توشہ خانہ: کیا حکمرانوں کو ملنے والے تحائف کو راز رہنا چاہیے؟

حکومت کا کہنا ہے کہ غیر ملکی تحائف کی تفصیل جاری کرنے سے ان ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، لیکن کیا ایسا ہی ہے؟

19 دسمبر ،2019 کو ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو تحفے میں دی گئی پروٹون ایکس 70 کار (ملائیشین ہائی کمیشن اسلام آباد ،ٹوئٹر اکاؤنٹ)

پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی سے ملک کی اعلیٰ شخصیات خصوصاً حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کے دوران ملنے والے بیش قیمت تحائف کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔

اس معاملے کو اس وقت زیادہ عوامی توجہ ملی جب سابق دورِ حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے غیر ملکی دوروں سے ملنے والے تحائف کی تفصیل منظر عام پر لانے کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دیا۔

اس کے ردعمل میں اس وقت کی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر عمران خان نے الزام عائد کیا کہ ان تفصیلات کو چھپانے کی وجہ سٹیٹ گیسٹ کے طور پر ملنے والے بیش قیمت تحفے مقررہ قیمت سے کم پر لیا جانا ہے۔

ان الزامات کے بعد نواز شریف کو یہ تفصیلات منظر عام پر لانی پڑی، جنہیں پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) میں جمع کروایا گیا۔

اب موجودہ حکومت نے توشہ خانہ میں رکھے غیر ملکی تحائف کی نیلامی کروائی تو ایک شہری کی درخواست پر پی آئی سی کی جانب سے حکومت کو ہدایت کی گئی تھی کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ملنے والے تمام تحفے، خاص طور پر وہ تحائف جو وزیر اعظم اور وزرا نے رکھے، ان کی تفصیل فراہم کی جائے۔

قانونی ماہرین کے مطابق حکومت یہ تفصیل جمع کروانے کی پابند بھی ہے مگر حکومت نے پی آئی سی میں یہ جواب جمع کروا دیا کہ غیر ملکی تحائف کی تفصیل سے ان ممالک کے درمیان تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، اس لیے انہیں ملکی مفاد میں جاری نہیں کیا سکتا۔

توشہ خانہ کیا ہے؟

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو  کو بتایا کہ کئی دہائیوں سے ریاستوں میں ایک خاص مقام رکھا جاتا ہے، جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداران کو ملنے والے بیش قیمت تحائف محفوظ کیے جاتے ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان میں بھی توشہ خانہ ایسی جگہ ہے جہاں دوسرے ممالک سے ملنے والے قیمتی تحائف محفوظ ہوتے ہیں۔

امجد شاہ کے مطابق: ’یہ ایسی روایت ہے جسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔ یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے ان کی نیلامی کی جاتی ہے، کیونکہ یہ ملکی اعزاز کی اہمیت رکھتے ہیں، اس لیے ان اشیا کی قیمت کا تخمینہ مارکیٹ سے زیادہ لگایا جاتا ہے اور پھر ان کو نیلام کیا جاتا ہے۔‘

’توشہ خانہ کی اشیا نیلامی سے خریدنے کے لیے پہلا حق حکمرانوں، وزرا، سول اور فوجی افسران کو دیا جاتا ہے اور بعض اوقات عام شہریوں میں بھی فروخت کر دی جاتی ہیں۔‘

امجد شاہ کے بقول: ’کئی بیش قیمت تحائف ایسے ہوتے ہیں جو حکمران پہلے ہی رکھ لیتے ہیں اور ضابطے کے مطابق ان کی مقرر کردہ رعایتی قیمت ادا کر دیتے ہیں۔‘

ان کے خیال میں: ’پہلے یہ معاملہ خاموشی سے ہوجاتا تھا، اسی لیے کئی سابق حکمرانوں کے گھروں میں بیش قیمت نوادرات یا یادگاری اشیا موجود ہیں جو ان کی شان وشوکت میں اضافے کے لیے رکھی جاتی ہیں۔‘

امجد شاہ کے مطابق: ’موجودہ حکومت کو قانون کے مطابق غیر ملکی تحائف کی تفصیل سامنے لانا ہوگی، ورنہ ان کے خلاف بھی کیس بن سکتا ہے۔‘

غیر ملکی تحائف حاصل کرنے کا طریقہ

کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری مراسلے کے مطابق سربراہان مملکت اور دیگر وزرا کو ملنے والے 170 سے زائد تحائف کو کچھ عرصہ قبل بولی کے تحت نیلام کیا گیا تھا۔ ان تحائف میں رولیکس گھڑیاں، سونے کے زیورات، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیئرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل تھے۔

مراسلے کے مطابق ان اشیا کی نیلامی میں صرف سرکاری ملازمین اور فوج کے ملازمین نے حصہ لیاتھا۔ اسی معاملے پر ایک شہری نے پی آئی سی میں موجودہ حکومت بشمول وزیر اعظم کو ملنے والے تحائف کی تفصیل مانگی اور حکومت نے ملکی مفاد میں نہ ہونے کا جواز بنا کر وضاحت جمع کرائی۔

توشہ خانہ سیکشن آفس کی ایک خاتون افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایاکہ ’یہ پہلے سے طے شدہ قانون ہے، جس کے لیے کابینہ نے منظوری دے رکھی ہے، اس لیے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ملکی اعلیٰ شخصیات کو دوسرے ملکوں کے دوروں کے دوران ملنے والے تحائف کی قیمت کا تعین ایف بی آر حکام اور مقامی مارکیٹ کے ماہرین کی جانب سے کروایا جاتا ہے۔ ان قیمتوں میں ردوبدل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز تبدیل ہو سکتی ہے۔‘

خاتون افسر نے مزید بتایا کہ ’سرکاری دورے پر جانے والی کوئی بھی شخصیت بیرون ملک سے ملنے والا تحفہ اگر خود رکھنا چاہیں تو اس کی کل قیمت کا کچھ حصہ جمع کروانا ہوتا ہے۔ یہ حصہ پہلے کسی بھی چیز کی کل مالیت کی 15 فیصد رقم پر مشتمل تھا، جسے اب بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا ہے اور اس تناسب سے رقم قومی خزانے میں جمع کروانا لازم ہوتی ہے۔‘

سابق حکمرانوں کو تحائف رکھنے پر مقدمات کا سامنا

پاکستان کے تین سابق حکمران ان دنوں توشہ خانے سے غیر قانونی طور پر تحائف حاصل کرنے پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جن میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی شامل ہیں۔

توشہ خانے سے قیمتی کاروں کی خلاف ضابطہ خریداری پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ریفرنس بنایا گیا، جس میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت پر اثر ورسوخ استعمال کرکے غیر ملکی تحائف کم قیمت پر حاصل کرنے کا ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

نیب ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے قوانین میں نرمی پیدا کرکے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو توشہ خانے سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حکومتی توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر رکھے ہیں۔

نیب ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ آصف علی زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو، لیکسس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے میں ملنے والی بی ایم ڈبلیو توشہ خانہ سے کل مالیت کے تناسب سے بھی کم قیمت میں خریدی ہیں۔

نیب پراسیکیوٹرکے مطابق آصف زرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کی ہے۔ ریفرنس میں ان بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جن سے مبینہ طور پر آصف زرداری نے ادائیگیاں کی ہیں۔

ریفرنس کے مطابق آصف زرداری گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کروانے کے بجائے خود استعمال کر رہے ہیں اور انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے عوامی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔

توشہ خانہ ریفرنس کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے توشہ خانہ سے صرف 15 فیصد رقم ادا کرکے لگژری گاڑیاں لی ہیں۔

نیب نے الزام لگایا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بددیانتی اور غیرقانونی طور پر تحفے دینے کے ضوابط میں نرمی کرکے آصف زرداری اور نواز شریف کو گاڑیوں کی الاٹمنٹ میں سہولت فراہم کی تھی۔

توشہ خانے سے تحائف غیر قانونی حاصل کرنے پر سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی پر بھی الزام تھا کہ انہوں نے کروڑوں روپے قیمت کا طلائی ہار اپنی بیوی کو رکھنے کی اجازت دے دی تھی۔

تحائف خفیہ رکھنے پر سیاسی ردعمل

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس معاملے پر منگل (21 ستمبر کو) سابق وزیراعظم نواز شریف نے پارٹی ورکرز سے ویڈیولنک کے ذریعے خطاب میں کہا تھا کہ ’جب عمران خان خود اپوزیشن میں تھے تو معیار اور تھا اور اب مختلف ہے۔ ‘

انہوں نے حکومتی جواب کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم غیر ملکی تحائف کی تفصیل منظر عام پر لاسکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں؟ ‘

نواز شریف کے مطابق یہ ملکی مفاد کے لیے نقصان دہ نہیں کہ غیر ملکی تحائف کو منظر عام پر لایا جائے بلکہ چھپانا ملکی وقار کے لیے نقصان دہ ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو غیر ملکی تحائف اور توشہ خانہ میں رکھی اشیا کی نیلامی سے متعلق تفصیل منظر عام پر لانا ہوگی۔

اس کے جواب میں وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گِل نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہاکہ ’کچھ لوگ ایسا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ توشہ خانہ ویسے ہی چل رہا ہے جیسے ن لیگ اور پی پی پی تحفے توشہ خانہ بجھواتے ہی نہیں تھے بلکہ ہڑپ کر جاتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے جب سے عمران خان آیا ہے ہر تحفہ توشہ خانے جاتا ہے۔ ریکارڈ کا حصہ ہوتا ہے اور پھر قانون کے مطابق قیمت طے کی جاتی ہے۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ماضی کے برعکس اونے پونے یا چوری کرکے تحفے غائب نہیں کیے جاتے بلکہ قانون کے مطابق اس کی قیمت طے کرکے توشہ خانہ کا ریکارڈ مرتب ہوتا ہے۔ ‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان