مرد صحافیوں پر ’لفافے‘ کا الزام، خواتین پر جنسی ’حملے‘: غریدہ فاروقی

غریدہ فاروقی کا کہنا تھا: ’میں 2014 سے ٹرولنگ اور آن لائن ہراسانی کا شکار ہوں۔ مجھے سالوں سے تشدد کی دھمکیاں اور غداری کے لیبل سہنے پڑ رہے ہیں۔‘

غریدہ فاروقی نے مطالبہ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حرکت میں آنا چاہیے اور ملزمان کو سزا دینی چاہیے۔ صرف اس صورت میں ہی ٹرینڈز رک سکتے ہیں۔ (تصویر: غریدہ فاروقی انسٹاگرام)

’صحافیوں کو ان کے کام کے حوالے سے آئے روز کسی نہ کسی طرح کا لیبل سننے کو ملتا ہے۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ مرد صحافیوں کو زیادہ تر ’لفافہ‘ کہہ دیا جاتا ہے مگر جب بات خواتین صحافیوں کی آتی ہے تو کردار کشی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور نازیبا ٹرینڈز بھی بنائے جاتے ہیں۔‘

یہ کہنا تھا معروف خاتون صحافی اور نیوز پروگرام اینکر غریدہ فاروقی کا، جن کو حال ہی میں ایک بار پھر قابل اعتراض سوشل میڈیا ٹرینڈ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار یہ ٹرینڈ ان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کی گرفتاری سے متعلق ٹویٹس کے بعد دیکھنے میں آیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے غریدہ فاروقی نے بتایا کہ مرد صحافیوں پر عمومی طور پر ’لفافے‘ لینے کا الزام لگتا ہے جو خواتین صحافیوں پر بھی لگتا ہے مگر ان کو ساتھ میں جنسی ’حملے‘ بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ ’یہ صنفی تشدد کی ایک قسم ہے۔‘

’میں 2014 سے ایسی ٹرولنگ اور آن لائن ہراسانی کا شکار ہوں۔ مجھے سالوں سے تشدد کی دھمکیاں اور غداری کے لیبل سہنے پڑ رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کی سات سے آٹھ شکایات ابھی بھی وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور سائبر کرائم ونگ کے پاس جمع ہیں۔

’حالیہ ٹرینڈ کے خلاف بھی میں نے ایف آئی اے کو شکایت کی مگر میری کسی ایک شکایت پر کارروائی نہیں ہوئی۔

’میرے اعصاب بہت مضبوط ہیں اس لیے میں ان کا مقابلہ کرتی ہوں۔ میرے ساتھ خاندان اور دوستوں کی سپورٹ ہے۔ میں ہمیشہ کسی نہ کسی قانونی فورم سے رجوع کرتی ہوں۔ ہر عورت اتنی مضبوط نہیں ہوتی۔ وہ (خواتین) ڈر جاتی ہیں اور ان کے کام پر اثر پڑتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ خواتین پر جب ایسے ’حملے‘ ہوتے ہیں تو وہ خود ساختہ سینسرشپ طاری کر لیتی ہیں اور کام سے ہٹنا شروع کر دیتی ہیں جو ان ٹرینڈز اور سائبر حملوں کا مقصد ہوتا ہے۔

’اس لیے خواتین صحافیوں کے لیے اہم ہے کہ وہ ان جنسی حملوں سے نہ گھبرائیں۔ مقابلہ کریں اور اپنا کام جاری رکھیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کی ساری شکایات ایف آئی اے گئی ہیں۔ ’وہ ان کو سن تو لیتے ہیں مگر اس پر عمل انتہائی سست ہوتا ہے کیونکہ ہمارا انصاف کا نظام کمزور ہے۔

’خواتین جب شکایات لے کر جاتی ہیں تو ان کو مختلف حیلوں بہانوں سے مزید تنگ کیا جاتا ہے جو مظلوم پر ایک اضافی ظلم ہے۔‘

غریدہ فاروقی نے مطالبہ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حرکت میں آنا چاہیے اور ملزمان کو سزا دینی چاہیے صرف اس صورت میں ہی یہ ٹرینڈز رک سکتے ہیں۔

’جس کو جلد انصاف چاہیے، پولیس سے رابطہ کرے‘

جب ان سوالات اور ٹرینڈز سے متعلق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سے پوچھا گیا تو ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ محمد جعفر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز باہر کے ممالک میں موجود ہیں اور وہ پاکستانی حکام کو جلد جواب نہیں دیتے۔

ان کے مطابق یہ ادارے زیادہ تر، دہشت گردی، چائلڈ پورنوگرافی یا جانی نقصان کے خطرے کی صورت حال میں جواب دیتے ہیں۔

’اصل مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان سائبر کرائم سے متعلق بین الاقوامی قانونی معاہدوں کا دستخط کنندہ نہیں ہے، جس کے باعث تعاون میں مسائل درپیش ہوتے ہیں۔‘

محمد جعفر کے بقول پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) کا سیکشن 20 ایسے معاملات کے لیے اہم ہے۔ جس میں بعد میں ترمیم بھی کی گئی تھی مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سال اس پر عمل درآمد اور اس کے تحت گرفتاریوں پر پابندی لگا دی تھی۔

یہ وہ ترمیمی آرڈیننس ہے جس کے مطابق ’شخص‘ کی تعریف تبدیل کرتے ہوئے قرار دیا گیا تھا کہ ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے اور کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی صورت میں قید تین سے بڑھا کر پانچ سال تک کردی گئی تھی۔

سائبر کرائم کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ عدالت کے فیصلے کے بعد سے ہتک عزت کے قوانین ایف آئی اے کے تحت نہیں بلکہ پولیس کے تحت آتے ہیں۔ ’جبکہ پولیس پیکا کے تحت ایکشن نہیں لے سکتی۔ اس کی مجاز ایف آئی اے ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ٹرینڈز کے پیچھے زیادہ تر جعلی اکاؤنٹس اور ان کی تشخیص کے لیے کیا کیا جاتا ہے تو انہوں نے بتایا: ’ایف آئی اے اور پولیس کا طریقہ کار الگ ہوتا ہے۔ پولیس جلد ایکشن لیتی ہے ہمیں مینڈیٹ کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔ 15 دن کے لگ بھگ تو صرف تصدیق میں لگتے ہیں۔

’اگر کسی کو جلد انصاف چاہیے تو وہ پولیس کی مدد اور پاکستان پینل کوڈ کا سہارا لے سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ سائبر کرائم کیسز کا مقدمہ بعض اوقات مہینوں بعد درج ہوتا ہے اور پھر کیس کی تیاری کا عمل شروع ہوتا ہے مگر آگے جا کر ایکشن لیتے ہوئے پیکا کا سیکشن 20 پر عدالت کا فیصلہ آڑے آ جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد جعفر کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم کے محکمے کو تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت وہ لاکھوں شکایات سے نمٹ رہا ہے اور عملے کی کمی کا شکار ہے۔

’ہم اپنے کام میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہیں، مگر ہم ایک نیا محکمہ ہیں اور ہمارا کام ’کرائم آف دا فیوچر‘ سے نمٹنا ہے جو آسان کام نہیں ہے۔‘

’جب تک ٹرینڈ ہٹتا ہے عزت کو دھچکا لگ چکا ہوتا ہے‘

دوسری طرف غریدہ فاروقی کے خلاف ٹرینڈ کو ٹوئٹر سے ہٹوانے کے لیے سرگرم ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی بانی نگہت داد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ: ’ایسے ٹرینڈز کو ختم کرنے کے لیے ہم ٹوئٹر کا ایسکلیشن چینل استعمال کرتے ہیں۔ یہ تب عمل میں آتا ہے جب پلیٹ فارم کا اپنا ایلگوردم، جو اس کے اپنے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتا ہے، کو جانچ نہیں پاتا۔‘

انہوں نے مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ٹرینڈز کو ہٹوانے میں کم از کم 24 گھنٹے یا زائد کا وقت لگتا ہے۔

’اتنی دیر میں اگر کسی کی عزت کو دھچکا یا نقصان ہوچکا ہوتا ہے، پاکستان میں تو یہ آن لائن سے آف لائن ہراسانی میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔‘

ان کے مطابق کمپنیاں بہت جلد ایکشن نہیں لے پاتیں مگر سائبر ہراسانی کے خلاف ہیلپ لائن اور ایسکلیشن چینل سے فائدہ پھر بھی ہوجاتا ہے۔

’آپ ان ٹرینڈز کو ہٹوا تو دیتے ہیں مگر یہ مسائل کا حل نہیں اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حرکت میں آنا چاہیے اور کارروائی کرنی چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ایسے قوانین کا پھر کیا فائدہ اگر وہ کام نہ آسکیں یا خواتین کو تحفظ فراہم ہی نہ کرسکیں؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین