پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹریک ٹو مذاکرات بحال

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں انڈیا پاکستان ٹریک ٹو مذاکرات کا پہلا دور چار سال کے طویل عرصے کے بعد آج سے شروع ہو رہا ہے۔

ڈائریکٹر رؤف حسن کے مطابق ٹریک ٹو مذاکرات کا دوسرا دور ستمبر میں دہلی میں ہو گا (اے ایف پی)

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں انڈیا پاکستان ٹریک ٹو مذاکرات کا پہلا دور چار سال کے طویل عرصے کے بعد آج سے شروع ہو رہا ہے۔

ریجنل پِیس انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام شروع ہونے والے یہ مذاکرات دو روز تک جاری رہیں گے جس میں بھارت اور پاکستان کے وفود شریک ہوں گے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ریجنل پِیس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رؤف حسن نے کہا کہ فروری کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کے بعد یہ مذاکرات اہم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 2015 کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے کیونکہ انڈیا اور پاکستان میں حکومتوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کا پہلا راستہ ٹریک ٹو سفارتکاری ہی ہوتا ہے۔

رؤف حسن نے کہا کہ ان مذاکرات کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے نوجوانوں کو امن کی جانب لانا ہے۔ ان مذاکرات میں شرکت کرنے والے بھارتی وفد کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ’ان مذاکرات میں دونوں ممالک کے تھنک ٹینک کے لوگ، اکیڈیمیا اور صحافی شامل ہیں۔‘

مذاکرات میں شرکت کے لیے بھارت سے آنے والا چھ رُکنی وفد بذریعہ واہگہ لاہور اور وہاں سے اسلام آباد پہنچا ہے۔ وفد میں دو صحافی، دو لیکچرر اور دو تھنک ٹینک کے سربراہان شامل ہیں۔

ڈائریکٹر رؤف حسن کے مطابق ٹریک ٹو مذاکرات کا دوسرا دور ستمبر میں دہلی میں ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹریک ٹو سفارت کاری کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟

یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے سابق ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ شاہ جمال سے رابطہ کیا جنھوں نے بتایا کہ ٹریک ون میں سفیر باہمی رابطے میں ہوتے ہیں لیکن جب دونوں حکومتوں کے درمیان ڈائریکٹ رابطے ختم ہو جاتے ہیں یا اُن میں لچک نہیں رہتی تو پھر ٹریک ٹو کام کرتا ہے۔ جس میں میڈیا، اکیڈیمیا، تھنک ٹینک، سابق سفیر یا سابق فوجی افسران ہوتے ہیں۔

شاہ جمال کا کہنا ہے کہ ’ٹریک ٹو بنیادی طور پر درپردہ سفارت کاری ہوتی ہے۔ ابھی گذشتہ ہفتے تھائی لینڈ میں بھی پاکستان، بھارت ٹریک ٹو مذاکرات ہوئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ  ٹریک ٹو سفارت کاری اکثر ایسی حکمت عملی بنا دیتی ہے جس پر حکومت عمل کر لیتی ہے۔ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کے سامنے سول سوسائٹی اور عوام کا نقطہ نظر آتا ہے کہ دونوں ممالک کی عوام کیا چاہتی ہے۔‘

کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشن کے سربراہ امجد یوسف سے جب ٹریک ٹو کے حوالے معلومات کے لیے رابطہ کیا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ ٹریک ٹو تو ہوتے رہتے ہیں کچھ ہم منعقد کرتے ہیں اور کچھ بین الاقوامی برادری پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کرتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ابھی دو ہفتے قبل تاشقند میں بھی یورپی یونین کے تعاون سے پاکستان بھارت ٹریک ٹو مذاکرات ہوئے ہیں جس میں پاکستان کی جانب سے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینینٹ جنرل ر احسان الحق اور شعیب سڈل سمیت دو رکنی اور بھارت کی جانب سے سابق سفیر ایس کے لامبا کی سربراہی میں تین رکنی وفد تھا۔‘

واضح رہے کہ بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے انڈپینڈنٹ اردو کے انٹرویو میں بھارت میں عام انتخابات کے بعد ٹریک ٹو مذاکرات چلنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان