ارشد شریف قتل: مقامی رہائشیوں نے پولیس کو کیا بتایا؟

کینیا میں تفتیشی حکام اس واقعے کے بارے میں اب تک 34 افراد سے پوچھ گچھ کر چکے ہیں، جنہیں پاکستان سے آنے والی سکیورٹی ٹیم کو دی جانے والی بریفنگ کا حصہ بنایا جائے گا۔

کینیا میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کے یوٹیوب چینل پر22  اکتوبر کو شائع ہونے والے ان کے آخری وی لاگ سے لیا گیا سکرین شاٹ

کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے جنوب مغرب میں واقع علاقے مگاڈی کے دو دیہات کے متعدد رہائشیوں نے پولیس کو پاکستانی صحافی ارشد شریف کی موت کے واقعے کے حوالے سے بیانات ریکارڈ کروائے ہیں۔

کینیا کے اخباد ’دا سٹار‘ کے مطابق مکینوں نے بتایا کہ 23 اکتوبر کی رات دس بجے سفید ٹویوٹا لینڈکروزر کار مگاڈی کے ایموڈمپ کیونیا شوٹنگ رینج سے آرہی تھی جہاں ارشد شریف کو گولی ماری گئی۔

رہائشیوں نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ انہیں اپنے علاقے کے اسسٹنٹ چیف کی طرف سے ایک رپورٹ موصول ہوئی تھی کہ مرسڈیز بینز سپرنٹر کی رجسٹریشن نمبر پلیٹ KDJ 700F مبینہ طور پر پنگانی کے علاقے سے چوری ہوئی ہے اور اسے اس علاقے میں دیکھا گیا ہے۔

پولیس نے کہا کہ رہائشیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ کمیونٹی پولیسنگ کے جذبے سے چوکنے رہیں اور ’چوروں‘ کو روکنے کے لیے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کریں۔

پولیس نے بتایا کہ خبر ملنے کے بعد گاؤں والوں نے ایسونوروا اور ٹنگا کے علاقے میں دو سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں۔

اس کے بعد انہیں اطلاعات موصول ہوئیں کہ گاڑی چند کلومیٹر دور  پولیس کے جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) کی طرف سے بنائے گئے ایک ناکے سے گزر گئی ہے، جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔

تفتیشی افسران کا کہنا ہے کہ یہ بیانات اس بریفنگ کا حصہ ہوں گے جو کینیا آنے والے پاکستانی سکیورٹی حکام کی ٹیم کو دی جائے گی۔ پاکستانی ٹیم ارشد شریف کے قتل کے واقعے کی تحقیقات میں مقامی حکام کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔

یہ ٹیم 28 یا 29 اکتوبر کو واقعے کی تحقیقات کے لیے کینیا میں موجود ہوگی۔

’دا سٹار‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی سکیورٹی ٹیم کا استقبال نیشنل انٹیلی جنس سروس اور وزارت خارجہ کے حکام کریں گے اور پھر وہ تفتیش کاروں سے بریفنگ لینے کے بعد جائے وقوعہ کا ممکنہ دورہ کریں گے۔

رپورٹ کے مطابق انہیں خرم احمد نامی ڈرائیور سے بات کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے جو واقعے کے وقت ارشد شریف کے ساتھ تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس واقعے کے بارے میں اب تک کینیا میں 34 افراد سے پوچھ گچھ کی جا چکی ہے۔

دوسری جانب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جس کار کی چوری کی رپورٹس سامنے آئی تھیں، وہ کار چوری نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کار کا ڈرائیور اپنے والد کے ساتھ جھگڑے کے بعد غصے میں پنگانی سے چلا گیا تھا۔ جب اس کے والد شاپنگ سینٹر میں خریداری کے بعد واپس آئے تو انہوں نے کار کو لاپتہ پایا اور پولیس کو چوری کی اطلاع دے دی اور اس سے پہلے کہ اس کار کا سراغ ملتا، اس کے شبے میں ارشد شریف کی گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔

دوسری جانب فائرنگ کرنے والے جی ایس یو کے پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ انہیں گاؤں کے کچھ لوگوں نے اطلاع دی کہ کار ان کی سمت جا رہی ہے۔

انہوں نے تفتیش کاروں کو فون کرنے والوں کی معلومات اور وقت بھی بتایا۔

رپورٹ کے مطابق دوسرے دیہاتی جو بظاہر چوری ہونے والی کار کا ایسونوروا میں انتظار کر رہے تھے، نے کہا کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک سفید کار چند منٹوں بعد ان کے پاس سے گزری، جس کے ٹائر بظاہر پنکچر تھے۔

یہ کار ٹنگا کے علاقے تک گئی، جہاں کیونیا کیمپ اور شوٹنگ رینج کے مالک وقار احمد کا دوسرا گھر ہے اور اس کے گیٹ پر اسے کھڑا کردیا گیا۔

مکینوں نے بتایا کہ انہوں نے کار کو دیکھا، جس میں مسافر ارشد شریف سر میں گولی لگنے سے ہلاک ہوگئے تھے جبکہ ان کا ڈرائیور محفوظ رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈرائیور نے رکنے سے پہلے 20 کلومیٹر تک گاڑی چلائی، جس کے بعد مقامی رہائشیوں نے پولیس کو فون کرکے اس کی اطلاع دی۔

30 منٹ بعد کسیرین تھانے کے پولیس اہلکار پہنچے اور ارشد شریف کی لاش کو تحویل میں لیا۔

تب تک، کاموکورو کے علاقے میں ناکے پر موجود جی ایس یو کے ایک افسر نے اطلاع دی کہ ان پر کار سے گولی چلائی گئی تھی اور ان کی بائیں ہتھیلی پر زخم آیا ہے۔

جی ایس یو کے افسران نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے ایک افسر کے زخمی ہونے کے بعد سفید گاڑی پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ارشد شریف مارے گئے۔

جس ٹیم نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا، اسے وہاں سے کوئی اسلحہ برآمد نہیں ہوا۔

واقعے کے وقت ارشد شریف کے ساتھ موجود ڈرائیور خرم احمد، شوٹنگ رینج کے مالک وقار احمد کے بھائی ہیں۔

’دا سٹار‘ کے مطابق وقار احمد سے تبصرہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے فون نہیں اٹھایا اور نہ ہی پیغامات کا جواب دیا۔

ارشد شریف کینیڈین نژاد پاکستانی خاندان کے ساتھ مقیم تھے

مقتول پاکستانی صحافی ارشد شریف کے بارے میں کینیا کی پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ وہ وہاں مقیم ایک ممتاز پاکستانی خاندان کے ساتھ گذشتہ دو ماہ سے رہ رہے تھے۔

دا سٹار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے ان کے آخری لمحات کا سراغ نیروبی میں ریور سائیڈ ڈرائیو پر واقع ایک پوش رہائش گاہ پر لگایا ہے جہاں وہ تقریباً دو ماہ تک ساتھی پاکستانیوں کے ساتھ رہے۔

باخبر حکام کے حوالے سے اخبار کا کہنا ہے کہ جس خاندان کے ساتھ وہ رہ رہے تھے ان کے پاس کینیڈا کی شہریت ہے۔

ان کا تعلق مگاڈی میں ایموڈمپ کیونیا شوٹنگ رینج کے مالکان سے بھی ہے، جہاں ارشد شریف نے 23 اکتوبر کا دن گزارا تھا اور جنہیں پولیس نے نیروبی - مگادی روڈ پر ’غلط شناخت‘ وجہ بتا کر ایک کارروائی کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

پولیس واقعے کی تحقیقات کے حصے کے طور پر مزید معلومات کے لیے اس پاکستانی خاندان سے بات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس خاندان کو معلوم تھا کہ ارشد شریف جان کے خطرے کے پیش نظر بیرون ملک مقیم ہیں۔

جو خاندان ان کی میزبانی کر رہا تھا وہ دولت مند ہے، لیکن شہر میں ان کا اثر و رسوخ کم ہے۔ یہ خاندان کاجیاڈو اور نیروبی میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اور فارم چلاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی افریقہ