جعلی سیلاب متاثرین کے خلاف خود میدان میں ہوں: خاتون ڈپٹی کمشنر

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ثانیہ صافی بتاتی ہیں کہ وہ خود ریلیف کے کاموں کی نگرانی کر رہی ہیں تاکہ حقیقی متاثرین کا حق نہ مارا جائے۔

’بطور خاتون آفیسر فیلڈ میں کام کرنا ایک چیلنج تھا اور سب سے بڑی مشکل سیلاب آنے سے پہلے لوگوں کو گھروں سے نکالنا تھا کیونکہ علاقہ مکین بات نہیں مان رہے تھے لیکن لوگوں نے بہت عزت دی اور اب بھی دے رہے ہیں۔‘

 یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (جنرل) ثانیہ صافی کا جو سیلاب آنے سے اب تک میدان میں ہیں۔

وہ سیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں کو گھروں سے نکالنے میں دیگر مرد افسران کے شانہ بشانہ ریلیف کاموں کی خود نگرانی کر رہی ہیں۔

 ثانیہ چارسدہ کے علاقوں منظوری اور خیالی میں لوگوں کو راشن تقسیم کر رہی ہیں۔ یہاں ایک ٹرک کھڑا ہے اور ثانیہ متاثرین کو راشن لینے کی تلقین کر رہی ہیں۔

ثانیہ نے اپنی مصروفیت سے وقت نکالتے ہوئے بتایا، ’گذشتہ دو تین دنوں سے میں خود میدان میں ریلیف کاموں کی نگرانی کر رہی ہوں تاکہ حقیقی متاثرین کا حق کوئی اور نہ مار سکے۔

’ہم گھر گھر جاتے ہیں اور حقیقی متاثر کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ایک مہینے کا راشن دیا جا رہا ہے۔‘

 ثانیہ نے بتایا کہ مون سون بارشوں اور سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں سب سے پہلا مرحلہ لوگوں کی جانیں بچانا اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنا تھا۔ ثانیہ نے بتایا کہ انہوں نے تقریباً 2300 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔

’سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ ہم لوگوں کو گھروں سے نکلنے کا کہہ رہے تھے، تاہم وہ نہیں نکل رہے تھے۔ ہم منتیں کر رہے ہیں لیکن جب پانی زیادہ ہوگیا، تو لوگوں کو کشتیوں میں محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ایک مشکل کام تھا کیونکہ گھروں کے اندر پانی داخل ہوگیا تھا۔‘

 ثانیہ کے مطابق اب گھروں سے پانی اتر چکا ہے اور بحالی کا کام گذشتہ تین دنوں سے جاری ہے۔ متاثرین کے لیے قائم کردہ ریلیف کیمپس کو ختم کر کے ان کو واپس گھروں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔

’اب بحالی کا چیلنج ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ہر متاثرہ گھر تک پہنچ سکیں۔‘

 ثانیہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا جعلی متاثرین بھی ہیں جو راشن کے لیے قطار میں کھڑے ہوجاتے ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ موجود ہے کہ اگر کسی گھر میں پانچ مرد ہیں تو پانچوں راشن لینے آ جاتے ہیں جس سے دیگر متاثرین کو راشن ملنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ثانیہ نے بتایا، ’اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم خود فیلڈ میں ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی دوسرے متاثرہ شخص کا حق نہ مارا جائے۔

’پشاور موٹروے پر کچھ متاثرین تھے، جس میں 95 فیصد لوگ بھکاری تھے جو سیلاب آنے کے بعد راشن لینے کے لیے موٹروے منتقل ہو گئے تھے۔‘

 سیلاب کے دوران ضلع نوشہرہ سمیت دیگر اضلاع میں خواتین آفیسر بھی فیلڈ میں کام رہی ہیں۔

ثانیہ سے جب پوچھا گیا کہ بطور خاتون آفیسر فیلڈ میں کام کرنا چیلنج تھا، تو انہوں نے بتایا کہ تھوڑی بہت مشکلات ضرور ہوتی ہیں تاہم انتظامیہ کا کام ہی ایسا ہے کہ وہ چھوٹی موٹی مشکلات کا سامنا کرتی ہے۔

’باقی فیلڈ میں لوگوں نے بہت عزت دی کیونکہ پشتون معاشرہ ہے یہاں پر خواتین کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ ہم نے بھی کوشش کی کہ لوگوں کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر