بھارت کے 75 سال: ’ہندو ریاست کے خواب سے اقلیتوں کی نیندیں حرام‘

دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے انڈیا کو ایک ہندو ریاست قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں موجود 21 کروڑ مسلمان اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔

ہندوؤں کے مقدس دریائے گنگا کے کنارے موجود ہندو پنڈت اگرچہ نرمی سے بات کر رہے تھے لیکن انڈیا کے قیام کے 75 برس بعد ان کے الفاظ میں ایک دھمکی آمیز پیغام نظر آیا کہ ان کا مذہب انڈیا کی شناخت کا محور ہونا چاہیے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جے رام مشرا نے کہا: ’ہمیں وقت کے ساتھ بدلنا چاہیے۔ اب ہمیں ہندو مت کے خلاف اٹھائے جانے والے ہر ہاتھ کو کاٹنا چاہیے۔‘

بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی میں ہندوؤں کی اکثریت ہے لیکن 1947 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اس ملک نے خود کو سیکولر اور کثیر ثقافتی ریاست کے طور پر متعارف کروایا تھا۔

تاہم اب دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے انڈیا کو ایک ہندو ریاست قرار دینے اور ہندوؤں کی بالادستی کو قانون میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں موجود 21 کروڑ مسلمان اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔

جے رام شری نے کہا: ’گاندھی ایک ہندو تھے لیکن چاہتے تھے کہ انڈیا میں سب  برابر ہوں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ اس طرح ریاست مکمل طور پر سیکولر ہونے کی پابند ہے۔‘

1947 میں تقسیم کے ایک سال سے بھی کم عرصے کے بعد ایک ہندو جنونی نے گاندھی کو قتل کر دیا جو انہیں مسلمانوں کے ساتھ بہت زیادہ روادار سمجھتا تھا۔

جے رام مشرا کا خیال ہے کہ ’گاندھی کے نظریات اب پرانے ہو چکے ہیں۔‘

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’اگر کوئی آپ کو ایک گال پر تھپڑ مارتا ہے تو گاندھی نے کہا کہ ہمیں دوسرا گال بھی پیش کرنا چاہیے۔ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں ہندو عام طور پر پر امن ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مچھر مارنے میں بھی ہچکچاتے ہیں لیکن دیگر برادریاں اس ذہنیت کا فائدہ اٹھا رہی ہیں اور جب تک ہم تبدیل نہیں ہوتے، وہ ہم پر غلبہ حاصل کرتے رہیں گے۔‘

بہت سے لوگوں کے لیے یہ تبدیلی پہلے ہی جاری ہے، اس بیانیے پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھی زور دیا ہے اور اس کی نشانی ہندو مت سے متعلق بڑے پروجیکٹ ہیں۔

ہندوؤں کے مقدس شہر ایودھیا میں ایک عظیم الشان مندر زیر تعمیر ہے جہاں ہندو انتہا پسندوں نے تین دہائیاں قبل مغل دور کی ایک مسجد کو مسمار کردیا تھا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد شروع ہوا اور ملک بھر میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔

بی جے پی نے اسلامی مغل سلطنت کو چیلنج کرنے والے ہندو جنگجو بادشاہ چھترپتی شیواجی کے ممبئی ساحل پر 300 ملین ڈالر مالیت کے 210 میٹر طویل مجسمے کی حمایت کی ہے۔

بھارتی حکام نے مختلف جرائم کا الزام عائد کرکے بہت سے لوگوں کے گھروں کو مسمار کیا، جن میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اقلیتوں کو دبانے کی ایک غیر آئینی کوشش ہے۔

بھارتی ریاست کرناٹک میں بی جے پی نے سکولوں میں طالبات کے حجاب پر پابندی کی حمایت کی، جس کے بعد مسلمانوں نے سڑکوں پر احتجاج کا آغاز کیا۔

ہندو گروپوں نے بہت سے مسلم مقامات پر ملکیت کے دعوے کیے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ اسلامی حکومت کے دوران مندروں کے اوپر تعمیر کیے گئے تھے۔ اس میں صدیوں پرانی ایک مسجد بھی شامل ہے۔

2002 میں ہندو یاتریوں کی جانب سے ٹرین کو آگ لگانے کے بعد مسلم مخالف فسادات کی ایک نئی لہر شروع ہوئی تھی اور گجرات میں کم از کم ایک ہزار افراد کو چھرا مار کر یا گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ مودی اس وقت ریاست کے وزیراعلیٰ تھے اور ان پر الزام ہے کہ وہ قتل و غارت کو روکنے میں ناکام رہے تھے۔

ایک مسلمان طبی کارکن سید فیروز حسین نے  اے ایف پی سے گفتگو میں کہا: ’بنیادی ڈھانچے پر زور، سڑکیں، دریائی کنارے کے منصوبے اور صفائی ستھرائی  سب کچھ بہتر ہے۔‘ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں واقعی پریشان ہیں۔

44 سالہ فیروز حسین نے کہا کہ  ’آج کل مذہب کے نام پر بہت زیادہ تشدد اور قتل و غارت  ہو رہی ہے۔ یہ غلط ہے۔ کوئی مذہب تشدد کی تبلیغ نہیں کرتا۔‘

لیکن کنگز کالج لندن کے پروفیسر ہرش وی پنت نے کہا کہ بی جے پی کے عروج کی وجہ گاندھی کی اپنی کانگریس پارٹی ہے، جس نے کئی دہائیوں تک ملک پر حکومت کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ سیکولرازم کی تبلیغ کرتے ہوئے اس نے انتخابی مقاصد کے لیے دونوں بڑے مذاہب کے انتہا پسند عناصر کو مدد دی۔

لیکن 1992 میں ہندوؤں کی جانب سے ایودھیا مسجد کو مسمار کرنے کے بعد بی جے پی نے ہندو جذبات کا استعمال کیا اور اب وہ’ انڈیا کی سیاست میں مرکزی حیثیت‘ رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا: ’ہر کوئی اس کا بیانیہ خریدتا ہے، اس پر ردعمل کا اظہار کرتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کسی اور کے پاس کوئی خیالات نہیں ہیں۔‘

’وہ اگلے دو سے تین دہائیوں تک یہیں رہیں گے۔‘

انتہا پسند ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد انڈیا کو ایک ہندو ریاست کے طور پر منوانا چاہتی ہے۔

تنظیم کے رہنما سریندر جین نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم ایک ہندو قوم ہیں کیونکہ انڈیا کی شناخت ہندو ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سیکولرازم کا دوہرا چہرہ بھارت کے وجود کے لیے لعنت اور خطرہ‘ بن گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی سب کو یہاں سے جانا پڑے گا۔ وہ پرامن زندگی گزار سکتے ہیں۔ انڈیا کا کردار اور اخلاقیات ہمیشہ ہندو رہیں گے۔

تاہم وارانسی کی ایک مسجد کے نگران 52 سالہ ناصر جمال خان نے کہا کہ اس سے مسلمانوں کو تشویش ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ہمیں بڑھتی ہوئی فرقہ بندی کا احساس‘ ہے حالانکہ ’ہمارے آباؤ اجداد یہیں پیدا ہوئے ہیں۔‘

انہیں امید ہے کہ ایک دن انڈیا کے منتخب رہنما مذہب کے بارے میں بات کرنا بند کر دیں گے۔

انہوں نے  اے ایف پی کو بتایا: ’میں وزیر اعظم کو خاندان میں ایک باپ کے طور پر دیکھتا ہوں۔ باپ کا اپنے بچوں کے ساتھ مختلف سلوک کرنا مناسب نہیں ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا