پاکستان کے 75 سال: جب دیر میں نوابی دور تھا

پاکستان کے 75 سال پورے ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو نے تقسیم ہند کے وقت آزاد ریاستوں پر دستاویزی فلم کی سیریز کا آغاز کیا ہے۔ چوتھی کہانی میں جانیے کہ خیبرپختونخوا کی ریاست دیر نے پاکستان کے ساتھ کب اور کیسے الحاق کیا۔

پاکستان کے 75 سال پورے ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو نے تقسیم ہند کے وقت آزاد ریاستوں پر دستاویزی فلم کی سیریز کا آغاز کیا ہے۔ چوتھی کہانی میں جانیے کہ خیبرپختونخوا کی ریاست دیر نے پاکستان کے ساتھ کب اور کیسے الحاق کیا۔


’دیر قلعے تک عوام کی رسائی بند ہے۔‘

یہ بات دیر میں رپورٹنگ کے لیے کیے جانے والے حالیہ سفر کے دوران ایک مقامی صحافی نے مجھے بتائی۔ میں ایک دستاویزی فلم کے لیے مقامی صحافی سے معلومات لینے کی غرض سے ان سے ملنے پہنچا تھا۔

مقامی صحافی کا کہنا تھا: ’ماضی میں یہاں سیاح قلعے کو دیکھنے آتے تھے، تاہم اب اسے سیاحوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ مالکان سمجھتے ہیں کہ سیاح یہاں آ کر ویڈیوز اور تصویریں بناتے ہیں، جن سے ماضی میں مختلف مسائل پیدا ہوگئے تھے۔‘

یہ سن کر ہمیں عجیب لگا کیوں کہ انڈپینڈنٹ اردو کے لیے دستاویزی فلموں کی اس سیریز کے دوران ہم نے کئی سابقہ آزاد ریاستوں پر رپورٹنگ کی ہے اور ہمیں امید تھی کہ ہمیں دیر کے قلعے تک بھی رسائی مل جائے گی۔

ہم نے مختلف ذرائع سے دیر کے نواب کے موجودہ خاندان کے ساتھ رابطے کی کوشش کی لیکن نہ وہ انٹرویو پر راضی ہوئے اور نہ ہی ہمیں قلعے تک رسائی دی۔

تاہم لوئر دیر کے علاقے تیمرگرہ میں رہائش پذیر شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے اور سابق صوبائی وزیر محمود زیب خان نے انٹرویو دینے کے لیے رضا مندی ظاہر کی اور انہی کے ذریعے انڈپینڈنٹ اردو نے کوشش کی ہے کہ اس سیریز کی چوتھی قسط میں ہم ریاست دیر کی تاریخ پر روشنی ڈال سکیں۔

خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر پشاور سے تقریبا تین گھنٹے کی مسافت پر واقع ریاست دیر کا تاریخ میں بہت کم ذکر ملتا ہے اور اس کی ایک وجہ پشاور یونیورسٹی کے جرنل میں شائع ایک مقالے کے مطابق انگریزوں کی اس علاقے تک کم رسائی تھی۔ اس وقت کے نواب انگریزوں کو کھلے دل سے خوش آمدید نہیں کہتے تھے۔ ریاست دیر کا مرکز اپر دیر ہوا کرتا تھا جہاں پر اس زمانے کا قلعہ بھی موجود ہے۔

برطانوی راج کے ڈیورنڈ نامی انگریز نے اپنے کتاب میں دیر کے حوالے سے اپنی آرا کچھ یوں لکھی ہیں: ’مجھے ہدایت دی گئی کہ انڈیا براستہ کشمیر واپس آؤں اور دیر روڈ پر جانے سے گریز کروں لیکن اگر عمرا خان نواب میری حفاظت کا ذمہ لیتے ہیں تو پھر دیر یا باجوڑ روڈ استعمال کر سکتے ہیں۔‘

اس کے برعکس تاریخ کی کتابوں میں ریاست دیر سے متصل علاقوں چترال اور سوات کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔

دیر ریاست کی تاریخ کیا ہے؟

دیر کی حدود افغانسان کے ساتھ بن شاہی کے مقام پر ملتی ہیں جبکہ چترال اور سوات کے ساتھ بھی اس علاقے کے سرحدیں ملی ہوئی ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے جرنل میں فضل الرحمان اور فضل الحق کے شائع مقالوں کے مطابق دیر کے نام کے حوالے سے مختلف آرا موجود ہیں۔

مقالے میں درج ہے کہ دیر مختلف تہذیبوں کا گڑھ رہا ہے اور ماضی میں اس علاقے کو گورائے، یاغستان، بلورستان اور مساگا کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے۔

ایک مورخ کے مطابق دیر کا نام پہلی مرتبہ بدھ مت تہذیب کے اس علاقے میں شروع ہونے کے بعد سامنے آیا جس کے معنی ہیں: ’خانقاہیں۔‘

یہ نام اس لیے رکھا گیا تھا کیونکہ دیر کے دریائے پنجکوڑہ کے دونوں جانب اس زمانے میں بدھ مت کی خانقاہیں موجود تھیں۔

اس علاقے کو کسی زمانے میں کافرستان بھی کہا جاتا تھا اور اس کی وجہ مقالے کے مطابق یہ تھی کہ 10ویں صدی ہجری سے لے کر 15صدیوں تک یہاں پر ’کافروں‘ کی سلطنت تھی، جو اس وقت دیر کے علاقے کوہستان میں رہائش پذیر تھے اور بعد میں یوسفزئی قبیلے نے اس علاقے پر قبضہ کرکے اس کا نام دیر رکھ دیا۔

 ان کے مطابق دیر فارسی زبان کے لفظ ’دیر‘ سے نکلا ہے، جس کی معنی ہیں ’مشکل رسائی‘ کیونکہ یہ دور دراز علاقہ تھا اور یہاں تک رسائی مشکل تھی۔

مورخین کے مطابق دیر کی تاریخ بہت پرانی ہے اور یہاں پر کسی زمانے میں ڈریونینز(دراوڑی) اور آرینز (آریائی) آباد تھے۔

دراوڑی نسل ماضی میں جنوبی ایشیا پر حکمرانی کر چکی ہے، جبکہ آریائی نسل سنسکرت بولنے والے لوگ تھے جن کی تاریخ تقریباً 1500 قبل میسح کی ہے، جنہوں نے متحدہ ہندوستان پر حکمرانی کی تھی۔

پشاور یونیورسٹی کے مقالے کے مطابق ضلع دیر کے گاوں ’داروڑہ‘ کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر ’ڈریوڈینز‘ آباد تھے اور بعد میں آرینز نے پورے گندھارا ریجن جس میں سوات، ٹیکسلا اور دیر شامل ہے، پر 522 قبل مسیح میں حکمرانی کی تھی۔

مقالے کے مطابق اس کے بعد 327 قبل مسیح میں سکندر اعظم کی قیادت میں یونانیوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا۔ سکندر اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے شہر جلال آباد سے براستہ باجوڑ دیر میں داخل ہوئے تھے اور اس کے شواہد دریائے پنجکوڑا کے دونوں جانب فائر ٹیمپلز کے آثار ہیں جو آج بھی موجود ہیں۔ یونانیوں نے اس علاقے پر تقریباً دو سو سال تک حکمرانی کی تھی۔

اس علاقے میں دیگر تہذیبوں کا سورج تب غروب ہوا جب محمود غزنوی نے یہاں کا رخ کیا۔ سوات کی طرح اس علاقے میں بھی 998 ہجری کے بعد اسلام کا پھیلاؤ شروع ہوا جب محمود غزنوی نے سوات کے علاقے اوڈی گرام میں بدھ مت کے آخری حکمران راجہ گیرا کو شکست دی۔ یاد رہے کہ اس وقت دیر، سوات، چترال سمیت بونیر اور یہ پورا علاقہ ’مساگہ ریاست‘ کا حصہ تھا۔

مقالے کے مطابق دیر پر منگول حکمران تیمور نے بھی 1369 تک حکمرانی کی۔ اس بات کا ذکر چترال کے موجودہ مہتر(ریاست چترال کے وقت ریاست کے حکمران کو مہتر کہا جاتا تھا) فتح الملک ناصر نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا تھا کہ منگولوں نے چترال پر بھی حکمرانی کی تھی کیونکہ اس وقت دیر اور چترال ایک علاقہ تھا۔

اس مقالے میں مزید درج ہے کہ لوئر دیر کے آج کے مرزکی بازار ’تیمرگرہ‘ کا نام بھی اسی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ تیمور دریائے پنجکوڑہ کے کنارے تیمر گرہ کے آس پاس رہے تھے اور پہلے تیمرگرہ کا نام ’ تیمر گڑھ‘ تھا جو بعد میں تیمر گرہ بن گیا۔

 تاریخ دانوں کے مطابق یہ علاقہ تقریباً 15 تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ 1519 ہجری میں پشتون تہذیب یہاں آباد ہوئی، جب یوسفزئی قبیلے نے اس علاقے پر قبضہ کیا۔

یوسفزئی قبیلے کے اس زمانے کے اہم رہنماؤں میں ملک احمد خان، شیخ ملی اور شاہ منصور( ضلع صوابی میں ایک گاؤں شاہ منصور کے نام سے منسوب ہے) شامل تھے جنہوں نے کابل سے خیبر پاس پار کر کے پشاور اور بعد میں سوات، دیر، بونیر اور اس پورے علاقے پر قبضہ کیا۔

دیر میں ’خانزم‘ کی ابتدا

پشاور یونیورسٹی کے جریدے میں شائع مقالے کے مطابق دیر وادی میں خانزم 1626 ہجری میں شروع ہوا اور اس کی بنیاد ملیزی قبیلے کے روحانی رہنما اخند الیاس بابا نے رکھی۔ الیاس بابا اس زمانے میں اسلام کا پرچار اور لوگوں کے مسائل حل کرتے تھے کیونکہ انہیں اس علاقے کے رسم و رواج کا اچھے طریقے سے علم تھا۔

چونکہ اخند الیاس بابا کے حوالے سے لوگوں کے دلوں میں عزت موجود تھی تو مقالے کے مطابق ان کو دیر وادی میں پہلا خان منتخب کیا گیا اور بعد میں ان کے جاں نشینوں نے اس علاقے کو باقاعدہ طور پر ایک آزاد ریاست قرار دیا۔ اخند الیاس بابا کی 1676 میں موت کے بعد ان کے بیٹے ملا اسماعیل کو گدی نشین منتخب کیا گیا جو 1752 تک اس علاقے کے خان رہے۔

ملا اسماعیل کے بعد ان کے بیٹے خان غلام خان 1804 تک حکمران رہے لیکن خان غلام خان اپنے آباد و اجداد سے ہٹ کر شاہی زندگی اور لوگوں پر حکمرانی کے خواہش مند تھے۔ خان غلام خان کے بعد ان کے بیٹے خان ظفر خان 1814 تک حکمران رہے اور خان ظفر خان کے دور اقتدار میں دیر میں باقاعدہ ملٹری فورس کی بنیاد رکھی گئی اور دیر کے آس پاس کے علاقوں پر بھی قبضہ کرنا شروع کیا گیا۔

خان ظفر خان کے بعد ان کے بیٹا خان قاسم خان شاہد حکمران بنے اور 1822 تک دور اقتدار میں رہنے کے بعد انہیں ان کے بیٹوں نے قتل کیا اور اس کے بعد دیر ریاست کا سنہرا دور شروع ہوا جب خان غزن خان حکمران بنے۔ انہوں نے اس علاقے پر 46 سال تک حکمرانی کی اور ان کی موت کے بعد 1870 میں ان کے بیٹے خان رحمت اللہ خان حکمران بنے۔

خان رحمت الله خان کو مختلف مشکلات کا سامنا تھا، جن میں ان کے ایک بیٹے شریف خان کا ان کی حکمرانی کو نہ ماننا تھا جبکہ دوسری جانب جندول کے علاقے کے نواب عمرا خان کی طرف سے ان کی مخالفت تھی۔

 مقالے کے مطابق ایک وقت میں رحمت اللہ خان کے بیٹے شریف خان نے اپنے والد کی ریاست پر حملہ بھی کیا تھا تاہم شریف خان کو شکست ہوئی تھی۔

اس وقت موجود دیر کے علاقے جندول پر عمرا خان کی حکومت تھی، جسے برطانوی راج ’مشرق کے نپولین‘ کہہ کر پکارتے تھے۔

مقالے کے مطابق اپنے بھائی سے جنگ کر کے 1880میں انہوں نے جندول پر حکمرانی شروع کی اور دیر کے دیگر علاقوں پر بھی حملے کر کے ان کو فتح کرنے کی کوشش کی۔

1884میں رحمت الله خان کی وفات کے بعد ان کے بھائی شریف خان حکمران بن گئے اور انہوں نے عمرا خان کے خلاف محاذ کھول دیا تاہم 1890 تک عمرا خان نے شریف خان کو شکست دے کر پورے دیر پر حکمرانی شروع کر دی اور اپنے بھائی محمد شاہ خان کو ریاست کا گورنر تعینات کر دیا۔

 محمد شاہ خان ٹیکس وغیرہ وصول کرتے تھے، تاہم عمرا خان نے شریف خان کو جلا وطن کر کے سوات بھیج دیا۔

دیر میں نوابی دور کا آغاز

جب دیر کو جندول میں ضم کیا گیا تو مقالے کے مطابق عمرا خان نے دیر سے متصل علاقوں پر قبضہ شروع کر دیا۔ چترال کے مہتر فتح الملک کے مطابق عمرا خان نے ایک وقت میں چترال پر بھی حملہ کیا تھا اور چترال کے قلعے میں برطانوی راج کے اہلکاروں کو محصور کر دیا تھا۔

عمرا خان کا تختہ الٹنے کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔

 پشاور نیورسٹی کے جریدے میں شائع ایک مقالے کے مطابق عمرا خان نے چونکہ شریف خان کو جلا وطن کیا تھا، تو جب عمرا خان نے چترال پر حملہ کیا تو برطانوی راج نے شریف خان کے ساتھ مل کر عمرا خان کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقالے کے مطابق شریف خان اس منصوبے پر راضی ہوگئے اور انہوں نے برطانوی فورس کی چترال میں براستہ دیر داخلے کی راہ ہموار کی تاکہ برطانوی فورس عمرا خان کے ساتھ لڑ سکے اور یوں 1895 میں شریف خان کو برطانوی راج نے دیر کا پہلا نواب منتخب کر لیا اور دیر ریاست کو برطانوی راج نے باقاعدہ طور پر آزاد ریاست تسلیم کرلیا۔

اس کے بعد شریف خان 1904 تک دیر کے نواب رہے لیکن ان کے دور میں ریاست نے کسی قسم کی ترقی نہیں کی کیونکہ ایک تو وسائل کی کمی تھی اور دوسری جانب سیاسی چپقلش بہت زیادہ تھی۔

 اس کے علاوہ معاشی طور بھی ریاست دیر کمزور تھی جبکہ اس زمانے میں برطانوی راج کے خلاف اٹھنے والے رہنما ’سرتور فقیر‘ بھی ایک چیلنج تھے، جن کے حمایتوں میں مذہبی رجحان رکھنے والے لوگ شامل تھے۔

دیر کے پہلے نواب شریف خان کی موت کے بعد ان کے بیٹے محمد اورنگزیب خان (چاڑا نواب) 1904 میں دیر کے نواب منتخب ہوئے۔

سلیمان شاہد کی ریاست دیر پر لکھی گئی کتاب ’ گمنام ریاست‘ کے مطابق ان کو چاڑا(گونگا) اس لیے کہتے تھے کہ جب وہ پیدا ہوئے تو غلطی سے پانی میں گر گئے تھے جس کی وجہ سے ان کی قوت گویائی متاثر ہوئی تھی۔

مورخین کے مطابق چاڑا نواب تقریباً 20 سال تک دیر کے نواب رہے اور ان کے دور اقتدار میں دیر ریاست اور سوات ریاست کے درمیان تقریباً 45 چھوٹی بڑی لڑائیاں ہوئیں۔

اس وقت دیر اور سوات کے درمیان حدود پر تنازعات تھے اور 1923 میں والی سوات اور دیر کے نواب کے مابین معاہدہ ہوگیا، جس میں دیر اور سوات کی ریاستوں کی حدود کا تعین کیا گیا۔

چاڑا نواب کے بعد 1924میں ان کے بیٹے محمد شاہ جہان خان دیر ریاست کے نواب چنے گئے۔

 مقالے کے مطابق شاہ جہان خان کے دور حکومت میں ان کے وزرا اور مشیران نہایت بدعنوان تھے کیونکہ شاہ جہان خان ریاست کے معاملات میں بہت کم دلچپسپی رکھتے تھے۔

پشاور یونیورسٹی کے مقالے کے مطابق شاہ جہان خان نے برطانوی راج کی مکمل حمایت حاصل کی تھی لیکن شاہ جہان خان کا دور ریاست دیر کی تاریک دور میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے تعلیم پر پابندی عائد کی تھی۔

اس حوالے سے شاہی خاندان کے رکن محمود زیب خان، جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ تاثر کہ نواب دیر نے تعلیم پر پابندی عائد کی تھی درست نہیں ہے کیونکہ انہوں نے ریاست دیر کے مختلف علاقوں میں اس وقت مختلف سکول تعمیر کیے تھے۔‘

محمود زیب خان نے بتایا کہ ’اس وقت حالات ایسے تھے کہ تعلیم کے لیے باقاعدہ نظام موجود نہیں تھا اور اسی وجہ سے تعلیم پر اتنی توجہ نہں دی گئی تھی لیکن اب میں سیاست میں اس لیے آیا ہوں تاکہ شاہی خاندان کے بارے میں جو یہ تاثر ہے اس کو غلط ثابت کر کے تعلیم کے میدان میں عوام کے لیے کچھ کر سکوں۔‘

ریاست دیر کا الحاق

دیگر آزاد ریاستوں کی طرح دیر بھی چونکہ آزاد ریاست تھی تو تقسیم ہند کے وقت ریاست دیر نے بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کیا فیصلہ کیا تھا۔

محمود زیب خان نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ تقسیم ہند کے بعد ہمارے بزرگوں کو بتایا گیا کہ یا تو وہ پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کریں اور ہمارے بزرگوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔

محمود زیب نے بتایا: ’ آزاد ریاست کی حیثیت 1969 میں تب ختم کردی گئی جب نواب شاہ جہان خان کو بیٹے سمیت گرفتار کر کے لاہور میں نظر بند کیا اور ان کے بڑے بیٹے نواب شاہ خسرو کو نواب بنایا دیا گیا تاہم ان کے ساتھ ایک پولیٹکل ایجنٹ بھی تعینات کیا گیا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ الحاق کی شرائط میں یہ شرط شامل تھی کہ یہاں پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا اور یہاں پر جتنے وسائل ہیں اس پر دیر کے عوام کا حق ہوگا اور پاکستانی حکومت کا اس میں کوئی سروکار نہیں ہوگا۔

محمود زیب خان کے بھائی نوابزاہ اورنگزیب خان نے بتایا کہ یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ شاہی خاندان کے لوگوں کو باقاعدہ پروٹوکول دیا جائے گا اور ان کو ایک سفیر کی حیثیت حاصل ہوگی لیکن بعد میں ایسا نہیں ہو سکا۔

الحاق کے بعد دیر کیسا ہے؟

محمود زیب خان نے بتایا کہ الحاق کے بعد دیر نے ترقی ضرور کی ہے تاہم اب بہت زیادہ مسائل ہیں اور حکومت کی طرف سے وہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے، جتنی ہونی چاہیے۔

ان کے مطابق: ’لوگ ابھی سوچ رہے ہیں کہ یہاں پر ترقی ہو سکے اور حکومت کی جانب سے اس علاقے کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں جتنے بھی منتخب لوگ ہوتے ہیں، وہ کچھ نہ کچھ کوشش تو کرتے ہیں لیکن تعلیم اور صحت کی اچھی سہولیات ہونی چاہییں۔‘

ضلع دیر کی آزاد حیثیت ختم کرنے کے بعد 1970 میں اس کو باقاعدہ طور ایک ضلع قرار دیا گیا تاہم یہاں پر حکومت پاکستان کے تمام قوانین نافذ نہیں کیے گئے تھے جس طرح دیگر بندوبستی اضلاع میں ہوئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ