کشمیر پر پاکستان سے بات نہیں ہوسکتی: انڈین وزیر داخلہ

2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ذریعے کشمیر کی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہ انڈین وزیر داخلہ کا وادی کا پہلا دورہ تھا۔

تین فروری 2022 کی اس تصویر میں انڈین وزیر داخلہ امت شاہ ریاست اترپردیش میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انڈیا کے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کسی بھی طرح کی بات چیت کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔

امت شاہ نے بدھ کو جموں و کشمیر  کے ضلع بارہ مولہ کا دورہ کیا۔ 2019 میں  آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ذریعے کشمیر کی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہ انڈین وزیر داخلہ کا وادی کا پہلا دورہ تھا۔

انڈین نیوز ویب سائٹ ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق امت شاہ نے کہا: ’کچھ لوگ مجھے مشورے دے رہے ہیں کہ مجھے پاکستان سے بات کرنی چاہیے، جنہوں نے یہاں 70 سال حکومت کی ہے وہ مجھے تجاویز دے رہے ہیں، لیکن میں واضح ہوں کہ میں پاکستان سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں کشمیر کے نوجوانوں سے بات کروں گا۔ انہوں نے (پاکستان نے) یہاں دہشت گردی پھیلائی ہے۔ انہوں نے کشمیر کے لیے کیا اچھا کیا ہے۔‘

رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنی 25 منٹ کی تقریر میں زیادہ تر ’70 برسوں سے کشمیر پر حکمرانی کرنے والے تین خاندانوں‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

اگرچہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اکثر عبداللہ اور مفتی خاندانوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں، لیکن یہ پہلا موقع تھا جب امت شاہ نے گاندھی خاندان کو بھی نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا: ’میں نے محبوبہ مفتی کی ایک ٹویٹ دیکھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ وزیر داخلہ کو چاہیے کہ واپس جانے سے پہلے کشمیر کو جو کچھ دیا اس کا حساب دیں۔‘

امت شاہ نے محبوبہ مفتی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’کان اور آنکھیں کھول کر سنیں، ہم نے جو کیا ہے، میں اس کا حساب دوں گا لیکن آپ اور فاروق عبداللہ صاحب نے جو کیا ہے، بعد میں آپ کو بھی وہ حساب دینا چاہیے۔ میں یہاں آپ سے پوچھنے آیا ہوں۔ محبوبہ اور فاروق صاحب، ہمیں بتائیں کہ 70 برسوں میں کشمیر میں کتنی سرمایہ کاری آئی، کتنی صنعتیں لگائی گئیں، کتنی فیکٹریاں کھولی گئیں اور کتنے نوجوانوں کو روزگار دیا گیا ہے۔ 70 برسوں میں صرف 15000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ تین سال میں مودی جی 56000 کروڑ کی سرمایہ کاری لے کر آئے۔‘

وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ مودی حکومت کی ’کامیابی‘ جموں و کشمیر میں جمہوریت کو نچلی سطح تک لے جانا ہے۔’اس سے پہلے جمہوریت 87 قانون سازوں، چھ ارکان پارلیمنٹ اور تین خاندانوں – مفتی خاندان، عبداللہ خاندان اور گاندھی خاندان تک محدود تھی۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم اسے گاؤں، 30 ہزار پنچوں اور سرپنچوں تک لے گئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس (این سی) کو ’عبداللہ اینڈ سنز‘ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو ’مفتی اینڈ کمپنی‘  قرار دیتے ہوئے امت شاہ نے الزام عائد کیا کہ انہوں نے مبینہ طور پر کشمیری نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھر اور بندوقیں دیں۔

امت شاہ نے کہا: ’مودی صنعت کو یہاں لائے اور ان کے (نوجوانوں کے) ہاتھوں میں موبائل اور لیپ ٹاپ دیئے۔

'دوستو، ہمارے پاس دو ماڈل ہیں، مودی جی کا ترقی کا ماڈل، امن اور روزگار کا ماڈل اور گپکار (سیاسی جماعتوں کا اتحاد) ماڈل۔‘

 انہوں نے کہا کہ ’گپکار ماڈل نے ہمیں پلوامہ حملہ دیا۔ مودی ماڈل نے پلوامہ کو 2000 کروڑ روپے کا ہسپتال دیا۔ گپکار ماڈل نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھر اور مشین گنیں دیں اور کالجوں کو بند کیا جبکہ مودی ماڈل نے ہمیں آئی آئی ایم، آئی آئی ٹی، ایمس، این آئی ایف ٹی اور این ای ای ٹی دیا۔‘

 مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’1990 میں عسکریت پسندی کے آغاز کے بعد سے جموں و کشمیر میں دہشت گردی کی وجہ سے 42 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان 42 ہزار لوگوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ 70 سال تک کشمیر پر حکومت کرنے والے تین خاندان ذمہ دار ہیں۔

’آپ جانتے ہیں کہ سب سے مشکل کام اپنے بیٹے کے تابوت کو کندھا دینا ہے۔ یہاں 42 ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ کیا کبھی کسی لیڈر کا بیٹا مارا گیا ہے؟ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر سے علیحدگی پسندی کا خوف دور ہو، دہشت گردی ختم ہو اور کشمیر انڈیا کی جنت بن جائے۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر پہلے ’دہشت گردی کا ہاٹ سپاٹ‘ تھا ، لیکن اب بی جے پی حکومت کے تحت ’سیاحت کا ہاٹ سپاٹ‘ بن گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں سالانہ چھ لاکھ سیاح کشمیر آتے تھے۔ ’میں اکتوبر میں یہاں آیا ہوں۔ اس سال اب تک 22 لاکھ سیاح پہلے ہی کشمیر کا دورہ کر چکے ہیں اور اس سے پانچ لاکھ نوجوانوں کو روزگار ملا ہے۔‘

امت شاہ نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی عملی طور پر ختم ہوگئی ہے اور اس کی وجہ سے لوگ سے مرکزی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔ مودی حکومت دہشت گردی کو برداشت نہیں کرے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا