یہ کیسی آزادی ہے؟

اس نہ رکنے والے زوال کے سفر کی وجہ ہماری اشرافیہ ہے، جسے بظاہر اپنی مراعات اور طاقت کے علاوہ کسی چیز سے دلچسپی نہیں ہے۔

دو اگست 2022 کی اس تصویر میں لوگ امرتسر کے تقسیم ہند سے متعلق عجائب گھر میں ایک فن پارے کو دیکھ رہے ہیں(اے ایف پی/نریندر نانو)

یہ تحریر آپ یہاں مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں۔


پاکستان اور انڈیا نے پچھلے ماہ آزادی کی 75 ویں سالگرہ منائی۔ ان پچھتر سالوں میں دونوں ملکوں کی ترقی کا سفر کچھ زیادہ قابل رشک نہیں رہا۔

دونوں ممالک میں کروڑوں لوگ اب بھی غربت کی لکیر کے نیچے بےکسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 75 سالوں کی آزادی کے بعد بھی کروڑوں لوگ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ان مہیب انسانی مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے دونوں ممالک سالانہ کھربوں روپے اپنی دفاعی صلاحیتیں بڑھانے میں صرف کر رہے ہیں۔

انڈیا کروڑوں لوگوں کو سڑکوں پر رات بسر کرنے سے نجات دینے کی بجائے اپنے لڑاکا طیاروں کے لیے سمندروں میں آرام دہ رہائش مہیا کرنے کے لیے جدید بحری بیڑہ بنا رہا ہے۔ پاکستان کی سمت بھی ان 75 سالوں میں کچھ اسی طرح ہے جہاں عام عوام کو بہتر سہولیات مہیا کرنے اور غربت کے خاتمے کی بجائے ہم ٹینک، لڑاکا طیارے، نئی چھاؤنیاں اور نیا جی ایچ کیو بنانے پر خطیر رقوم خرچ کر رہے ہیں۔

دونوں ممالک کا اپنے قیمتی وسائل کا ضیاع کرنے کے باوجود انڈیا تقریبا اکثر اہم شعبوں میں پاکستان سے آگے دکھائی دیتا ہے۔ چاہے یہ تعلیم کا شعبہ ہو یا معیشت کا، دفاع کا یا خارجہ تعلقات، پچھلے 75 سالوں میں انڈیا نے یقینا ہم سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

اگر ہم 2020 کے فی کس آمدنی کے اعداد پر نظر ڈالیں تو انڈیا ہم سے چھ گنا زیادہ آبادی کے باوجود کئی درجہ آگے 1928 ڈالر پر کھڑا تھا جب کہ ہماری فی کس آمدن صرف 1189 ڈالر تھی۔ اگر ہم پیداوار کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو صورت حال مزید مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔

پچھلے 28 سالوں میں ہماری جی ڈی پی (داخلی پیداوار) صرف دو سالوں 2004 اور 2005 میں چھ فیصد کے قریب پہنچی جبکہ انڈیا کی پیداوار 18 سالوں میں 6 فیصد سے زیادہ کی شرح سے بڑھی۔ اسی طرح اگر پچھلے مالی سال پر نظر ڈالی جائے تو آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کی ترقی کی رفتار 8.6 فیصد جبکہ ہماری 4.3 فیصد کے قریب رہی۔

اگر تجارت کے شعبے پر نظر ڈالی جائے تو 1993 میں یہ ہماری جی ڈی پی کا ریکارڈ 38 فیصد تھا جو کہ اب گر کا 28 فیصد کے قریب ہے۔ اگر انڈیا پر نظر ڈالیں تو 2020 میں یہ ریکارڈ 56 فیصد کے قریب تھا اور اس وقت ابھی بھی ہم سے بہت زیادہ 38 فیصد کے قریب ہے۔

انڈیا کی جی ڈی پی اس وقت ہم سے 10 گنا زیادہ بڑھی ہے۔ انڈیا اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے جبکہ پاکستان 48 ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ انڈیا کے ایک صوبے مہاراشٹرا کی جی ڈی پی بھی ہم سے زیادہ ہے اور تمل ناڈو کی جی ڈی پی ہمارے بہت قریب پہنچ چکی ہے۔

یہ صورت حال آزادی کے فوراً بعد ایسے نہیں تھی۔ فی کس آمدن کے حساب سے ہم آزادی کے بعد تقریبا ساتھ ساتھ تھے۔ 1960 سے لے کر 2006 تک انڈیا صرف پانچ سال ہم سے فی کس آمدنی میں آگے تھا لیکن 2009 کے بعد سے یہ فرق مسلسل انڈیا کے حق میں بڑھتا جا رہا ہے۔

دفاع کے شعبے میں ہمارے اخراجات جی ڈی پی کے لحاظ سے انڈیا  سے آگے رہے ہیں اور ابھی بھی ہم اس شعبے میں مقابلے میں جی ڈی پی کی اوسط کو دیکھتے ہوئے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ ہماری تاریخ میں سب سے زیادہ جی ڈی پی کی شرح کے حساب سے دفاع پر 1993 میں سات فیصد کے قریب خرچ ہوا اور اس وقت بھی بھی ہم دفاع پر چار فیصد کے قریب خرچ کر رہے ہیں۔

ہمارے مقابلے میں انڈیا نے تاریخ کا سب سے زیادہ دفاع پر خرچ 4.2 فیصد کیا جو کہ اس وقت تقریبا 2.9 فیصد کے قریب ہے۔

ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت آٹھ ارب ڈالر سے بھی کم ہیں اور اس کے موجودہ اعداد و شمار میں بیرونی ممالک اور مالی اداروں کی دی ہوئی امداد شامل ہے۔ اس امداد کو اگر منہا کیا جائے تو شاید ہمارے پاس چار یا پانچ ارب ڈالر ہی بچیں گے جو ہمارے ایک ماہ کے تجارتی اخراجات کے لیے بھی ناکافی ہوں گے۔

اس کے مقابلے میں انڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر 572 ارب ڈالر پر کھڑے ہیں۔ دونوں ممالک کی معاشی طاقت میں اتنا شدید فرق ہے کہ ہم اس وقت عالمی مالیاتی اداروں سے زرمبادلہ کی بھیک مانگ رہے ہیں جب کہ انڈیا اس وقت اربوں ڈالر دوست ممالک بشمول سری لنکا کو امداد کے طور پر دے رہا ہے۔

اسی طرح اگر خارجہ پالیسی کے میدان میں دیکھیں تو انڈیا بین الاقوامی تکریم کے معاملے میں ہمیں کئی درجے پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ ہمارے قریبی مسلمان دوست ممالک اپنی معاشی ترقی کے لیے انڈیا کو ہم سے بہتر ساتھی سمجھتے ہوئے وہاں بہت بڑی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ صورت حال اس قدر بگڑ گئی ہے کہ اب ہمارے دیرینہ مسلمان دوست ممالک ہمیں کشمیر کے بارے میں بھی حمایت کے اظہار سے ہچکچا رہے ہیں۔

اگر دونوں ممالک کی سیاسی صورت حال پر نظر ڈالیں تو انڈیا اس وقت سیاسی طور پر ایک قدرے مستحکم جمہوری ملک سمجھا جاتا اور بین الاقوامی سطح پر اس کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے سے بہت قدر و منزلت ہے۔

ہم پچھتر سالوں بعد بھی یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہم ایک جمہوری ملک کے طور پر رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ہم مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ہمیں نہ معاشی اور نہ ہی سماجی استحکام میسر ہو سکا ہے۔ ہم اس وقت بھی ایک شدید سیاسی تقسیم کا شکار ہیں اور ہماری قومی قوت مسلسل زوال پذیر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس نہ رکنے والے زوال کے سفر کی وجہ ہماری اشرافیہ ہے، جسے اپنی مراعات اور طاقت کے علاوہ کسی چیز سے دلچسپی نہیں ہے۔ ہر اہم سیاسی، دفاعی اور قانونی ادارہ قانون و آئین اور عوامی فلاح و بہبود کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی طاقت کو ہر صورت برقرار رکھنے میں مصروف ہے۔

ہم ایک غریب ملک ہیں جو ہر ممکن ذریعے سے امداد مانگ رہا ہوتا ہے لیکن ہمارے اعلی سرکاری عہدے داروں کا رہن سہن دیکھیں تو ہم ایک انتہائی امیر ملک دکھائی دیتے ہیں۔ آپ جنریلوں اور ججوں کے سفر کے دوران ان کے حفاظتی قافلے پر نظر ڈالیں تو درجنوں گاڑیاں اور حفاظتی عملہ ان کے ساتھ چل رہا ہوتا ہے۔ ان کی قیمتی پرتعیش گاڑیوں کو دیکھیں تو ہم کسی طرح سے غریب ملک نہیں دکھائی دیتے۔

اور تو اور سابق وزیراعظم کے جو سائیکل پر چلنے کی باتیں کرتے تھے حفاظتی پروٹوکول کو دیکھیں تو وہ کسی بادشاہ سے کم نہیں دکھائی دیتے۔ ہم غریب اور قرضوں میں جکڑے ہوئے ملک ہونے کے باوجود نئے دفاعی سٹرکچرز کی تعمیر میں اربوں روپے ضائع کرنے میں تامل محسوس نہیں کرتے۔

 ملک کی بہبود سے سے لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ آدھا ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے لیکن تقسیم پر مبنی سیاسی چالیں عروج پر ہیں۔ اس صورت حال کے جاری رہنے سے ہماری جمہوریت اور معاشرہ مزید کمزور ہوں گے اور تنزلی کا یہ سفر تیزی سے جاری رہے گا۔

اگر ہم نے اس زوال کو روکنا ہے تو غیر پیداواری اخراجات اور اعلی حکام کی عیاشیوں میں شدید کمی لانی ہوگی ورنہ ہم ایک خونی سماجی تبدیلی کو نہیں روک پائیں گے۔

نوٹ: یہ مضمون مصنف کی آرا پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ