’اگلا نمبر کس کا ہے‘: کینیا کی پولیس ماورائے عدالت قتل کے لیے بدنام

ارشد شریف کے کینیا میں پولیس کے ہاتھوں قتل کا واقعہ پاکستان کو جھنجھوڑ گیا مگر کینیا میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔

15 اگست 2022 کو نیروبی میں کینیا پولیس کے اہل کار ایک شہری کو راستے میں روکتے ہوئے (اے ایف پی)

 کینیا کے صدر ولیم روٹو کو دفتری ذمہ داریاں سنبھالے بمشکل ایک ماہ گزرا تھا کہ انہوں نے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے ایک وسیع تحقیقاتی مرکز میں قائم ایک خصوصی پولیس یونٹ کو تحلیل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

سپیشل سروس یونٹ کے کم از کم نو افسران کو جولائی 2022 میں دو انڈین شہریوں اور ان کے کینین ڈرائیور کی گمشدگی سے متعلق الزامات کا سامنا ہے۔ روٹو کی صدارتی ڈیجیٹل مہم چلانے والی ان کی ٹیم نے انڈین شہریوں کو کینیا آنے کی دعوت دی تھی اور وہ اسی سلسلے میں وہاں موجود تھے۔

کینیا میں پولیس کے ہاتھوں شہریوں کا قتل ہونا ایک معمول کی سرگرمی ہے۔ ان کے ہاتھوں نقصان اٹھانے والوں کی اکثریت غریب، نوجوان اور جرائم یا دہشت گردی میں مبینہ طور پر ملوث مشتبہ مرد ہوتے ہیں۔

 شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم پولیس ریفارم ورکنگ گروپ نے اس سلسلے میں کچھ مواد جمع کیا۔ نیروبی میں پریس کانفرنس کے دوران مذکورہ تنظیم کی طرف سے بتایا گیا کہ ’2017 کے بعد سے کینیا میں پولیس کے ہاتھوں ایک ہزار 264 افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور237 افراد جبری طور پر لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے بعض واقعات کی ذمہ دار سپیشل سروس یونٹ تھی۔‘

 سماجی انصاف کے لیے متحرک ایک اور تنظیم متھارے سوشل جسٹس سینٹر ہے جو 2014 سے شمالی نیروبی کے ایک کم آمدنی والے علاقے متھارے میں قتل عام کے ایسے ہی واقعات کو ریاست کی اجازت سے دستاویزی شکل میں محفوظ کر رہا ہے۔ یہی کام کرنے کے لیے نیروبی کے دیگر علاقوں میں بھی ایسے مراکز قائم ہیں جہاں پولیس کے ہاتھوں غیر قانونی قتل عام کے واقعات باقاعدگی سے پیش آتے رہتے ہیں۔

متھارے سوشل جسٹس سینٹر نے 2016 میں اپنی پہلی رپورٹ ’اگلا نمبر کس کا ہے؟‘ کے نام سے جاری کی جس کے مطابق 2013 سے 2016 کے دوران پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی اوسط عمر 20 برس تھی۔ یہاں تک کہ اس میں 13 سالہ نوجوان بھی شامل تھا۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ کیسے کچھ افسران پورے علاقے میں مسلسل ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے لیے مشہور ہو چکے ہیں مگر کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں۔

اس کے باوجود مذکورہ اور دیگر اداروں کے جمع کردہ اعداد و شمار کئی وجوہات کی بنا پر مکمل تصور نہیں کیے جا سکتے۔ سب سے پہلی وجہ یہ کہ وہ ایک مخصوص علاقے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان میں صرف ایسے واقعات شامل ہوتے ہیں جن کی متعدد ذرائع سے یہ تصدیق ہو کہ وہ پولیس سے متعلقہ ہیں۔ ’پولیس سے متعلقہ‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر مقتول کو آخری بار پولیس افسران کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ زیادہ تر واقعات میں ایسے متاثرین مردہ خانے میں پائے گئے یا پھر کبھی ان کا پتہ ہی نہ چل سکا کہ وہ کہاں گئے۔

ان واقعات کا واحد ذمہ دار سپیشل پولیس یونٹ نہیں۔  ڈائریکٹوریٹ آف کرمنل انویسٹی گیشن کے تحت کام کرنے والے اداروں میں گذشتہ 13 برس کے دوران یہ تیسرا خصوصی یونٹ ہے جسے بداعتمادی کی بنا پر تحلیل کیا گیا۔ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں میں ملوث دیگر سکیورٹی اور پولیس سے وابستہ اداروں میں آرمڈ فورسٹ اینڈ گیم پارک رینجر یونٹس، کینیا کی دفاعی افواج اور انسداد دہشت گردی پولیس یونٹ شامل ہیں۔

میں 2005 سے کینیا بالخصوص نیروبی، ممباسا اور کوالے میں پولیس تشدد اور ماورائے عدالت قتل پر تحقیق کر رہی ہوں۔ میں اس تحقیق کے سلسلے میں مقامی سطح پر متحرک تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہوں۔

کئی دہائیوں سے پولیس کے ہاتھوں شہریوں کے قتل عام کے شواہد کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب میں نے حال ہی میں سماجی انصاف کے لیے آواز بلند کرنے والے کارکنوں سے صدر کے حالیہ اقدامات سے متعلق پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اب کیوں۔‘

کینیا میں پولیس کے ہاتھوں قتل عام معمول کی سرگرمی ہے اور اس کا سلسلہ 1990 کی دہائی کے اواخر سے جاری ہے، لہذا ایسا لگتا ہے کہ سپیشل سروس یونٹ کی تحلیل انصاف کے مقاصد کے لیے نہیں کی گئی۔ اس کے بجائے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پچھلی حکومت کے بااثر افسران کو نئے اور قابل اعتماد افسران سے تبدیل کرنے کی خواہش کی تکمیل کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ یہ ایسا حربہ نہیں جو پہلی مرتبہ آزمایا جا رہا ہو بلکہ کینیا پہلے بھی اس کا سامنا کر چکا ہے۔

تشدد کی جڑیں پولیس کے پورے شعبے میں پھیلی ہوئی ہیں

کینیا میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ان واقعات کی باقاعدہ تحقیقات کی جائیں۔ بالعموم اگر میڈیا کے ذریعے عوامی غم و غصے کا شدید اظہار نہ ہو یا متاثرہ شخص معروف یا بااثر ہو نہ تو بات آئی گئی کر دی جاتی ہے۔  

اس سے یہ چیز واضح ہو سکتی ہے کہ ولی کمانی، ان کے موکل اور ان کے ڈرائیور کے معاملے میں انصاف کے تقاضے کیوں پورے کیے گئے اور کس لیے دیگر ہزاروں شکایات توجہ سے محروم رہتی ہیں۔ کمانی کینیا کے ایک معروف وکیل اور حقوق انسانی کے انتہائی متحرک کارکن تھے، جنہیں جون 2016 میں اپنے ایک مؤکل اور ڈرائیور سمیت اغوا کر لیا گیا تھا اور بعد میں ان کی لاشیں دریا کے کنارے اس حالت میں ملیں کہ ان کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔

 اس سے یہ بات بھی واضح ہو سکتی ہے کہ کیوں روٹو کی مہم چلانے والے عملے کی گمشدگی کی تحقیقات پوری شد و مد سے جاری ہیں۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر 100 سے زیادہ پولیس افسران کو تحقیقات میں شامل کر لیا گیا تھا۔

نیروبی کے غریب محلوں میں آئے دن ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ سماجی انصاف کے لیے متحرک کارکنان ملنے والی لاشوں کے بڑھتے ہوئے واقعات دستاویزی شکل میں محفوظ کر رہے ہیں۔ لاشوں کے جسموں پر تشدد کے واضح نشانات ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ تمام واقعات میں ایسی براہ راست شہادت موجود ہوتی ہے جس سے پولیس کے ملوث ہونے کی تصدیق کی جا سکے لیکن منطقی لحاظ سے قابل قبول بہت سے شکوک و شبہات اسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ یہ شبہات جزوی طور پر اس لیے بھی اٹھتے ہیں کہ متعدد مرنے والے پولیس کی ’موت کی فہرستوں‘ میں شامل ہوتے ہیں۔

سماجی انصاف کے کارکنوں کے مطابق موت کی فہرستیں ناموں اور تصاویر کی صورت میں پولیس اور ان کے بامعاوضہ مخبروں کے ذریعے پھیلائی جاتی ہیں۔ جرائم کے ملزمان کی یہ فہرستیں زیادہ تر وٹس ایپ گروپس اور بعض اوقات فیس بک پر بھی گردش کرتی ہیں۔ ان فہرستوں میں شامل ہونے کے بعد بہت سے لوگ مارے جاتے ہیں۔

یہاں تک کہ ایسے واقعات میں جب ان کے ملوث ہونے کے کافی ثبوت موجود ہوں، پھر بھی ’قاتل پولیس‘ افسران کے خلاف شاذ و نادر ہی مقدمہ چلایا جاتا ہے۔

پولیس کی طرف سے مجرمانہ تشدد دیگر شہروں، ساحلی علاقوں اور کینیا کے دور دراز دیہی مقامات پر بھی ہوتا ہے۔

اس سے دراصل پولیس کے شعبے کی ساخت میں موجود خرابی کا پتہ چلتا ہے جس میں سپیشل سروس یونٹ اکلوتا بدمعاش عنصر نہیں بلکہ اس کی محض ایک علامت ہے۔

پولیس میں حقیقی اصلاحات کی ضرورت

پولیس کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف ہونے والا وسیع عوامی احتجاج ان شہری علاقوں اور غریب دیہی بستیوں سے باہر بہت ہی کم توجہ سمیٹنے میں کامیاب ہوتا ہے جہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ یہ واقعات اس کثرت سے پیش آتے ہیں کہ عوام کے لیے معمول کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بڑھتے ہوئے شواہد کے باوجود دستاویزی واقعات کا محض ایک معمولی سا حصہ عدالتوں تک پہنچتا ہے۔ مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ بہت کم مقدمات منطقی انجام تک پہنچتے ہیں۔ دو سال پہلے کینیا کی سرکاری سطح پر جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 5 ہزار 940 ایسے واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے باوجود محض چھ میں مجرموں کو سزائیں سنائی گئیں جبکہ تقریباً 75 فیصد ابھی تک زیر التوا تھے۔ یہاں تک کہ بعض مقدمات 2017 سے عدالتی کارروائی کا حصہ بننے کے باوجود کسی انجام کو نہیں پہنچ سکے۔

 سماجی انصاف کے لیے متحرک کارکنان کا کہنا ہے کہ منطقی انجام کو پہنچنے والے مقدمات کی اتنی کم شرح کے سبب گواہوں کو سامنے لانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ میں نے سماجی انصاف کے جن کارکنوں سے بات کی وہ ممکنہ پولیس اصلاحات کے بارے میں انتہائی بدظن نظر آئے۔ ڈائریکٹوریٹ آف کریمنل انویسٹی گیشنز کے ایک ڈائریکٹر کو تبدیل کر کے اس کی جگہ دوسرے ڈائریکٹر کو تعینات کرنے سے معاملات بہتر نہیں کیے جا سکتے۔ نئے صدر کے لیے پولیس کے اندر اعلی افسران کو تبدیل کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ البتہ جو چیز خلاف معمول ہوئی وہ یہ ہے کہ نئے ڈائریکٹر کا نئے صدر سے کوئی دوستانہ تعلق نہیں۔

انصاف اور امن کی طرف حقیقی پیش قدمی کا آغاز تمام پولیس یونٹوں کے اندر سالہا سال سے تشدد میں ملوث افراد کی برطرفی سے ہو گا۔ پورے کے پورے شعبے کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔

دوسری چیز یہ کہ ایسے تمام افراد جن کے دامن پر دھبے ہیں انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ تعینات کرنے کے بجائے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

میں آخر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ اصلاحات کے بعد تیار ہونے والی پولیس سروس کو مکمل طور پر شفاف ہونا چاہیے اور ان لوگوں کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے جن کی یہ خدمت پر مامور ہوتی ہے۔ تب ہی یہ ممکن ہو گا کہ پولیس سیاسی اور کاروباری اشرافیہ کے سامنے اپنی بولی لگوانے کے  بجائے مقامی برادریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کام کرے گی۔

نوٹ: یہ تحریر پہلے ’دا کنورسیشن‘ پر شائع ہوئی تھی اور اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کی مصنفہ نیومی وان سٹیپلے نیدر لینڈز کی ہیگ یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز میں پروفیسر ہیں۔ اس تحریر کے لیے ان کے شریک مصنف سیموئل کیکیرو اور پیرپیچوا کیریوکی تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا