سیلاب سے اموات: ’پانی سے نکال کر پانی میں ہی دفنا دیا‘

بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے ایک گاؤں میر خان کے رہائشی ارباب خان نے ایک ہی رات میں اپنے خاندان کے پانچ افراد کو کھو دیے۔

ارباب اپنے والدین اور بچی کے ساتھ چادروں سے بنائے گئے ایک ٹینٹ میں مقیم ہیں (فوٹو: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے بیشتر علاقوں میں جہاں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے، وہیں بلوچستان کے 34 اضلاع میں سے 31 یا تو مکمل یا پھر جزوی طور پر ڈوب چکے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق ضلع جعفر آباد کا 92 فیصد علاقہ اس وقت پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔

جعفرآباد کے ایک شہر ڈیرہ اللہ یار پہنچنے پر انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم کو معلوم ہوا کہ وہاں سے تقریباً دو گھنٹے کی مصافت پر واقع گاؤں میں سیلاب کے باعث ایک ہی خاندان کے پانچ افراد چل بسے۔

میر خان گاؤں ضلع جعفر آباد کے شہر ڈیرہ اللہ یار سے تقریباً 80 کلومیٹر دور واقع ہے۔

وہاں پہنچے تو 28 سالہ ارباب خان سے ملاقات ہوئی، جو اپنے خاندان کے پانچ افراد کو کھو چکے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تقریباً دو ماہ سے بارشیں جاری تھیں جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ جب سیلاب کا پانی ان کے گاؤں میں داخل ہوا تو وہ اس وقت کچے گھر میں رہائش پذیر تھے۔ کچا گھر گر جانے کے ڈر سے وہ اپنے خاندان کو لے کر اپنے دوسرے گھر میں لے آئے جو پکا تھا۔

انہوں نے بتایا: ’رات دو بجے کے قریب ایک زوردار آواز آئی، جس کے ساتھ میرے گھر کی چھت گر گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب سب سو رہے تھے۔ چھت گرتے ہی میں گھر والوں کو بچانے کے لیے بہت مشکل سے نکل کر اٹھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ پہلے کس کو بچاؤں۔‘

ارباب نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا کہ اس واقعے میں ان کی چھ ماہ کی بچی، اڑھائی سالہ جڑواں بچیاں، 17 سالہ بھائی اور 28 سالہ بیوی چل بسیں۔

 ’جس وقت یہ سب ہوا تب میرے ساتھ میری بیٹی سوئی ہوئی تھی۔ میں اکیلا پریشان حالت میں ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔کسی کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔ میری والدہ بچ گئیں۔ میں مرنے والوں کو تقریبا اڑھائی گھنٹے تک ملبے سے نکال نہیں سکا۔‘

ارباب واقعے کی روداد سناتے ہوئے بار بار چھت کو دیکھ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ’اللہ کا شکر ہے گاؤں میں کسی اور کا جانی نقصان نہیں ہوا لیکن میرا ہوا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’ہمیں میتوں کو نکالنے میں تقریباً اڑھائی گھنٹے لگے۔ قریب ہی میرے کزن کا پکا گھر تھا، وہ گھر سیلاب سے نہیں گرا لیکن اس میں پانی موجود تھا۔ میتیں نکال کر ہم نے ان کے گھر چارپائی پر رکھ دیں۔ جہاں ہمارا قبرستان ہے وہاں بھی پانی تھا۔ پانی سے نکال کر ہم نے پانی میں دفنا دیا۔‘

ارباب اپنے والدین اور بچی کے ساتھ چادروں سے بنائے گئے ایک ٹینٹ میں مقیم ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’ہمارے پاس دفنانے کی بھی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ گھر تو گر گیا اور گھر والے بھی مر گئے لیکن اب ہم جس حال میں رہ رہے ہیں وہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔‘

اس گفتگو کے دوران ارباب کی بیٹی مسلسل روتی رہیں۔ ارباب کی والدہ نے بتایا کہ بچی اس لیے رو رہی ہے کیونکہ اس کی والدہ چل بسی ہیں اور اس کو پلانے کے لیے دودھ بھی نہیں ہے۔ ’ہمارے پاس بکریاں ہیں لیکن سیلاب کے بعد چارہ نہ کھانے کی وجہ سے بکریاں بھی دودھ دینا چھوڑ گئی ہیں۔ چونکہ بچی کی دودھ کے علاوہ کچھ اور پینے کی عمر نہیں ہے، اسے مجبوراً گندا پانی اور تھوڑی روٹی کھلانی پڑتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ 15 دن گزر گئے، اتنا بڑا حادثہ ہو گیا لیکن ان کی امداد کرنے کوئی نہیں آیا۔

’پورے کا پورا گھر تباہ ہو گیا بس یہ بچی بچ گئی، کوئی چیز بھی نہیں بچی۔ اتنی بڑی قیامت گزر گئی لیکن مدد کرنے کو کوئی نہ پہنچا۔ میرا سب کچھ چلا گیا، میرا گھر تباہ ہو گیا، ہم نے ملبہ ہٹا کر چارپائیاں نکالیں۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے بس میرے بچے بچ جاتے۔ ایسی آفت آئی کہ ملبے سے باہر کوئی زندہ نہ نکل سکا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی