25 اگست سے قبل امین اللہ کا خاندان کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں ہنسی خوشی اپنے ایک خوبصورت اور مضبوط گھر میں زندگی بسر کررہا تھا لیکن پھر بارش ہوئی اور اتنی بارش ہوئی کہ ایک سیلابی ریلے نے امین اللہ سے ان کی پوری زندگی کی کمائی چند منٹوں میں چھین لی۔
امین اللہ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ضلع پشین کی تحصیل خانوزئی سے کوئٹہ منتقل ہوئے تھے۔ انہوں نے گھر بنانے کے لیے کوئٹہ کے نواحی علاقے نواں کلی کا انتخاب کیا تھا۔
امین اللہ نے تباہی کے اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ بارش ہو رہی تھی لیکن شام کے بعد بارش نے لوگوں کو خوف کا شکار کردیا۔
انہوں نے بتایا: ’ہم بھی اپنے گھر کے قریب سے گزرنے والے پانی کے نالے کو دیکھ رہے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پانی اس طرف بھی آسکتا ہے۔‘
امین اللہ نے بتایا کہ ’جب رات کے نو بجے تو پانی کی شدت میں اضافہ ہوا اور پھر اس نے راستہ تبدیل کرکے ہمارے گھروں کا رخ کر لیا۔ پھر بھی ہم 11 بجے تک یہیں پر رہے، تاہم اس کے بعد پانی نے ہمارے اوسان خطا کردیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا: ’پھر ہم نے بچوں اور خواتین کو نکالا اور سب کچھ پیچھے چھوڑ کر محفوظ مقام کی طرف نکل پڑے۔ ہمارا سب پانی کے رحم و کرم پر تھا۔
’اس وقت بارش کا سلسلہ جاری تھا۔ ہم نے کس مشکل سے یہ سفر طے کیا۔ میں نے اپنی 60 سالہ زندگی میں اتنا مشکل لمحہ اور قیامت خیز منظر نہیں دیکھا۔‘
امین اللہ کہتے ہیں کہ وہ بس دو سے تین منٹ کا وقت تھا کہ پانی نے گھر کو لپیٹ میں لے لیا اور پھر میری پوری زندگی کی کمائی اب اس ملبے تلے دب گئی۔
انہوں نے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا: ’اس میں ہم نے سب سامان بڑے شوق سے بنایا تھا۔ پردے اور الماریاں جو یہاں سے بھی نظر آتی ہیں۔ یہ سب ختم ہوگیا۔‘
اب علاقے میں ہر طرف پتھر پڑے تھے، جنہیں ایک بھاری مشین کے ذریعے ہموار کرکے راستہ بنانے کی کوشش کی جارہی تھی۔
امین اللہ نے بتایا کہ ’اس علاقے میں اکثر میرے جیسے لوگ رہتے ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پانی کا راستہ ایسا بدل سکتا ہے۔ اگر یہ پانی کا راستہ ہوتا تو کون یہاں (زمینوں کی) خریداری کرتا۔‘