خیبر پختونخوا: قانون ہونے کے باوجود دریاؤں پر تعمیرات کیوں ہوئیں؟

ماہرین سمجھتے ہیں کہ کسی بھی دریا کے کنارے غیر قانونی تعمیر سے دریا کے آس پاس آبادی خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے اور دریا میں بہاؤ میں اضافے کی وجہ سے سیلابی ریلوں سے آبادیوں سمیت فصل اور زمین کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے سوات میں کئی سڑکیں اور ہوٹل بھی بہہ گئے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں رواں سال مون سون بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے دیگر صوبوں سمیت خیبر پختونخوا کے نو اضلاع میں تعمیرات کی وجہ سے گھروں کو نقصان پہنچا ہے اور حکومت کے مطابق سب سے زیادہ نقصان دریا کنارے آبادیوں کو ہوا ہے۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں اب تک بارشوں اور سیلاب سے 258 افراد سیلاب کی نذر ہوئے ہیں جبکہ ضلع سوات میں دریا کے کنارے 61 ہوٹل متاثر ہوئے ہیں جس میں سوات کے علاقے کالام میں مشہور ’ہنی مون‘ ہوٹل بھی شامل ہے جو دریا برد ہوا ہے۔

یہی ہنی مون ہوٹل 2010 کے سیلاب میں بھی تباہ ہوا تھا لیکن اس کے بعد اس ہوٹل کو دوبارہ تعمیر کیا گیا اور اس بار یہ ہوٹل درجنوں کمروں پر مشتمل تھا جس کا ایک حصہ مکمل طور پر پانی میں بہہ گیا ہے۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق خیبر پختونخوا میں 14 ہزار سے زائد گھروں کو جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچا ہے۔

ماحولیات کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ سیلاب کی تباہ کاری حکومت کی طرف سے پہلے سے موجود دریاؤں کے آس پاس آبادکاری پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔

خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف نے 2014 میں ’خیبر پختونخوا ریور پروٹیکشن ایکٹ‘ کے نام سے ایک قانون اسمبلی سے پاس کیا تھا جس کے تحت دریا کنارے دو سو فٹ تک کسی قسم کی تعمیر پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

اس ایکٹ میں لکھا گیا ہے کہ کسی بھی دریا کے کنارے کمرشل، نان کمرشل یا کوئی بھی فزیکل ورک پر دریا کے آس پاس دونوں جانب دو سو فٹ تک تعمیرات پر پابندی ہو گی اور فاصلہ اس سطح سے ناپا جائے گا جب دریا میں پانی بلند ترین سطح پر ہو۔

اس قانون کے مطابق ’اس ایکٹ کے تحت دو سو فٹ تک آبادی پر پابندی ہو گی اور حکومت کو اختیار ہے کہ وہ اس فاصلے کو مزید بڑھائے، جبکہ دریا میں کسی قسم کی چیز جس سے پانی متاثر ہو سکے، کے اخراج پر پابندی ہو گی۔‘

اسی مقصد کے لیے اس ایکٹ کے مطابق حکومت دریا کی دونوں جانب لینڈ زون منصوبہ بنائیں گے اور اسی منصوبے پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔

’دریا کی دونوں جانب دو سو فٹ کے بعد 1500 فٹ تک کا علاقہ حکومت کے کنٹرول میں ہو گا اور اس علاقے میں کسی قسم کی آبادی حکومت کی جانب سے مرتب کردہ لینڈ زون منصوبے کے تحت ہو گی۔‘

تاہم ماہرین کے خیال میں اس قانون میں خامیاں ہیں کیونکہ قانون میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ جس سرکاری افسر نے غیرقانونی آبادی کی اجازت دی، تو ان کے خلاف کیا کارروائی ہو گی۔

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل طارق افغان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قانون میں یہ ذکر تو موجود ہے کہ دریا کے کنارے غیر قانونی تعمیرات کرنے والے شخص یا مالک کے خلاف کیا کارروائی ہو گی تاہم یہ ذکر موجود نہیں کہ این او سی جاری کرنے والے افسر کے خلاف کیا کارروائی ہو گی۔

طارق افغان نے بتایا کہ ’دوسرا اس قانون میں غیر قانونی تعمیرات کرنے والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا چھ ماہ قید ہے۔ اب چھ ماہ میں سے مجرم دو سے تین مہینے جیل میں گزاریں اور پھر رہا ہو جائیں گے، تو بعد میں غیر قانونی آباد کاری کے حوالے سے قانون میں کچھ بھی موجود نہیں ہے کہ آیا اس تعمیرات کو گرایا جائے گا یا کیا کیا جائے گا۔‘

دریا کے کنارے غیر قانونی آبادکاری کے خلاف گذشتہ کچھ مہینوں سے خیبر پختونخوا حکومت نے کچھ اقدامات بھی اٹھائے تھے اور بعض مقامات پر تجاوزات کے خلاف آپریشن بھی کیا تھا تاہم بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت دریاؤں کی پروٹیکشن کے قانون پر عمل درآمد میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئی ہے۔

اس خدشے کا اظہار وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے گذشتہ دنوں سوات میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے دوران بھی کیا تھا۔ 

محمود خان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ’ہم نے تجاوزات کے خلاف کارروائیاں شروع کی تھیں تاہم لوگوں کی جانب سے تعاون نہیں کیا جا رہا ہے لیکن ہم کوشش کرتے ہیں کہ تجاوزات کا خاتمہ کیا جا سکے۔‘

اسی حوالے سے سابق وزیر بلدیات اور موجودہ وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں جس وقت وزیر بلدیات تھا تو ہم نے دریائے سوات کے کنارے سے تجاوزات کو ہٹانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی۔‘

’ہم نے اس منصوبہ بندی کے بعد دریائے سوات سے کافی حد تک تجاوزات ہٹائیں بھی تھیں اور گذشتہ چند ماہ میں مختلف تجاوزات کے خلاف ضلعی انتظامیہ نے آپریشن کیا تھا اور اسی وجہ سے حالیہ سیلاب کی وجہ سے نقصانات کم ہوئے ہے۔‘

کامران بنگش نے بتایا کہ 2010 میں سیلابی پانی کا اخراج ایک لاکھ 75 کیوسک تھا اور حالیہ سیلاب میں سیلابی ریلہ دو لاکھ تک پہنچ گیا تھا تاہم 2010 کے مقابلے میں نقصانات کم اسی وجہ سے ہوئے کہ ’ہم نے تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا تھا اور ساتھ میں ہماری حکومت نے دریا کے کنارے حفاظتی پشتے تعمیر کیے تھے۔‘

ان کے دعوے کے برعکس محکمہ ایریگیشن کی رپورٹ کے مطابق 2010 میں سیلابی ریلہ تین لاکھ کیوسک سے تجاوز کر گیا تھا اور یہ دریائے سوات کی تاریخ میں سب سے زیادہ پانی کا بہاوٴ تھا۔

وزارت توانائی و بجلی کی 2010 میں آنے والے سیلاب سے متعلق رپورٹ کے مطابق دریائے کابل اور دریائے سوات میں پانی کا بہاؤ تاریخ میں سب سے زیادہ بلند سطح پر پہنچ گیا تھا۔

اسی رپورٹ کے مطابق اس سے پہلے سب سے بلند سطح دریائے کابل اور دریائے سوات میں 1929 میں دو لاکھ 50 ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی۔

کامران بنگش سے جب پوچھا گیا کہ صوبائی حکومت کا قانون پاس ہونے کے بعد بھی دریائے سوات کے کنارے آبادی کاریاں ہوئی ہیں تو اس کی این او سی کس نے جاری کیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے کامران بنگش کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے اس مسئلے کو دیکھا جا رہا ہے اور جس نے بھی تعمیرات کی ہیں ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی کیونکہ دریا کنارے غیر قانونی آبادکاری کی وجہ سے باقی آبادی کو نقصان پہنچا ہے۔

’دریائے سوات اور دیگر اضلاع میں سب سے زیادہ نقصان کچی آبادیوں کا ہوا ہے کیونکہ ان لوگوں نے دریا کنارے کچی آبادیاں بنائیں لیکن ہم اس مسئلے کو دیکھ رہے ہیں تاکہ تجاوزات کو دریا کنارے سے ختم کیا جائے۔‘

وفاقی وزارت توانائی و بجلی نے 2010 سیلاب کے بعد یہ تجویز دی تھی کہ سیلابوں سے نقصانات میں کمی لانے کے لیے دریاؤں کے کنارے سے غیر قانونی آباد کاری کا خاتمہ ضروری ہے۔

کمشنر مالاکنڈ کی جانب سے رواں سال جون میں اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی اور کمیٹی کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ دریائے سوات کے آس پاس احاطے می غیر قانونی تعمیرات کی نشاندہی کر کے اس کے خلاف آپریشن کرے۔

جون ہی میں پشاور ہائی کورٹ کے گرین بینچ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران دریائے سوات سمیت صوبے کے تمام دریاؤں کے آس پاس غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن کا حکم بھی دیا تھا اور اس سلسلے میں اس وقت کے چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا تھا کہ اس حوالے سے کام جاری ہے اور جلد غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

دریائے سوات کالام وادی سے شروع ہوتا ہے اور وہاں کے دو بڑے ٹریوبیوٹریز اوشو اور گبرال دریائے سوات کے ساتھ مل جاتے ہیں جبکہ دریائے سوات ہندو کش پہاڑوں سے نکلتا ہے اور پورا سال گلیشیئرز کا پانی اس میں داخل ہوتا ہے۔

ماہرین سمجھتے ہیں کہ کسی بھی دریا کے کنارے غیر قانونی تعمیر سے دریا کے آس پاس آبادی خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے اور دریا میں بہاؤ میں اضافے کی وجہ سے سیلابی ریلوں سے آبادیوں سمیت فصل اور زمین کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات کے سابق چیئرمین اور صوبے میں ماحولیاتی آلودگی  پر کام کرنے والے ڈاکٹر شفیق الرحمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دریا کی اپنی ایک فطرت ہے اور وہ اپنا راستہ کسی طرح بھی بنا لیتا ہے۔ دریا کی فطرت میں ہے کہ اس کا راستہ روکا نہ جائے۔‘

تاہم ڈاکٹر شفیق کے مطابق ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ جس جگہ پر بہہ رہا ہے، تو بس یہی راستہ اس کا مستقل راستہ ہوگا بلکہ یہ راستہ تبدیل کرتا رہتا ہے۔

’دریا میں پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے دریا آس پاس کی زمین تک پہنچ جاتا ہے کیونکہ دریا کی فطرت ہے کہ یہ اپنے لیے آسان راستہ بناتا ہے تاکہ بہتا رہے۔‘

ڈاکٹر شفیق نے دریا کنارے غیر قانونی تعمیرات کے بارے میں کہا کہ اب جب دریا کا راستہ غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے روک دیا جائے گا تو ظاہری بات ہے پانی کی سطح بلند ہونے پر دریا اپنے لیے راستہ تلاش کرے گا، جس کے نتیجے میں نقصان ہوتا ہے۔

’دریا میں بعض اوقات پتھر وغیرہ بھی بہہ جاتے ہیں، جس سے زیادہ تر دریا اپنے راستے کے آس پاس علاقے تک پہنچ جاتا ہے جس سے غیر قانونی تعمیرات کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ مسئلہ دریائے سوات اور صوبے کے دیگر دریاؤں کے آس پاس موجود ہے جس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ غیر قانونی تعمیرات کا خاتمہ کیا جا سکے۔‘

ڈاکٹر شفیق نے یہ بھی بتایا کہ غیر قانونی تعمیرات سے نکلنے والا سارا فضلہ دریاؤں میں گر جاتا ہے جس سے پانی گندہ اور پینے کے قابل نہیں رہتا کیونکہ ان تعمیرات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں ہے۔

’دریائے سوات کا پانی صوبے میں بہت صاف سمجھا جاتا تھا تاہم گذشتہ دس بیس سالوں میں غیر قانونی تعمیرات نے اس کو بہت گندہ کر دیا ہے اور اب یہ پینے کے قابل بھی نہیں رہا۔ حکومت کو چاہیے کہ ریور پروٹیکشن ایکٹ پر عمل درآمد یقینی بنائے اور صوبہ بھر کے دریاؤں کے کنارے غیر قانونی تعمیرات کو ختم کرے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان