پاکستان کے 75 سال: اسلام کے نام پر الحاق کرنے والی ریاست قلات

خان آف قلات میر احمد یار خان کے تیسرے بیٹے پرنس یحییٰ احمد زئی کے مطابق ریاست قلات کو پانچ اگست 1947 کو ہی آزاد کر دیا گیا تھا، تاہم اگلے 11 ماہ قلات آزاد حیثیت میں رہا۔

پرنس یحییٰ احمد زئی کے مطابق الحاق سے قبل قلات کی سٹریٹجی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں الگ تھی کیونکہ یہ ایک آزاد ریاست تھی (تصاویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے 75 سال پورے ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو نے تقسیم ہند کے وقت آزاد ریاستوں پر دستاویزی فلم کی سیریز کا آغاز کیا ہے۔ پانچویں کہانی میں جانیے کہ بلوچستان کی ریاست قلات نے پاکستان کے ساتھ کب اور کیسے الحاق کیا۔


1947 میں پاکستان کے آزاد ہونے کے بعد کئی ایسی ریاستیں تھیں، جنہوں نے پاکستان سے الحاق کیا، ان ہی میں سے ایک بلوچستان کی ریاست قلات بھی ہے۔

خان آف قلات میر احمد یار خان کے تیسرے فرزند پرنس یحییٰ احمد زئی کے مطابق ریاست قلات کو پانچ اگست 1947 کو ہی آزاد کر دیا گیا تھا یعنی پاکستان کی آزادی سے دس روز قبل، تاہم اگلے 11 ماہ قلات آزاد حیثیت میں رہا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں پرنس یحییٰ احمد زئی نے 75 سال پہلے کے حالات اور موجودہ صورت حال کے حوالے سے گفتگو کی۔

پرنس یحییٰ احمد زئی نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی اور پھر مزید تعلیم کے لیے لندن چلے گئے، جہاں سے انہوں نے بزنس ایڈمنسٹریشن اور کامرس کی تعلیم حاصل کی۔

انہوں نے سیاست میں بھی حصہ لیا۔ وہ رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں جبکہ جنرل ضیا الحق کے دور میں اپوزیشن میں بھی رہے ہیں۔

انہوں نے ’بلوچ رابطہ اتفاق تحریک‘ کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی، جس کا مقصد ان کے پرنس یحیٰ احمد زئی کے بقول ’لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔‘

پاکستان کے ساتھ الحاق کے وقت صورت حال کیسی تھی؟

اس سوال کے جواب میں پرنس یحییٰ احمد زئی نے بتایا کہ ’جب انگریز برصغیر سے جا رہے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ 14 اگست کو پاکستان اور 15 اگست کو ہندوستان چھوڑ دیں گے اور یونین جیک نیچے آئے گا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ریاست قلات کو پانچ اگست کو آزادی ملی جو پاکستان سے دس دن پہلے تھی۔ قلات اس کے بعد 11 ماہ تک آزاد حیثیت میں رہا اور اس دوران اس کی اپنی کرنسی، اپنا ماحول اور فوج تھی۔

’میرے والد خان احمد یار خان 1940 سے قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ تھے۔ انہوں نے قائداعظم کو یہاں بلوچستان لا کر متعارف کروایا۔ انہیں بتایا کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ نہں ہوگا تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ہم ایک ملک بنائیں گے، جو اسلامی ہو گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ قلات کی سٹریٹجی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں الگ تھی کیونکہ یہ ایک آزاد ریاست تھی۔

بقول پرنس یحییٰ: ’انگریز نے کہا کہ ہمیں اپنی بندرگاہ، پسنی اور کوئٹہ کی چھاؤنی دی جائے اور آپ اردن کی طرف ایک آزاد ملک رہیں گے۔ والد نے ان کو کہا کہ ہمیں اردن نہیں چاہیے۔ ہم ایک ملک بنا رہے ہیں۔ اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں۔‘

ان کے مطابق اس وقت قلات کے پاس دو ایوان تھے، ایوان عام اور ایوان خاص۔ ریاست میں جمہوری نظام چلتا تھا۔ اس ایوان میں میرغوث بخش بزنجو جیسے ممبر بھی تھے، جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بہت مخالفت کی۔

پرنس یحییٰ کے مطابق: ’انگریزوں نے بہت سی ریاستوں سے معاہدے کیے تھے، مگر قلات کے ساتھ اس نے بالکل مختلف معاہدہ کیا تھا۔ جس کا تعلق براہ راست وائٹ ہال کے ساتھ تھا۔ ان کی بات براہ راست لندن سے ہوتی تھی۔

’میرے والد کی انگریزوں کی نظر میں اچھی حیثیت تھی لیکن جب انہوں نے پاکستان کی بات کی تو میرے والد ان کی بلیک لسٹ میں چلے گئے۔ انہوں نے ایک اچھی نیت کے ساتھ اپنے ایوانوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔‘

قائداعظم کو کرنسی بنانے کے لیے سونا کتنا دیا گیا تھا؟

پرنس یحییٰ احمد زئی بتاتے ہیں کہ جب ہم نے قائداعظم محمد علی جناح کا وزن کیا تو ان کا وزن 110 پاؤنڈ تھا، جو اچھا ہوا۔ اگر وہ 200 پاؤنڈ کے ہوتے تو ہمارا سب سامان  لے جاتے۔ قائداعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو جواہرات دیے گئے۔ اس وقت ان کی قیمت ایک لاکھ روپے تھی جو آج کے کروڑوں روپے بنتے ہیں۔ ان کو تول کر دیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے پاس اس وقت کرنسی نہیں تھی، پھر آغا خان سے کہا کہ وہ مدد کریں تاکہ پاکستان کی کرنسی بن سکے۔

’کرنسی بنانے کے لیے آپ کو سونا رکھنا پڑتا ہے۔ پہلے یہاں پر ہندوستان کی کرنسی چلتی تھی جس کے کونے پر پاکستان لکھا ہوتا تھا۔ خان آف قلات نے پاکستان کو سفارتی اور معاشی حوالے سے مضبوط بنایا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان نہیں بنا تو ہم بلوچستان کو پاکستان کا نام دیں گے۔‘

پرنس یحییٰ کے مطابق اس کے بعد ان کو وہ عزت افزائی نہیں ملی کیوں کہ لوگ بدلتے گئے۔ 50 کی دہائی میں چار سال کے دوران نو وزرائے اعظم بدلے گئے۔ اس کے بعد 1958 میں مارشل لگا۔ ہر ایک کے ساتھ ہمارا رابطہ رہا ہے، لیکن آج کل یہ رابطہ کمزور ہے۔ ہمارے بڑے خان سلیمان داؤد اس وقت باہر بیٹھے ہیں۔ ان کی اپنی سوچ ہے۔

’بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ لوگ الحاق نہیں چاہتے تھے، لیکن پھر قائداعظم ڈھاڈر میں آئے اور انہوں نے سرداروں سے بات کی۔ والد چاہتے تھے کہ پاکستان سے الحاق ہو جائے، لیکن لوگ اس کے حق میں نہیں تھے۔ ایسے ہی ہمارے سردار عطا اللہ مینگل نے کہا تھا کہ خان آف قلات کے ماتھے پر پستول رکھ کر الحق کے کاغذ پر دستخط لیے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’پاکستان نے ہمارے ساتھ معاہدہ کیا کہ آپ کو یہ سب مراعات ملیں گے۔ جو 20 سے 25 صفحات پر مشتمل ایک بڑا معاہدہ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ شمولیت پر آپ کو یہ ملے گا۔ آپ کی بندرگاہیں آپ کے ساتھ ہوں گیں۔ آپ بادشاہ رہیں گے اور وہ سب آپ کے ساتھ رہیں گے جو انگریزوں کے وقت میں تھا، لیکن ایک سال بعد ان سب سے انکار کر دیا گیا۔ سب معاہدوں کو پس پشت ڈال دیا گیا۔‘

بقول پرنس یحییٰ: ’اس طرح کے عمل سے لوگوں کا دل بھی ٹوٹ جاتا ہے کہ  ہم نے اتنا کیا لیکن اس کے بدلے میں کیا ملا۔ قائداعظم وفات پا گئے اور اس کے بعد لیاقت علی خان اپنے ساتھ الجھے رہے۔ دوسری جو لابی آئی جن کو شاید ہم پسند نہیں تھے، تو انہوں نے آہستہ آہستہ تمام چیزیں بند کر دیں۔

اس کے بعد تعلقات خراب ہوئے اور پھر فوج کشی ہوئی اور میرے والد کو گرفتار کرکے بند کر دیا گیا۔ جو چار سال قید رہے۔ جب ایوب خان آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے، یہ لوگ پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اس نے پاکستان کو بنایا یہ مخالف نہیں ہے۔‘

75 سال کے بعد آپ نے کیا دیا اور کیا لیا؟

پرنس یحییٰ احمد زئی کہتے ہیں کہ پاکستان کو بنے ہوئے 75 سال ہو گئے ہیں۔ ’ہم نے اس کو دیا بہت کچھ ہے، ہمارے پاس بہت کچھ تھا۔ ہم ایک آزاد ریاست تھے، ہماری اپنی کرنسی تھی۔ ایک سرداری نظام تھا۔ ہر ایک کا اپنا ماحول تھا۔ اس طرح ہم چار سو سال تک حکومت کرتے رہے۔

’لیکن ان 75 سالوں میں نئے نئے لوگ آئے اورہر پانچ سال کے بعد لوگ بدلتے رہے۔ ایک حاکم نہیں رہا۔ جو نیا حاکم بنتا اس کی ترجیحات اپنی ہوتی تھیں، تو ان کے ساتھ بلوچوں کا تصادم ہوا۔ پھر والد نے بہت کوشش کی کہ امن آجائے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کیوں کر رہے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ جب میں گورنر تھا تو میں نے اپنے بیٹوں کو پہاڑ پر بھیج دیا۔ پھر ان کو واپس لایا جو لڑ رہے تھے۔ فوج حیران ہوئی کہ یہ کیسے ان کو واپس لایا۔

’والد نے ان سے رابطہ کر کے ان کو واپس آنے پر آمادہ کیا۔ مستونگ میں ہمارے کافی رہنما تھے۔ مریوں میں ہزار خان بجارانی، جنرل شیروف مری انہوں نے سب کے ساتھ رابطے کرکے امن لانے کی کوشش کی۔‘

خان قلات سلیمان داؤد نے باہر جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

پرنس یحییٰ احمد زئی کہتے ہیں کہ ’خان سلیمان داؤد نے ایک جرگہ بلایا تھا، جس میں سب لوگ آئے تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ، کوئٹہ کے پنجابی، پٹھان اور ہزارہ بھی تھے۔ ان سب کے ساتھ بیٹھ کر فیصلہ کیا گیا کہ خان آف قلات آپ جاکر یہ معاملہ عالمی سطح پر ہیگ میں اٹھائیں کہ بلوچستان کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے۔

’جرگے کا کہنا تھا کہ آپ کو (پاکستان نے) لکھ کر دیا کہ یہ سب مراعات دیں گے۔ ان میں سے کچھ بھی نہیں دیا۔

’جب خان سلیمان داؤد چلے گئے اور واپس آئے تو اس وقت یہاں پر پرویز مشرف بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آگر آپ واپس آئے تو آپ کو گرفتار کرلیں گے۔ پرویز مشرف کے دور میں حالات ٹھیک نہیں رہے وہ ان کو پسند نہیں تھے۔‘

الحاق سے قبل بلوچستان کا جغرافیہ کیا تھا؟

پرنس یحییٰ احمد زئی نے بتایا کہ بلوچستان خان نصیر خان کے زمانے میں ایک سپر پاور تھا۔ ایک طرف ملتان تھا، دوسرا کونا بندر عباس تھا۔ درمیان میں ہند، ایک طرف ایران دوسری طرف ہندوستان اور درمیان میں قلات کی ریاست تھی۔

’تین چار سو سال تک قلات کا نام تھا۔ پھر اس کو بلوچستان کا نام دیا گیا۔ انگریز آئے تو انہوں نے کہا کہ آدھا ہمیں دے دیں۔ مری اور بگٹی کا علاقہ، نوشکی اور کوئٹہ  کو لیز پر لیا۔ اس زمانے میں ایک لاکھ روپے دیتے تھے اور تین لاکھ روپے ریلوے کے لیے دیتے تھے۔

الحاق کا فیصلہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟

پرنس یحییٰ احمد زئی کہتے ہیں کہ ’اگر الحاق نہ ہوتا تو ہم ایک آزاد ریاست تھے، ہماری اپنی کرنسی تھی۔ ایک نظام تین چار سو سال سے چلا آ رہا تھا۔ انگریزوں کے ساتھ ہمارے معاہدے تھے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات تھے، ایران کے ساتھ تعلقات تھے۔ احمد شاہ ابدالی اور نصیر خان نوری کے زمانے سے تعلقات تھے۔

 ’ہمارے جو اثاثے تھے، پاکستان بننے سے پہلے کے، وہ اب ایک فیصد رہ گئے ہیں۔ میں نے والد سے پوچھا تھا کہ مستونگ اور دوسری جگہوں پر ہماری جائیداد ہے۔ اس کا کیا ہوا تو انہوں نے کہا کہ مجھے یہ چیزیں یاد نہیں رہیں۔‘

قلات میں شاہی خاندان کے زیر استعمال زمین 34 ایکٹر پر مشتمل ہے، جس میں ایک منفرد طرز کا محل بنا ہوا ہے۔ جو بحری جہاز کے نقشے کا ہے۔ اہل خانہ کے مطابق اس طرز کی عمارت پاکستان میں کہیں اور نہیں ہے۔ یہ محل نما عمارت خان قلات نے سابقہ قلعہ، جو شہر کے آغاز میں ایک ٹیلے پر واقع ہے اور 1935 کے زلزلے میں تباہ ہو گیا تھا، کے بعد تعمیر کروایا تھا۔

شاہی خاندان کے زیر استعمال ایک وسیع علاقہ ہے، جہاں پر پھل دار درختوں کا باغ بھی ہے، جسے کسی زمانے میں ایک چشمے کے ذریعے سیراب کیا جاتا تھا۔ یہ چشمہ اب خشک ہوچکا ہے اور پانی ٹیوب ویلز کے ذریعے آتا ہے۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ