کراچی خود کش حملہ: ’چینی حکام نے ہزاروں فائلوں کا جائزہ لیا‘

روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق حملے کو کئی ماہ گزرنے کے باوجود پاکستانی حکام بدستور شدید تشویش کا شکار ہیں۔

کراچی میں 26 اپریل، 2022 کو پولیس کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے باہر خودکش حملے کے بعد جائے وقوعہ پر موجود ہے (اے ایف پی)

یہ ایک ایسا حملہ تھا جس سے پاکستانی حکام خوف زدہ تھے۔

ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون خودکش بمبار نے اپریل 2022 میں کراچی میں تین چینی اساتذہ کو ان کے مقامی ڈرائیور سمیت ہلاک کر کے پاکستان  کے سب سے اہم ساتھی کو نشانہ بنایا۔

خبر رساں ایجنسی روئٹر کے مطابق اس دھچکے سے بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر انیشی ایٹو  (سی پیک)کو خطرہ تھا، جوپاکستان میں سڑکوں، ریلوے، پائپ لائنوں اور بندرگاہوں کے 65 ارب ڈالر کا نیٹ ورک ہے۔

یہ چین کو بحیرہ عرب سے جوڑے گا اور اسلام آباد کو اپنی معیشت کو وسعت دینے اور جدید بنانے میں مدد فراہم کرے گا۔

پاکستان کے صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسندوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں علیحدگی پسندوں نے چین کو خبردار کیا کہ وہ پاکستان چھوڑ دے ورنہ مزید قتل عام کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اگرچہ اس حملے کو کئی ماہ گزر چکے ہیں لیکن پاکستانی حکام بدستور شدید تشویش کا شکار ہیں۔

وزارت داخلہ نے گذشتہ ہفتے رؤئٹرز کو ایک بیان میں بتایا تھا کہ ’پاکستان میں چین کے شہریوں اور اس کے منصوبوں پر حملے حکومت کے لیے شدید تشویش کا باعث ہیں۔‘

حکومت اس طرح کی عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف سرگرم عمل ہے۔

بلوچ نیشنل آرمی (بی ایل اے) ایک کالعدم گروہ ہے جس نے یہ ویڈیو جاری کی۔ یہ گروہ دہائیوں پرانی شورش کا حصہ ہے جس میں عام طور پر پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

لیکن حالیہ برسوں میں بی ایل اے نے چینی شہریوں پر حملے کیے ہیں کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ بیجنگ نے بلوچستان کے حوالے سے معاہدوں میں شامل نہ ہونے کی وارننگ کو نظر انداز کیا۔

چین وسائل سے مالا مال اس صوبے میں کان کنی اور بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں میں شامل ہے، جس میں گہرے پانی کی گوادر بندرگاہ بھی شامل ہے، یہ سب چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے۔

ویڈیو کے آغاز میں ایک نقاب پوش مسلح شخص چین سے خطاب کر رہا ہے۔ انگریزی میں بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’چین کے صدر ... آپ کے پاس اب بھی وقت ہے کہ آپ بلوچستان سے باہر نکلیں ورنہ آپ کو بلوچستان سے اس طرح نکال دیا جائے گا کہ آپ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔‘

کچھ ہی دیر بعد 30 سالہ سکول ٹیچر شری حیات بلوچ کو اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ ایک پارک میں چلتے ہوئے اور بعد میں جنگی وردی میں کیمرے سے خطاب کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

مسکراتے ہوئے اور پرسکون انداز میں 30 سالہ خاتون نے ساتھی بلوچ علیحدگی پسند جنگجوؤں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے انہیں تحریک کی پہلی خاتون خودکش بمبار بننے کا ’موقع‘ فراہم کیا۔

بیجنگ میں خدشات

وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ چینی حکام کی ایک ٹیم نے تحقیقات میں مدد کے لیے پاکستان کا دورہ کیا، جو اس بات کی علامت ہے کہ بیجنگ اس حملے میں کتنی سنجیدگی رکھتا ہے۔ پہلے اس دورے کی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔

وزارت نے کہا کہ چینی حکام نے سی سی ٹی وی فوٹیج میں اضافے اور موبائل فونز سے ڈیٹا کے حصول جیسے شعبوں میں پاکستان کی انسداد دہشت گردی فورسز کی مدد کی۔

تحقیقات میں براہ راست شامل چار پاکستانی ذرائع کے مطابق یہ ٹیم تقریبا ًدو ماہ تک ہزاروں ڈیٹا فائلوں کا جائزہ لینے کے بعد اگست کے آخر میں روانہ ہوئی تھی۔

انہیں ملنے والی معلومات نے پاکستانی حکام کو یونیورسٹی حملے کے مرکزی مشتبہ شخص کی نشاندہی میں مدد فراہم کی، جسے جولائی میں گرفتار کیا گیا تھا۔

چین کی وزارت خارجہ نے روئٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ اس سے قبل اس نے 26 اپریل کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے  مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان مجرموں کو سزا دے ، چینی شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اور اس طرح کے واقعات کو دوبارہ ہونے سے روکے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے رواں ہفتے چین کے دورے کے دوران پاکستان میں بیجنگ کے مفادات کا تحفظ ایجنڈے کا حصہ ہوگا۔

مرکزی ملزم

چاروں عہدے داروں نے کہا کہ چین کے اعداد و شمار کے تجزیے سے تفتیش کاروں کو ایک ایسے شخص تک پہنچنے میں مدد ملی جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس نے کراچی حملے کو مربوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

حکام کے مطابق 26 سالہ بلوچ علیحدگی پسند داد بخش، جو چینی اہداف پر ماضی کے حملوں میں ملوث ہونے کے شبے میں حکام کو مطلوب تھا، دسمبر2020 میں کراچی سے افغانستان کے شہر قندھار گیا تھا۔

حکام نے مزید بتایا کہ وہاں انہوں نے بم بنانے اور مسلح لڑائی کی تربیت حاصل کی اور متعدد بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں سے ملاقات کی جو اس وقت پڑوسی ملک افغانستان میں تھے۔

افغانستان کے حکمران طالبان نے، جو اس وقت مغربی افواج کے خلاف اپنی جنگ لڑ رہے تھے،  داد بخش کی سرگرمیوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

 روئٹرز آزادانہ طور پر اپریل میں ہونے والے بم دھماکوں میں ان کے مبینہ کردار کی تصدیق نہیں کر سکا۔

دو ذرائع کے مطابق داد بخش جولائی 2021 میں کراچی واپس آئے اور انہوں نے معلومات جمع کرنے کی غرض سے کے اے این یو پی پی نیوکلیئر پلانٹ پر نظر رکھنا شروع کر دی، جس کی چینی ٹیکنالوجی اور افرادی قوت کے ساتھ توسیع کی جارہی ہے اور اسے حملے کا ممکنہ ہدف سمجھا جاتا تھا۔

وزارت داخلہ نے کسی بھی ممکنہ کے اے این یو پی پی حملے کے بارے میں ایک سوال کا جواب نہیں دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیقات میں شامل ذرائع نے بتایا کہ جب یہ سہولت ناقابل رسائی ثابت ہوئی تو داد بخش کو بی ایل اے کے ایک کارکن نے ہیبین سے ملنے کا کہا، جس نے اسے بتایا کہ نیا ہدف کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ ہیں۔

داد بخش نے یونیورسٹی سے متصل ایک کیمپس میں انگریزی زبان کے ایک کورس میں داخلہ لیا تاکہ ان کی روزمرہ کی نقل و حرکت کا سراغ لگایا جاسکے۔

جنوری میں شری حیات بلوچ بلوچستان سے کراچی پہنچیں، اور وہ اور ان کے شوہر اگلے ہفتوں میں ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے۔

حکام کے مطابق بم دھماکے سے دو دن قبل 24 اپریل کو حبتین اور داد بخش شہر چھوڑ کر بلوچستان چلے گئے تھے۔ داد بخش جلد ہی یہ بیان دینے کے بعد کراچی واپس آ گئےکہ وہ حملے کے دن شہر میں نہیں تھے۔

سندھ میں صوبائی حکومت کے مشیرمرتضیٰ وہاب نے کہا کہ انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ایک مشترکہ ٹیم نے مختلف لیڈز پر کام کیا جس کے نتیجے میں جولائی میں داد بخش کو شہر سے گرفتار کیا گیا۔

سرکاری وکیل ذوالفقار علی مہر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ پولیس نے داد بخش کے خلاف انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں الزامات عائد کیے ہیں۔ وہ حراست میں ہیں اور ابھی تک انہیں کوئی وکیل نہیں ملا۔ روئٹرز ان سے رابطہ نہیں کر سکتا تھا۔

ذوالفقارعلی مہر نے کہا کہ داد بخش پر چینی شہریوں کے قتل اور ریاست کے مفادات کے خلاف حملہ کرنے کے الزام میں دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا، ’ہم انتظار کر رہے ہیں کہ عدالت ہمیں ان کے مقدمے کی سماعت شروع کرنے کے لیے کون سی تاریخ دیتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان