اگلی منتخب حکومت کو نیا آرمی چیف تعینات کرنا چاہیے: عمران خان

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر موجودہ حکومت صاف اور شفاف الیکشن کی صورت میں واپس اقتدار میں آجائے تو نیا آرمی چیف لے آئے۔

عمران خان 12 ستمبر، 2022 کو ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے (سکرین گریب)

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ صاف اور شفاف الیکشن کی صورت میں منتخب ہونے والی حکومت کو ہی نیا آرمی چیف تعینات کرنا چاہیے۔

انہوں نے پیر کی رات دنیا نیوز کے پروگرام ’دنیا کامران خان کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کامیابی کے لیے میرٹ ضروری ہے۔

’میں نے کہا تھا کہ آرمی چیف کی پوزیشن بہت اہم ہے۔ اس پر تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہیے۔ نواز شریف اور آصف زرداری اس اہم تعیناتی کے لیے میرٹ پر پورا نہیں اترتے۔

’میں چاہتا ہوں کہ میرٹ پر سلیکشن ہونی چاہیے۔ میں کہتا ہوں حکومت فری اور فیئر الیکشن کروا کے حکومت میں آجائے اور نیا آرمی چیف لے آئے۔

انہوں نے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی الیکشن ہونے تک مدت ملازمت میں توسیع  سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے اس حوالے سے تفصیل سے نہیں سوچا، وہ نہیں جانتے کہ وکیل اور آئینی ماہرین اس حوالے سے کیا کہتے ہیں۔

’ملک غیر معمولی حالات کا سامنا کر رہا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ملک کو اس دلدل سے کیسے نکالنا ہے۔‘

عمران خان نے چار ستمبر کو فیصل آباد میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں حکمران اتحاد پر اپنی مرضی کا نیا آرمی چیف لانے کی کوشش کا الزام لگایا تھا۔

انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے نام لیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان فوج کا نیا سربراہ ان کی کرپشن کا حساب مانگے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’نومبر میں نیا آرمی چیف آنے والا ہے۔ زرداری اور نواز شریف کی پوری کوشش ہے کہ کوئی ایسا آرمی چیف آئے جو ان کا فیورٹ ہو۔

’یہ اپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں۔ یہ ڈرتے ہیں کہ اگر کوئی تگڑا آرمی چیف آگیا یا محب وطن آرمی چیف آگیا تو وہ پوچھے گا ان سے، اس ڈر سے یہ بیٹھے ہوئے ہیں کہ یہ اپنا آرمی چیف تعینات کریں گے۔‘

ان کے اس بیان پر مختلف حلقوں نے شدید تنقید کی تھی۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے، جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، اس بیان سے دوری اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان اپنے بیان کی وضاحت خود کریں گے۔

اس بیان کے اگلے روز پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان فوج میں فیصل آباد میں ایک سیاسی جلسے کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے فوج کی سینیئر قیادت کے بارے میں توہین آمیز اور غیر ضروری بیان پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔‘

’ایک ایسے وقت میں پاکستان فوج کی اعلیٰ قیادت کو بدنام اور کمزور کرنے کی کوشش کی گئی جب ادارہ پاکستان کے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے لیے روزانہ  قربانیاں دے رہا ہے۔‘

بیان کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے طریقہ کار آئین میں واضح طور پر درج ہے اور سینیئر سیاست دان اس کے بارے میں تنازعے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو افسوس ناک ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا: ’پاکستان فوج کی اعلیٰ قیادت کو سیاست میں ملوث کرنا اور آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل کو متنازع بنانا نہ پاکستان کے مفاد میں ہے نہ ادارے کے۔‘

بعد ازاں پشاور میں عمران خان نے ایک جلسے سے خطاب میں کہا کہ انہوں نے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق فیصل آباد میں جو کہا اس کا مقصد اس اہم عہدے پر میرٹ کے مطابق تعیناتی پر زور دینا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی کسی ادارے کا خیر خواہ ہو گا تو وہ اس (ادارے) کے سربراہ کی تعیناتی کے لیے ہمیشہ میرٹ پر زور دے گا۔ ’ادارے کا خیر خواہ چاہے گا کہ ادارہ مضبوط ہو۔‘

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ ملک کے ساتھ مخلص ہیں، جب بھی فوج پر تنقید کرتے ہیں تو اس کی بہتری کے لیے کرتے ہیں۔

’ملک بھی میرا، فوج بھی میری اور عدلیہ بھی میری، یہ ادارے مضبوط ہوں گے تو ملک مضبوط ہو گا اور ہم نے ان اداروں اور ملک کو مضبوط بنانا ہے۔‘

عمران خان نے آج انٹرویو کے دوران پاکستان میں حالیہ سیلاب سے ہونے والی شدید تباہی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر سیلاب کا پانی خشک نہ ہوا تو مستقبل میں فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔

انہوں نے ملکی معیشت کے حوالے سے کہا کہ سیاسی استحکام نہ آیا تو معاشی استحکام بھی نہیں آئے گا اور اس وقت سیاسی استحکام صرف عام انتخابات سے آ سکتا ہے۔

’ہمارے دور میں چار فیصد پر بکنے والا بانڈ 50 فیصد ڈسکاؤنٹ پر بک رہا ہے۔ بجلی تین گنا مہنگی ہو چکی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کے باوجود پاکستانی روپے کی قدر نیچے آ رہی ہے۔ ’پاکستان خطرناک طور پر دیوالیہ کی طرف جا رہا ہے، جس کا واحد حل الیکشن ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’جن کے پاس ملک میں سب سے زیادہ طاقت ہے میں نے انہیں خبردار کیا تھا کہ اگر اس وقت سیاسی عدم استحکام آیا تو معیشت نہیں سنبھالی جائے گی۔

’میں نے شوکت ترین کو اسٹیبلشمنٹ کو سمجھانے کے لیے بھیجا کہ اگر ایسا ہوا تو ان سے معیشت سنبھالی نہیں جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے ملک میں فوری الیکشن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایک سیاسی جماعت صرف وہی راستہ لے سکتی ہے جو آئین میں دیا گیا ہے۔

’میں جو کروں گا وہ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کروں گا۔ یا تو یہ حکومت مجھے روڈ میپ دے کہ اس نے آگے کیا کرنا ہے۔ جب تک یہ بیٹھیں رہیں گے ملک دلدل میں پھنسا رہے گا۔‘

عمران خان کے مطابق: ’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ میرے پاس تمام مسائل کے حل ہیں۔ ملک میں سیاسی استحکام ہو، ایسی حکومت ہو جو عوامی مینڈیٹ لے کر آئے گی تو ملک میں سیاسی استحکام ہو سکتا ہے۔‘

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ انہوں نے موجودہ موجودہ الیکشن کمشنر کو تعینات کر کے بہت بڑی غلطی کی۔ ’موجودہ چیف الیکشن کمشنر کمر میں چاقو مارنا نہیں بھولتے۔‘

انہوں نے کہا: شہباز شریف نے (چیف الیکشن کمشنر کے لیے) اپنے نام دیے ہم نے اپنے نام دیے۔ انہیں ہمارے نام قبول نہیں تھے ہمیں ان کے نام قبول نہیں تھے، امپائر نے بیچ میں آ کر کہا کہ (موجودہ چیف الیکشن کمشنر) کو بنا دیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ موجودہ حکومت کے ساتھ عام انتخابات کے علاوہ دیگر اہم معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر مجھے موقع دیا جاتا تو شاید اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے خلاف توہین عدالت کے کیس میں وہ کہہ دیتا جو عدالت چاہتی تھی۔

’یہ معافی مانگنے کا ہی طریقہ ہے کہ میں نے انہیں کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ میں نے بات کرنے کی اجازت مانگی لیکن مجھے بات نہیں کرنے دی گئی۔ مجھے موقع دیا جاتا تو میں شاید وہ کہہ دیتا جو وہ چاہتے تھے۔‘

انہوں نے امریکہ سے اپنے تعلقات کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ امریکہ کے مخالف نہیں۔

’میں کسی ملک کے خلاف نہیں ہوں۔ میرا کام اپنے ملک کے مفاد کے لیے کام کرنا ہے۔

’میں امریکہ سے اچھے تعلقات چاہتا ہوں۔ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی بہت طاقت ور ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمیں استعمال نہ کیا جائے۔ ہم امن میں آپ کے ساتھ ہیں، جنگ میں ہمیں استعمال نہ کیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم قابل عزت تعلقات چاہتے ہیں۔ میں دوستی چاہتا ہوں، غلامی نہیں چاہتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست