لائل پور کی تاریخی عمارتوں کو فلمبند کرنے والے فوٹوگرافر

فیصل آباد کے فوٹوگرافر میاں بشیر احمد اعجاز کے پاس بہت سی ایسی تاریخی عمارتوں کی بھی نایاب تصاویر موجود ہیں جو ماضی کا حصہ بن چکی ہیں اور ان کا ذکر صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔

میاں اعجاز نے بتایا کہ وہ شہر کی تصویری تاریخ پر مشتمل دو کتابوں پر کام کر رہے ہیں جو جلد ہی مارکیٹ میں آ جائیں گی۔ (سکرین گریب)

برطانوی راج کے دوران 19ویں صدی کے آغاز میں بسایا گیا لائل پور شہر، جو اب فیصل آباد ہے، ایک صدی سے زیادہ پرانا نہیں ہے لیکن تاریخی حوالے سے اس مختصر عرصے میں ہی اس کی بہت سے تاریخی عمارتیں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔

گھنٹہ گھر کے آٹھ بازاروں اور شہر کے دیگر قدیم علاقوں میں جو پرانی عمارتیں واقع ہیں، وہ بھی دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب رفتہ رفتہ وقت کی دھول میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ارباب اختیار کی جانب سے اس تاریخی ورثے کے ساتھ برتی جانے والی یہ بے توجہی کئی عشروں سے جاری ہے۔

انہی  حالات کو دیکھتے ہوئے سینیئر فوٹو جرنلسٹ میاں بشیر احمد اعجاز نے تقریباً نصف صدی قبل تاریخی عمارتوں کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ آنے والی نسلیں اس شہر کی تاریخ  کے سنگ میل بالکل ہی فراموش نہ کر دیں۔

ان کے پاس بہت سی ایسی تاریخی عمارتوں کی بھی نایاب تصاویر موجود ہیں جو اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں اور ان کا ذکر صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔

میاں بشیر احمد اعجاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 1970 کی دہائی میں انہوں نے کیریئر کا آغاز بطور سپورٹس فوٹو گرافر کیا تھا اور انہیں 1978 میں اقبال سٹیڈیم میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جانے والے پہلے کرکٹ میچ کی تصویریں بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

’اصل میں یہ سفر شروع ہوا جب ڈاکٹر ریاض مجید سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج نے مجھے کہا کہ تم فوٹوگرافی کرتے ہو تو فیصل آباد کی چار پانچ مشہور عمارتوں کی تصاویر بنا لو تاکہ یہ محفوظ ہو جائیں۔‘

میاں بشیر کہتے ہیں کہ ’جیسے جیسے وہ تاریخی عمارتوں کی تصاویر بناتے گئے، ان کے جنون میں اضافہ ہوتا گیا۔

’میں نے پانچ یا چھ تصویروں سے شروع کیا اور پانچ ہزار تصاویر تک جا پہنچا۔ شہر کے باہر بھی ادھر ادھر جو عمارتیں نظر آئیں، محلے نظر آئے، جہاں جہاں بھی میں پہنچ سکتا تھا، وہاں میں پہنچا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ان کی بڑی خواہش تھی کہ انہیں کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں وہ ان تصاویر کو پبلک کے لیے لگا سکیں اور پھر 1995 میں انہیں میونسپل لائبریری کی بالائی منزل پر ایک ہال فراہم کر دیا گیا جو اب لائل پور پکچر گیلری کہلاتا ہے۔

’اس میں جتنی تصویریں لگی ہیں، یہ میری اپنی ہیں اور اس کی جتنی فریمنگ وغیرہ ہے، اس پر سارا پیسہ میرا لگا ہوا ہے۔ یہ میں نے جو فوٹوگرافی میں کمایا، دوبارہ لوٹا دیا لوگوں کے لیے کہ یہ دیکھیں، اپنا شہر تو یہ آپ کے سامنے محفوظ ہے۔‘

میاں بشیر احمد اعجاز نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک گروپ بنایا ہوا ہے جو شہر کی پرانی عمارتوں سے ملنے والی نودارات جمع کرتا ہے۔ 

’شہر میں کوئی پرانی عمارت گر جائے تو ہم اس کی کوئی نہ کوئی اینٹ لے آتے ہیں۔ اس کا مصالحہ لے آتے ہیں۔ یہ عمارتیں گرتی جا رہی ہیں۔۔۔یہاں آپ کو گھنٹہ گھر کے پتھر بھی نظر آئیں گے جو ہم نے رکھے ہوئے ہیں۔ اینٹیں ہیں ضلع کونسل کی، بے شمار عمارتوں کی چیزیں یہاں محفوظ ہیں۔‘

میاں بشیر کے مطابق: ’فیصل آباد بنیادی طور پر ایک لاوارث  شہر ہے جس کا تاریخی ورثہ برباد ہونے پر کسی کو کوئی پریشانی نہیں۔

’یہ منٹگمری بازار میں ایک آریا سماج لائبریری تھی بڑی اعلیٰ۔ کمال قسم کا لکڑ ی کا ایسااعلیٰ کام کہ آپ حیران ہو جائیں دیکھ کر۔ میرے سامنے 25 سے 30 سال میں آہستہ آہستہ اس کا سارا لکڑی کا کام نیچے گر کر تباہ ہو گیا۔ کسی نے سنبھالا نہیں۔ ایسی کئی عمارتیں ہیں۔ کچہری بازار میں 1921 میں سینٹرل کوآپریٹو بینک بنا۔ وہ اب بھی موجود ہے۔ اس کی حالت دیکھ لیں۔ اس طرح بے شمار تاریخی عمارتیں لوگوں نے کمرشل بنا لی ہیں۔ اب تجاوزات کا انبار ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔‘

لائل پور پکچر گیلری کا ایک کمرہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ قوال اور موسیقار نصرت فتح علی خان کی تصاویرسے مزیّن ہے۔

میاں اعجاز نے بتایا کہ جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے نصرت فتح علی خان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آرٹس کونسل کے ہال کا نام نصرت فتح علی خان آڈیٹوریم رکھ دیا تھا۔

اس حوالے سے انہوں نے بڑی کوشش کی کہ وہاں نصرت فتح علی خان کی تصاویر پر مشتمل ایک گیلری بنائی جائے تاکہ بیرون ملک سے جو غیر ملکی آئیں، انہیں پتہ چلے کہ نصرت فتح علی کیا شخصیت تھے، لیکن ان کی یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔

’اب میں نے وہ تصویریں یہیں لگا دی ہیں۔ میرے پاس نصرت فتح علی خان کی بہت تصاویر ہیں لیکن یہاں جتنی میرے پاس جگہ نظر آتی ہے، اتنی ہی میں نے لگائی ہیں۔‘

میاں بشیر احمد اعجاز نے بتایا کہ وہ شہر کی تصویری تاریخ پر مشتمل دو کتابوں پر کام کر رہے ہیں۔ وہ جلد ہی مارکیٹ میں آ جائیں گی جس کے بعد وہ، لائل پور پکچر گیلری کی توسیع پر توجہ دیں گے تاکہ جو باقی تصاویر ان کے پاس محفوظ ہیں، انہیں بھی لوگوں کے دیکھنے کے لیے پیش کیا جا سکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ