بلوچستان کی پہلی خاتون ڈپٹی کمشنر کون ہیں؟

عائشہ زہری کی خدمات کا اعتراف وزیراعظم شہباز شریف نے بھی کیا جب وہ بولان کی شاہراہ کو کھولنے کے لیے کام کا معائنہ کرنے پہنچی تھیں۔

عائشہ زہری کو چند ماہ قبل ہی گریڈ 17 سے 18 میں ترقی ملی۔ (تصویر:عائشہ زہری ٹوئٹر اکاؤںٹ)

25 اور 26 اگست کے دوران کوئٹہ سمیت بولان، مستونگ اور ملحقہ علاقوں میں طوفانی بارش کے بعد سیلابی ریلے بی بی نانی اور پنجرہ پل کو بہا کر لے گئے جس سے سینکٹروں لوگ پانی کے دونوں اطراف پھنس گئے تھے۔ اس دوران مچھ میں تعینات خاتون اسسٹنٹ کمشنر عائشہ زہری خبروں کی زینت بنیں جنہوں نے نہ صرف پھنسے لوگوں تک رسائی حاصل کی بلکہ ان تک خوراک بھی پہنچائی۔

عائشہ زہری کی خدمات کا اعتراف وزیراعظم شہباز شریف نے بھی کیا جب وہ بولان کی شاہراہ کو کھولنے کے لیے کام کا معائنہ کرنے پہنچی تھیں۔ وزیر اعظم نے اس دوران نہ صرف ان کی تعریف کی اور عائشہ کے سر پر ہاتھ رکھا، خود تالیاں بجائیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کی۔

وزیراعظم نے اس کا اظہارایک ٹویٹ کے ذریعے بھی کیا اور لکھا کہ بلوچستان کے دورے کے دوران میری گذشتہ روز اسسٹنٹ کمشنر مچھ عائشہ زہری اور این ایچ اے کے حکام، مزدوروں سے ملاقات ہوئی۔ جو سیلابی ریلا گزرنے کے بعد محنت اور لگن سے شاہراہوں، پبلک ورکس اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے کام کررہے ہیں۔ آپ سب قوم کے ہیروز ہیں۔ مجھ سمیت پوری قوم کو آپ پر فخر ہے۔

بہترین کارکردگی پر حکومت بلوچستان نے عائشہ زہری کو ترقی دے کر اسسٹنٹ کمشنر سے ڈپٹی کمشنر نصیرآباد تعینات کردیا ہے۔ جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن چھ ستمبر کو جاری کیا گیا۔ جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بھی ایک  ٹویٹ کیا۔

وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو لکھتے ہیں کہ ’خواتین معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔ خواتین کو بااختیار بنانا اور ان کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرنا ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ صوبے میں پہلی خاتون افسر کی بہ حیثیت ڈپٹی کمشنر تعیناتی صوبے کی خواتین کی صلاحیتوں پر اعتماد کا اظہار ہے۔ عائشہ زہری کی مزید کامیابیوں کے لیے دعاگو ہوں۔‘

عائشہ زہری کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے ہے۔ اس سے قبل زہری قبیلے سے تعلق رکھنے والے نواب ثنااللہ زہری وزیراعلیٰ بلوچستان بھی رہ چکے ہیں۔

عائشہ زہری نے یونیورسٹی سے انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ وہ گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے واپڈا میں  ملازمت اختیار کی کیوں کہ وہ الیکٹریکل انجینیئر ہیں۔

انہوں نے 2017 میں صوبائی سول سروس کا امتحان پاس کیا اور کمشنر قلات کے سٹاف افسر کے طورپر کام کرنے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز ہوئیں۔

2010 میں ضلع چاغی میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سےکام کرنے کے دوران منشیات پکڑنے کے لیے بھی متحرک اقدامات کرتی رہیں۔

اس دوران عائشہ زہری نے ایک منشیات کی کھیپ پکڑی جس کے باعث وہ ایک تنازع کا شکار بنیں اور ان کو محکمہ جاتی انکوائری کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ وہ ڈیڑھ سال تک آفیسر آن سپیشل اسئانٹمنٹ (او ایس ڈی) رہیں۔ جس کے بعد وہ اسسٹنٹ کمشنر مستونگ، سول سیکرٹریٹ میں سیکشن افسر تعینات ہوئیں۔

عائشہ زہری کو چند ماہ قبل ہی گریڈ 17 سے 18 میں ترقی ملی۔ اس سے قبل وہ ڈپٹی سیکریٹری انڈسٹری اور کامرس تھیں۔ بعد میں اسسٹنٹ کمشنر مچھ تعینات رہیں۔

عائشہ زہری کے ہمراہ کام کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر آفس مچھ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 25 اگست کو ہونے والی بارش سے سیلاب سے تمام راستے بند ہوگئے تھے۔ سیلابی ریلوں نے لوگوں کو محصور کردیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ جب ہمیں صورت حال کی سنیگنی کا علم ہوا تو اسسٹنٹ کمشنر مچھ عائشہ زہری نے فوری اقدامات اٹھانے اور لوگوں تک پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت وہاں جانا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ جب ہم وہاں گئے تو دیکھا کہ بولان شاہراہ اور ندی میں پانی کے باعث سینکڑوں لوگ پھنس چکے ہیں۔ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ شام کے چھ بجے کے وقت جب وہاں پہنچے تو ہر طرف گاڑیوں کی قطاریں لگی تھیں۔ پانی نے ان کے آگے اور پیچھے مڑنے کا راستہ بند تھا۔

افسر کہتے ہیں کہ صورت حال کس حد تک خراب تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بولان میں دو پہاڑوں کے درمیان قائم گزرگاہ جسے پنجرہ پل کہا جاتا ہے اس کو پانی کا ریلہ بہا کر لے گیا۔

عائشہ زہری نے ہمیں ساتھ لے کر مسافروں کو فوری طور پر جوس، کھانا، پانی اور بسکٹ وغیرہ دیے کیوں کہ پانی اور راستے میں پھنسنے سے ان کی حالت خراب ہوگئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 افسر کا کہنا تھا: ’بارش کا سلسلہ 24 گھنٹے سے زائد چلنے کے بعد 26 اگست کو تھم گیا۔ جس پر ہم شام چھ بجے سے لے کر 27 اگست کی صبح تین بجے تک چار لیویز اہلکاروں کے ہمراہ پانی سے نکالنے کا کام کرتے رہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مسافروں میں خواتین اور بچوں کے علاوہ ضعیف العمر بندے بھی شامل تھے۔ جن کو ہم نے نجی گاڑیوں میں بی بی نانی سے  مچھ کے علاقے گیشتری پہنچایا۔ وہاں سے لیویز اور ایف سی کی گاڑیوں کے ذریعے کوئٹہ کی طرف روانہ کیا گیا۔

افسر نے بتایا کہ اس دوران تمام مسافروں کو طبی امداد دینے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ جبکہ دوسری جانب  مچھ پل بھی جزوی طور پر سیلاب میں بہہ چکا تھا۔ اسے بھی اسسٹنٹ کمشنر عائشہ زہری نے اپنی نگرانی میں آٹھ سے 10 گھنٹوں میں  بحال کرکے ٹریفک کو بحال کردیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ بولان کے علاوہ مچھ شہرمیں بھی بارشوں سے چھتیں گرنے کے واقعات ہوئے اور کئی لوگوں کی موت بھی ہوئی۔ جبکہ اس دوران بےگھر ہونے والوں کے لیے ریلیف کیمپ قائم کیا گیا۔

افسر کہتے ہیں کہ ریلیف کیمپ میں بچوں کو خوراک کے علاوہ دودھ کی ضرورت بھی تھی۔ جس کے لیے عائشہ زہری نے خصوصی طور پر دودھ کی فراہمی کا انتظام کیا۔

اسٹنٹ کمشنر آفس کے افسر کے بقول: ’عائشہ زہری کا رویہ ماتحت عملے کے ساتھ انتہائی نرم رہتا تھا۔ وہ انتہائی غریب پرورآفیسر ہیں۔ وہ کسی کو دکھ میں دیکھ کر آرام سے نہیں بیٹھتی تھیں۔ سیلاب متاثرین کی روانہ کی بنیاد پر دورے کرنا اور لوگوں سے ان کے مسائل سننا ان کا معمول تھا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود عائشہ زہری اپنی مصروفیات کی بنیاد پر انٹرویو کے لیے دستیاب نہیں ہو سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین