پاکستان میں مون سون بارشیں اور سیلاب: جون سے اب تک 357 اموات

این ڈی ایم اے نے محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تیز مون سون ہوائیں اب بھی ملک میں داخل ہو رہی ہیں اور ملک میں 31 جولائی تک بارشیں متوقع ہیں۔

کراچی میں 25 جولائی 2022 کو ایک شہری بارش کے کھڑے پانی میں سے گزر رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب کے باعث اب تک ملک بھر میں مجموعی طور پر 357 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ بلوچستان میں 106 اور سندھ میں 90 اموات ہوئیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی ویب سائٹ پر دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 14 جون سے اب تک ملک میں مون سون بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلابوں کے نتیجے میں 357 افراد ہلاک اور 408 زخمی ہوئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ 977 کلومیٹر سڑکوں اور 54 پلوں کو بھی نقصان پہنچا اور چھ ہزار 42 گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔

ادارے نے محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تیز مون سون ہوائیں اب بھی ملک میں داخل ہو رہی ہیں اور سندھ اور بلوچستان سمیت ملک کے بالائی علاقوں میں 31 جولائی تک بارشیں متوقع ہیں۔

این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ میں چشمہ، گڈو اور سکھر کے مقام پر، دریائے کابل میں نوشہرہ اور دریائے چناب میں خانکی کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔

اس کے علاوہ بلوچستان کے دریاؤں اور نالوں اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں نچلے سے درمیانی درجے کے سیلابی ریلے متوقع ہیں جبکہ اگلے 48 گھنٹوں میں دریائے چناب میں مرالا، خانکی اور قادرآباد اور دریائے جہلم کے مقام منگلا پر درمیانے سے اونچے درجے کا سیلاب متوقع ہے۔

بلوچستان میں سیلابی صورت حال

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بارشوں اور سیلابی ریلوں کی آمد کا سلسلہ جمعرات کو بھی جاری ہے۔

نوشکی، چاغی، کوئٹہ کے علاقے چشمہ اچوزئی اور خاران واشک میں موسلا دھار بارشوں کے بعد سیلابی ریلوں نے زرعی زمینوں اور حفاظتی پشتوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ گھروں کو بھی نقصان پہنچایا۔ 

صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمںٹ اتھارٹی کے آپریشن سینٹر کے انچارج محمد یونس نے بتایا کہ دو دن کے دوران نوشکی میں ایک بچہ اور خانوزئی میں خاتون سمیت پانچ افراد سیلابی ریلے میں بہہ جانے سے ہلاک ہوئے ہیں۔

حکومت کی جانب سے امدادی کاموں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ضلع جھل مگسی میں حکومت بلوچستان کے ہیلی کاپٹر ایم ون 17 کے ذریعے گاجن میں 16 سو کلوگرام راشن، ادویات اور پینے کا پانی پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ ایک شدید بیمار مریض کو بھی کوئٹہ منتقل کیا گیا۔

حکومت کے مطابق دیگر علاقوں میں بھی فضائی امدادی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔  

سندھ میں سیلابی صورت حال اور وزیراعظم کو بریفنگ

حکومت سندھ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ جمعرات کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم شہبار شریف کو ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں بتایا کہ سندھ میں مون سون میں معمول سے 369 فیصد زیادہ بارش ہوئی ہے، جس میں 40 سے زیادہ بچے بھی ہلاک اور ہزاروں مکانات مکمل طورپر مسمار ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کو بتایا کہ دیہی علاقوں کو شہر سے ملانے والی 388 کلومیٹر سڑکیں مکمل طور پر تباہ ہوئی ہیں۔

سید مراد علی شاہ نے کہا کہ اس سنگین صورت حال میں انسانی جانوں، انفراسٹرکچر، فصلوں اور مکانات کے نقصانات کے ازالے کے لیے سندھ کو وفاقی حکومت کی مدد کی ضرورت ہے اور زرعی بینک کو ہدایت دی جائے کہ سندھ کے کاشت کاروں کو دیے گئے قرضوں کی ریکوری موخر کی جائے۔

سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے صوبے میں جولائی میں شدید بارشیں ہوئیں، جس کا پہلا سلسلہ دو سے 11 جولائی، دوسرا سلسلہ 14 سے 18 جولائی اور موجودہ سلسلہ 23 جولائی  سے شروع ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج تک ریکارڈ کی گئی بارش سندھ میں معمول کے مقابلے میں تقریباً 369 فیصد زیادہ تھی اور تینوں سپیلز کے دوران کراچی میں 556 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ شہر بھر میں مختلف مقامات پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی 35 سیوریج لائنیں متاثر ہوئی ہیں اور ڈسٹرکٹ ویسٹ اور ملیر میں تین پل بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی کی بڑی سڑکیں جیسے ای بی ایم کاز وے، کراسنگ کاز وے اور دیگر بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کراچی، حیدرآباد، بدین، سکھر، ٹھٹھہ، سجاول اور دادو جیسے شہری مراکز میں مختلف بڑی سڑکوں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔

 وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو بتایا کہ 89 ہزار 213 ایکڑ کھڑی فصلیں زیر آب یا بہہ گئی ہے۔

مراد علی  شاہ نے کہا کہ اب تک بارش سے متاثرہ خاندانوں کو 6280 خیمے، 17 ہزار 675 مچھر دانیاں، OBM  جیسی 20 کشتیاں، 3280 جیری کین اور دیگر امدادی اشیا بشمول فولڈنگ بیڈ، تکیے، بیڈ شیٹس، لائف جیکٹس فراہم کی جا چکی ہیں۔

متوقع مسائل پر بات کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ بلوچستان میں مزید ایک ہفتے تک بارشوں کا امکان ہے جس سے حب ڈیم اور کراچی کے ملحقہ علاقوں کی موجودہ صورت حال مزید خراب ہو جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کھیرتھر رینج میں زیادہ بارشوں کے نتیجے میں قمبر شہداد کوٹ، دادو اور جامشورو اضلاع میں پانی کی آمد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

گڈو میں سیلابی صورت حال کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ گڈو کے مقام پر دریائے سندھ اس وقت 283.4 ہزار کیوسک کی سطح پر بہہ رہا ہے، جو کہ نچلی سطح پر تھا، تاہم اگلے 24 گھنٹوں میں یہ سطح 290 سے بڑھ کر 340 ہزار کیوسک تک پہنچنے کی توقع ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پانی کا بہاؤ 400 ہزار کیوسک سے زیادہ ہونے کی صورت میں کچے کے علاقوں میں رہنے والی آبادی کے انخلا کی ضرورت ہوگی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے ایک طویل مدتی حل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بلوچستان سے ملحقہ سیلاب سے بچاؤ کے بند کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کی تجویز دی تاکہ مستقبل میں سندھ میں سیلاب کے خطرے کو کم سے کم کیا جا سکے۔

انہوں نے وزیراعظم سے لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین کی مضبوطی اور صلاحیت میں اضافے کی حمایت کرنے کی بھی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ دائیں کنارے کے آؤٹ فال ڈرین کی جلد تکمیل اور کراچی میں برساتی پانی کی نکاسی کے حوالے سے بھی تعاون کرنے کی وزیراعظم سے درخواست کی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ان تمام کاموں کو انجام دینے کے لیے خطیر رقم درکار ہے، اس لیے بحریہ ٹاؤن سے حاصل ہونے والے فنڈز کو نالے کی تعمیر اور دیگر اہم تعمیراتی کاموں کے لیے حکومت سندھ کو فراہم کیا جائے۔

بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ سندھ کو یقین دلایا کہ وہ بحریہ ٹاؤن سے  حاصل ہونے والی رقم سے  ان کی مدد کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان