توشہ خانہ یا حکمرانوں کے سر پر لٹکتی تلوار؟

سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کی تفصیلات تو ایک طرف لیکن بہت سے لوگ اب بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ توشہ خانہ اصل میں ہے کیا؟

19 دسمبر 2019 کو ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کو تحفے میں دی گئی پروٹون ایکس 70 کار (ملائیشین ہائی کمیشن اسلام آباد/ ٹوئٹر اکاؤنٹ)

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس میں جمعے کو نااہل قرار دے دیا ہے، جس کے بعد وہ رکن قومی اسمبلی نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی تفصیلات تو ایک طرف لیکن بہت سے لوگ اب بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ توشہ خانہ اصل میں ہے کیا؟

توشہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے وہ کھانا جو مسافر اپنے ساتھ لے کر سفر پر جاتے ہیں۔ یہیں سے یہ لفظ بطور خزانہ استعمال ہونا شروع ہو گیا کیوں کہ غیر آباد اور بیابانی علاقوں کے لمبے سفر کے دوران مسافر کے لیے اس کے کھانے پینے کا سامان ہی اس کا سب سے بڑا خزانہ ہوتا ہے۔

توشہ خانہ بادشاہوں کے قلعے میں وہ جگہ ہوتی تھی جہاں تحفے تحائف رکھے جاتے تھے۔ 

پاکستان میں توشہ خانہ وہ جگہ ہے جہاں دوسرے ممالک سے ملنے والے قیمتی تحائف سنبھال کر رکھے جاتے ہیں۔

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’توشہ خانے میں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے ان کی نیلامی کی جاتی ہے، کیونکہ یہ ملکی اعزاز کی اہمیت رکھتے ہیں، اس لیے ان اشیا کی قیمت کا تخمینہ مارکیٹ سے زیادہ لگایا جاتا ہے اور پھر ان کو نیلام کیا جاتا ہے۔‘

بقول امجد شاہ: ’توشہ خانہ کی اشیا نیلامی سے خریدنے کے لیے پہلا حق حکمرانوں، وزرا، سول اور فوجی افسران کو دیا جاتا ہے اور بعض اوقات عام شہریوں میں بھی فروخت کر دی جاتی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’کئی بیش قیمت تحائف ایسے ہوتے ہیں جو حکمران پہلے ہی رکھ لیتے ہیں اور ضابطے کے مطابق ان کی مقرر کردہ رعایتی قیمت ادا کر دیتے ہیں۔‘

تاہم امجد شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پہلے یہ معاملہ خاموشی سے ہوجاتا تھا، اسی لیے کئی سابق حکمرانوں کے گھروں میں بیش قیمت نوادرات یا یادگاری اشیا موجود ہیں جو ان کی شان وشوکت میں اضافے کے لیے رکھی جاتی ہیں۔‘

لیکن پھر ایسا کیسے ہوا کہ ایک سابق وزیراعظم کو ان کے دور حکومت میں ملنے والے تحائف کے معاملے پر نااہلی کا سامنا کرنا پڑا؟

توشہ خانہ اس سال صحافی رانا ابرار کی پاکستان انفارمیشن کمیشن میں دی گئی ایک درخواست کے بعد موضوع گفتگو بنا۔

رانا ابرار نے کمیشن سے درخواست کی تھی کہ وہ پاکستانی وزرا کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں، جسے منظور کرتے ہوئے انفارمیشن کمیشن نے کابینہ ڈویژن کو تحائف کی معلومات فراہم کرنے کی ہدایات دیں۔

تاہم کابینہ ڈویژن نے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا اور موقف اپنایا کہ ان تحائف کی تفصیل بتانا غیر قانونی ہے، اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

بعدازاں رواں برس 20 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایات جاری کی تھیں کہ انفارمیشن کمیشن کے فیصلے پر تعمیل کروائی جائے۔

توشہ خانہ کی بازگشت تو شروع ہو ہی گئی تھی، لہٰذا رواں برس چار اگست کو مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی محسن نواز رانجھا نے سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل 63 اور 62 کے تحت ریفرنس دائر کردیا، جو الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا اور اس کے نتیجے میں عمران خان کی نااہلی سب کے سامنے ہے۔

توشہ خانہ کے تحائف نیلام کیسے ہوتے ہیں؟

توشہ خانہ کی سیکشن آفیسر ندا رحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ملک کی اعلیٰ شخصیات کو دوسرے ممالک کے دوروں کے دوران ملنے والے تحائف کی قیمت کا تعین ایف بی آر حکام اور مقامی مارکیٹ کے ماہرین کی جانب سے کروایا جاتا ہے۔ ان قیمتوں میں ردوبدل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز تبدیل ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ندا رحمٰن کے مطابق سرکاری دورے پر جانے والی کسی بھی شخصیت کو بیرون ملک سے تحفہ ملنے پر اس چیز کو اگر وہ خود رکھنا چاہیں تو پہلے اس کی کل مالیت کی 15 فیصد رقم اور اب 50 فیصد رقم خزانے میں جمع کرانا لازم ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ان اشیا کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہے۔

عمران خان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر ان تحفوں کو الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا، لہذا وہ صادق اور امین نہیں ہیں۔

قانونی حیثیت اور سابق عہدیداروں پر مقدمات

ماضی میں سابق صدر آصف علی زرداری سمیت وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف نیب میں توشہ خانہ سے متعلق کیس بنائے گئے۔

مارچ 2020 میں نیب کی جانب سے دائر کیے گئے توشہ خانہ ریفرنس کے مطابق آصف زرداری اور نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے غیرقانونی طور پر وہ گاڑیاں حاصل کیں جو غیر ملکی سربراہان مملکت کی جانب سے انہیں بطور سربراہ مملکت تحفتاً دی گئی تھیں لیکن قانون کے مطابق عہدے پر ملنے والے غیر ملکی تحائف قومی خزانے کی ملکیت ہوتے ہیں اور ان پر ذاتی حق دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے تمام تحائف کو توشہ خانہ میں جمع کروا دیا جاتا ہے۔ تاہم نواز شریف کو دوست ملک کی جانب سے دی گئی مرسڈیز پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صرف چھ لاکھ کے عوض توشہ خانہ سے دے دی گئی۔

اکتوبر 2020 میں احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی جائیداد اور اثاثوں کی ضبطگی کا حکم دیا تھا۔

اس سے قبل اسی کیس کی ستمبر 2020 میں سماعت کے دوران احتساب عدالت نے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت چار ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو اشتہاری ملزم قرار دیتے ہوئے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور جائیداد ضبطی کی کارروائی شروع کرنے کے لیے نواز شریف کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی تفصیل تفتیشی افسر سے طلب کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان