب سراہا۔ کئی دوست فیس بک پر اپنے ہم پیشہ صحافیوں کی بیدخلی کی تصاویر لگا کر ان پر ہنسی ٹھٹھول کرتے رہے۔

صحافی بمقابلہ صحافی،ہوسکتا ہے یہ موازنہ ہمارے کئی سینئر صحافیوں کو برا لگے، مگر ذرا جاکر دیکھیں کسی پریس کلب میں، صحافیوں کا ایک گروپ دوسرے گروپ پر لوٹ کھسوٹ، سیاسی جانبداری، اسٹیبلشمنٹ کا پٹھو ہونے کے الزامات لگا رہا ہوتا ہے، چونکہ دونوں جانب صحافی ہی ہوتے ہیں اس لیے دعویٰ دونوں گروپس یہی کرتے ہیں کہ ان کے پاس مخالف گروپس کے خلاف تمام ثبوت موجود ہیں۔

تو جناب، اس سے پہلے کہ پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا دعویٰ کرنے والی تین سو تیرہ تنظیمیں سینسرشپ، دباؤ اور معاشی قتل  کے خلاف علم بغاوت بلند کریں یہ جان لیں کہ آدھے صحافی ادھ موئے ہوئے پڑے ہیں۔ جی ہاں وہی عامل صحافی جن کے پلے کوئی پلاٹ ہے نہ تنخواہ۔ کچھ صحافی جو کسی لابنگ کا حصہ نہیں وہ بھی کسی انقلاب کا حصہ بننے پر راضی نہیں۔ وہ نام کے صحافی جنہیں خاص لوگوں کا خاص آشیرباد حاصل ہے انہیں کیا لگی ہے کہ دھوپ دھول میں دھکے کھا کر سینسرشپ کا ماتم کریں سو ان صحافتی اشرافیہ سے بھی امید نہ رکھیں کہ وہ منہ پہ سیاہ ٹیپ لگا کر احتجاجی کیمپوں میں بیٹھیں گے۔

جو اپنے صحافتی پیشے سے مخلص ہیں ان کی اکثریت پریس کلبز کا رخ کرنے سے کتراتی ہے، یہ وہ صحافی ہیں جو سال کے سال صرف ووٹ دینے پریس کلب کا رخ کرتے ہیں۔ انہیں صحافی تنظیموں کی  بحث سے چنداں دلچسپی نہیں کہ کیسے ان صحافتی  تنظیموں کے کرتا دھرتا کبھی چینل مالکان سے ڈیل کر لیتے ہیں، کیوں صحافتی تنظیمیں سیاسی جماعتوں کی آلہ کار بن جاتی ہیں، سو جب اعتماد کا رشتہ ہی نہیں تو پھر تحریک نے کیا خاک جنم لینا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستانی میڈیا میں ایک واضح تقسیم ہے بلکہ یوں کہیے تقسیم در تقسیم ہے۔ پہلا دھڑا وہ ہے جو خود کو اصل صحافی سمجھتا ہے، یہ دھڑا اسٹیبلشمنٹ کا سخت مخالف ہے اور جمہوریت، جمہوری پارٹیوں کو تقویت دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ وہ اپنے علاوہ ہر صحافی کو اسٹیبلشمنٹ کا ترجمان سمجھتا ہے۔ اس دھڑے  کے ساتھ بڑی مشکل یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں خصوصا اپوزیشن جماعتوں کے سوشل میڈیا کارکن، تجزیہ کار جوکہ ہرگز پریکٹسنگ جرنلسٹ نہیں، اور جو اکثر خود کو لبرل اور سوشل ایکٹوسٹ کہتے ہیں وہ سب خود کو اس دھڑے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات سوشل میڈیا پر یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ سیاست و صحافت پر رائے دینے والے یہ عامل صحافی ہیں یا سیاسی پارٹی کے کارکن، یہ اینکر ہیں یا سوشل ایکٹوسٹ، واقعی کوئی دانشور ہیں یا  پیراٹروپر تجزیہ کار۔

یوں تو تحریک انصاف کی حکومت کو اللہ کے کرم سے ترجمانوں کی کوئی کمی نہیں مگر پھر بھی بہت سے خدائی خدمت گار بھی تبدیلی کی حکومت کی ترجمانی بخوبی کرتے ہیں۔ یہ ان صحافیوں کا دھڑا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی باتوں پر چوں نہیں کرتا، مگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ صحافیوں کے خلاف  ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر چوں چوں کرتا پایا جاتا ہے، اور بات جب حد سے گزر جائے تو بعض اوقات ایسے صحافی غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ وہ صحافی نہیں، صحافی تو ہیں مگر ذرا وکھرے ٹائپ دے، ان کے پاس اس وکھرے پن کی بہت ٹھوس وجوہات ہیں۔

صحافیوں کے ان دو انتہائی کناروں پر بنے دھڑوں کے بیچ میں پھنسا ایک دھڑا ایسے صحافیوں کا ہے جو نیوٹرل اور غیرجانبدار رہنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ اس دھڑے  کے صحافیوں کو کبھی پاکستانیت ستاتی ہے تو کبھی یہ آمریت کے لتے لینے لگتے ہیں۔ یہ صحافی اسٹیبلشمنٹ سے بگاڑنا نہیں چاہتے اور سچ کو زندہ گاڑنا بھی نہیں چاہتے۔ اس بیچ کے بچولے دھڑے میں وہ صحافی بھی ہیں جو طاقت اور سیاست والوں کے حوالے سے  رائے تو رکھتے ہیں مگر اظہار سے کتراتے ہیں، یا پھر اظہار کرتے بھی ہیں تو قریبی حلقہ یاراں میں۔ اس دھڑے کے صحافیوں کی کم بختی یہ ہے کہ ان کی خبریں تو بولتی ہیں مگر آپ انہیں خود اپنی رائے کا اظہار کرتے کم ہی دیکھیں گے۔ یہ نیویں نیویں رہنے والے صحافی خود ساختہ سینسرشپ کے باعث گھٹے گھٹے سے رہتے ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے اجمل جامی ایسے پروگرام اینکر ہیں جنہوں نے رپورٹنگ کی خاک بھی چھانی ہے۔ میں میڈیا کے دھڑوں کی اس کھینچاتانی کو سمجھنا چاہتی تھی سو جامی صاحب کو کال گھما دی۔ جامی صاحب کہنے لگے ’ایک ٹیبل کے بیچ میں رکھے صفحے پر ایک ہندسہ ہے جسے اک جانب سے میں چھ پڑھ رہا ہوں، مگر ٹیبل کی دوسری جانب بیٹھےصحافی کو وہ نو نظر آرہا ہے۔ ہو سکتا ہے کبھی ہم دونوں کی پوزیشن یا پھر ٹیبل کی پوزیشن بدل جائے اور وہی ہندسہ مجھے نو اور دوسرے صحافی کو چھ نظر آنے لگے۔ نکتہ نظر،رائے اور نظریات وقت کے ساتھ بدل سکتے ہیں، نکھر سکتے ہیں اس لیے جو صحافی ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے نور نظر رہے اگر وہ آج سینسرشپ کے خلاف  دبنگ بول رہے ہیں تو ان پر تنقید بےجا ہے۔‘ ہم کافی دیر سر دُھنتے رہے مگر جامی صاحب کے ایک جملے نے بحث سمیٹ دی  کہ ’جو حقیقتاً صحافی ہیں سوشل میڈیا پر زبان و بیان کی شائستگی ہی ان کی پہچان ہے، صحافی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، کھل کر سیاسی اختلاف کرتے ہیں یہاں تک کہ طنز بھی کرتے ہیں مگر اخلاق کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے۔‘

ایک ایسا وقت کہ جب ٹرولز صحافیوں کو گرفتار کرنے کا ٹرینڈ چلائیں، انہیں غدار وطن ڈکلئیر کیا جائے، جب ہر ایرا غیرا میڈیا کے انتہائی معتبر لوگوں کو ننگی گالیوں سے نوازے، میڈیا کو بیک وقت سینسر شپ، معاشی قتل، غیرمعمولی دباؤ اور سوشل میڈیا مہم کا سامنا ہو ایسے میں بس یہ دیکھ لیں کہ خود صحافی کہاں کھڑا ہے؟ کیا صحافی کے مقابلے میں صحافی نہیں لایا جا رہا؟ کہیں یہ وہی لڑائی تو نہیں جس میں ’لڑتے لڑتے ہوگئی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دُم۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر