کلبھوشن پر پاکستان قانون کی روشنی میں آگے بڑھے گا: عمران خان

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کلبھوشن یادیو کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔

(اے ایف پی)

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کلبھوشن یادیو کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد کہا ہے کہ پاکستان قانون کی روشنی میں آگے بڑھے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے اس بارے میں ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کمانڈر کلبھوشن یادیو کو بے گناہ قرار دے کر رہا کرنے اور ہندوستان واپس نہ بھجوانے کا عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ وہ پاکستانی عوام کے خلاف جرائم کا ذمہ دار ہے۔ پاکستان قانون کی روشنی میں آگے بڑھے گا۔‘

اس سے قبل گذشتہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث کلبھوشن یادو کی بریت اور بھارت حوالگی سے متعلق نئی دہلی کی درخواست کو مسترد کی اور بھارت کی قونصلر رسائی کی درخواست منظور کرتے ہوئے پاکستان کو کیس کا دوبارہ جائزہ لینے کا کہا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کلبھوشن یادو کیس کا ازسرِنو جائزہ لے: عالمی عدالت

کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا پاکستان پر کتنا اطلاق ہوتا ہے؟ اس کیس میں قانونی پیچ و خم کیا ہوں گے؟ اور کلبھوشن یادو کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف قانونی ماہرین سے رابطہ کیا۔

بیرسٹر مسرور علی شاہ نے اسے پاکستان کی ’سفارتی اور قانونی فتح‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’بھارت کی جانب سے جو اہم مطالبہ تھا کہ پھانسی کالعدم قرار دی جائے اور کلبھوشن کو بری کرکے واپس بھارت بھیجا جائے، یہ مطالبات عالمی عدالت انصاف نے نہیں مانے۔ ہاں بھارت نے قونصلر رسائی مانگی اور وہ اُن کو مل گئی۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’پاکستان یہ سمجھتا تھا کہ روایتی قانون کے مطابق جاسوس کو قونصلر رسائی نہیں دی جاتی لیکن عالمی عدالت انصاف نے ویانا کنونشن کے قانون کی تشریح میں بتا دیا ہے کہ جاسوس کو بھی قونصلر رسائی کا حق حاصل ہے۔’

عالمی قوانین کے ماہر احمر بلال صوفی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی حکومت پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا قانونی جائزہ لینا ہے۔ ہو سکتا ہے حکومت پاکستان مقامی یا بین الاقوامی قانونی ماہرین کی ٹیم بنائے جو اس فیصلے کی قانونی تشریح کرے تاکہ نظرثانی کا طریقہ کار اُس تشریح کی روشنی میں وضع کیا جا سکے۔ پاکستان نے ذمہ دار ملک کی حیثیت سے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کرنا ہے، اس لیے قانونی تشریح ضروری ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا: ’عالمی عدالت انصاف نے تکنیکی فتح بھارت کو دی ہے اور حقیقی فتح پاکستان کو دی ہے۔‘

اب قانونی راستے کیا ہیں؟

یہ سوال جب بیرسٹر مسرور علی شاہ سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو جائزہ لینے کا کہا گیا ہے لیکن نظرثانی کے بعد پاکستان فیصلہ کرنے میں آزاد ہے جبکہ فیصلے کے مطابق نظرثانی کے طریقہ کار کا تعین بھی پاکستان نے کرنا ہے۔ عالمی عدالت نے کوئی قدغن نہیں لگائی کہ پاکستان نے نظر ثانی کیسے کرنی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کے سزائے موت کے اکثر مقدمات نظرثانی کے لیے ہائی کورٹ میں آرٹیکل 199 کے تحت آتے ہیں اور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر ہو سکتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں:’کلبھوشن یادو کا کیس ہم نے خود خراب کر دیا‘

جب اُن سے سوال کیا گیا کہ اگر مقدمہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں چلتا ہے تو کیا وہاں بھارتی ہائی کمیشن کا سول وکیل پیش ہو سکتا ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’بالکل یہ آپشن بھی ہے کہ مقدمہ فوجی عدالت میں ہو  تو سول وکیل مقدمہ لڑ سکتا ہے، لیکن زیادہ امکانات ہائی کورٹ کے ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ ’کلبھوشن یادو پر جاسوسی کے علاوہ دہشت گردی کی بھی دفعات ہیں جن کا ابھی ٹرائل شروع نہیں ہوا، تو اُن کیسز میں بھی اُسے قونصلر رسائی مل جائے گی۔‘

دوسری جانب قانونی ماہر سلمان اکرم راجہ نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد اب کلبھوشن یادو کا وکیل آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں رِٹ پٹیشن دائر کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت پاکستان کے شہری آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متعلق کسی بھی شکایت کی صورت میں براہِ راست ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔

کلبھوشن کے لیے یہ آرٹیکل کیسے فائدہ مند؟

 یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلبھوشن یادو پاکستان شہری نہیں ہے تو وہ اس آرٹیکل سے کیسے مستفید ہو سکتا ہے؟

احمر بلال صوفی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ’چونکہ یہ ذمہ داری ریاست پاکستان کو سونپی گئی ہے، اس لیے حکومت پاکستان نظرثانی کے لیے ہائی کورٹ سے رابطہ کر سکتی ہے۔‘

دوسری جانب سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’دوسرا راستہ یہ ہے کہ کلبھوشن یادو کیس کی نظرثانی کے لیے نیا قانون بنایا جائے۔‘ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ نظر ثانی کسی سول عدالت کے سامنے ہی ہوگی۔ 

قونصلر رسائی کیا ہوتی ہے؟ 

بیرسٹر مسرور علی شاہ نے قونصلر رسائی کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب ایک ملک کا شہری دوسرے ملک میں کسی بھی کیس میں گرفتار ہو جاتا ہے تو اُس ملک میں متعلقہ شہری کے سفارت خانے کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہری کے پاس جائے اور جو مدد اُس کو درکار ہو وہ اُس کو مہیا کرے۔ وہ مدد ضروریات زندگی کی مد میں بھی ہو سکتی ہے اور وکیل فراہم کرنے کی مد میں بھی ہو سکتی ہے۔‘

مزید پڑھیں: کلبھوشن یادو: عالمی عدالت کا بھارت کو رسائی دینا اس کی جیت نہیں ہو گی: احمر بلال صوفی

انہوں نے کہا کہ ’کلبھوشن کیس میں وزارت خارجہ بھارتی ہائی کمیشن سے رابطہ کرے گی کہ وہ اپنا بندہ نامزد کریں جس کا نام کلبھوشن سے ملاقات کے لیے دیا جائے اور پھر ملاقات کا دن اور دورانیہ طے کیا جائے گا۔‘

سلمان اکرم راجہ کے مطابق ’وکیل منتخب کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ پاکستان بار کونسل کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارتی ہائی کمیشن، کسی پاکستانی وکیل کو ہی کلبھوشن یادو کیس کے لیے منتخب کردے۔‘

پاکستان پر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا کتنا اطلاق ہوتا ہے؟

قانونی ماہرین کے مطابق عالمی برادری میں رہتے ہوئے پاکستان حکومت عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل کرے گی۔

بیرسٹر مسرور نے کہا کہ ’پاکستان عالمی عدالت انصاف کا دائرہ کار تسلیم کرتا ہے۔ اگر پاکستان فیصلے پر عمل نہیں کرے گا تو معاملہ سیکیورٹی کونسل کے پاس چلا جاتا ہے۔‘

انہوں نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’عالمی عدالت انصاف میں اس سے قبل امریکہ کے خلاف جو چار مقدمات تھے، اُن میں قونصلر رسائی دی گئی ہے تو کلبھوشن یادو کے معاملے میں بھی انہوں نے قونصلر رسائی دینی ہی تھی۔‘

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن یادو: سزائے موت سے عالمی عدالت انصاف تک

بیرسٹر مسرور نے مزید کہا: ’عالمی عدالت انصاف بریت کر ہی نہیں سکتی تھی کیونکہ بریت کا اختیار عالمی عدالت انصاف کا تھا ہی نہیں۔ قونصلر رسائی ہی ملنی تھی جو بھارت کو مل چکی ہے۔‘

دوسری جانب بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور جلد ہی پاکستانی حکام سے کلبھوشن یادو تک قونصلر رسائی حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان