افغان خاتون صحافی کو کیوں بچایا نہیں جاسکا؟

قتل سے چند روز قبل مینا منگل نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

مینا منگل افغانستان کی قومی پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں بطور مشیرِ ثقافت تعینات ہونے سے قبل طلوع ٹی وی سمیت کئی بڑے ملکی صحافتی اداروں میں کام کر چکی تھیں۔تصویر: سکرین گریب

خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی افغان صحافی اور سیاسی مشیر مینا منگل کو گذشتہ ہفتہ دن دیہاڑے دارالحکومت کابل کے ایک عوامی مقام پر پر اُس وقت گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا جب وہ اپنے دفتر کے لیے روانہ ہو رہی تھیں۔

قتل سے چند روز قبل مینا نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ان کو کیوں قتل کیا گیا اور اگر ان کی زندگی کو خطرہ لاحق تھا تو اس سلسلے میں ضروری حفاظتی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے گئے۔

افغان وزارت داخلہ کے مطابق قاتل واردات کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے اور ابھی تک کسی گروہ نے بھی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تو اس بارے میں کچھ کہنا ابھی مشکل ہے۔

دوسری جانب پولیس بھی ابھی تک یہ جاننے میں ناکام رہی ہے کہ اصل میں یہ قتل دہشت گردی کا ایک واقعہ تھا یا ذاتی دشمنی کا نتیجہ۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے اپنے غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکام کی نااہلی قرار دیا جو خطرے کے باوجود مینا کو بہتر تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل واضما فروغ نے اس حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔

فروغ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’مینا نے پہلے ہی اپنی زندگی کو لاحق خطرات سے آگاہ کر دیا تھا، پھر اس بارے میں کیوں کچھ نہیں کیا گیا؟ ہم اس کا جواب چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مینا منگل نے قتل سے چند روز قبل ہی فیس بک پر اس بارے میں بات کی تھی کہ کیسے انہیں مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا: ’اس معاشرے میں اختلاف رائے رکھنے پر خواتین کو قتل کر دینا اتنا آسان کیوں ہے؟‘

فروغ نے مزید کہا: ’وہ خوبصورت شخصیت کی مالک تھیں، ان کو کھو دینے پر میں اپنے آنسو روکنے سے قاصر ہوں۔ وہ ایک موثر آواز تھیں جو انہوں نے ہمیشہ اپنے لوگوں کے لیے بلند کی۔‘

دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ اس ہائی پروفائل قتل کی تحقیقات پولیس کی خصوصی ٹیم کرے گی۔

مینا منگل افغانستان کی قومی پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں بطور مشیرِ ثقافت تعینات ہونے سے قبل طلوع ٹی وی سمیت کئی بڑے ملکی صحافتی اداروں میں کام کر چکی تھیں۔

بطور صحافی انہوں نے ہمیشہ خواتین کے حقوق کے تحفط کی بات کی، وہ تعلیم اور ملازمت میں خواتین کی شمولیت کی بڑی حامی رہی تھیں۔

رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد 2018 صحافیوں کے لیے بدترین سال رہا ہے، جب 15 صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو افغانستان بھر میں ہلاک کر دیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی افغانستان کو خواتین کے حوالے سے بدترین ملک قرار دیا ہے جہاں انہیں سکول جانے یا ملازمت کرنے کی پاداش میں قتل کرنا عام سی بات ہے جبکہ ملک میں خواتین کی عصمت دری اور ان پر گھریلو تشدد، بچپن میں شادیاں اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات تشویش ناک حد تک زیادہ ہیں۔    

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین