ارشد شریف کیس سے جڑے خرم اور وقار کون ہیں؟

کینیا میں گاڑیوں کی درآمد کے کاروبار سے وابستہ رانا عزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’وقار احمد کے آبا و اجداد یہاں آکر آباد ہوئے اور وہ خود کو پاکستانی نہیں بلکہ کینیا کے شہری سمجھتے ہیں کیونکہ وہ یہیں پیدا ہوئے تھے جبکہ خرم احمد ان کے بھائی ہیں۔‘

وہ گاڑی جس میں معروف صحافی ارشد شریف (دائیں) کو 24 اکتوبر کو کینیا میں پولیس نے فائرنگ کرکے قتل کیا (تصاویر: عمر فیضان/ روئٹرز)

پاکستانی صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل کی تفتیش جاری ہے اور اسی سلسلے میں کینیا کے حکام نے ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے دوسرے شخص خرم احمد اور اس فارم ہاؤس کے مالک کو شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں انہوں نے اس رات وقت گزارا تھا۔

کینیا پولیس کے مطابق خرم احمد وقوعہ کے وقت اس گاڑی کو چلا رہے تھے، جس میں ارشد شریف کو پولیس نے ’غلط شناخت‘ کی وجہ سے فائرنگ کرکے قتل کیا۔

خرم احمد کے بارے میں کینیا پولیس نے ابتدائی بیان میں بتایا تھا کہ وہ مقتول ارشد شریف کے بھائی ہیں، تاہم بعد میں ارشد شریف کی اہلیہ نے واضح کیا تھا کہ مقتول کے ایک ہی بھائی تھے، جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔

ارشد شریف کے ساتھ بیٹھے شخص کے بارے میں کینیا پولیس نے یہ بھی بتایا تھا کہ واقعے کے بعد خرم احمد نے اپنے ایک دوست وقار احمد کو فون کر کے واقعے کے بارے میں اطلاع دی تھی۔ جواب میں وقار احمد نے ان کو کہا تھا کہ وہ قریبی علاقے میں واقع ان کے گھر چلے جائیں اور جب وہ وہاں پہنچے تو اس وقت تک ارشد شریف کی موت ہو چکی تھی۔

کینین میڈیا کے مطابق ارشد شریف جس گاڑی میں بیٹھے تھے، اس پر نو گولیاں برسائی گئی تھیں لیکن فائرنگ سے خرم احمد محفوظ رہے۔ کینیا میں پاکستانی ہائی کمشنر ثقلین سیدہ نے گذشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ خرم احمد زخمی نہیں ہوئے اور وہ ٹھیک ہیں۔

اس سارے واقعے کو اگر دیکھا جائے تو اس میں خرم احمد اور کینیا میں ارشد شریف کے میزبان وقار احمد نہایت اہم ہیں، جبکہ خرم تو اس کیس میں چشم دید گواہ بھی ہیں جنہیں شامل تفتیش کیا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وقار احمد اور خرم احمد (جو کینیا کے میڈیا کے مطابق آپس میں بھائی ہیں، مگر انڈپینڈنٹ اردو کو ان کے رشتے کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی) کون ہیں اور وہ کینیا میں کب سے اور کس کام سے وابستہ ہیں۔

وقوعہ کے دن ارشد شریف ایمو ڈمپ کیمپ میں

کینین میڈیا کے مطابق ارشد شریف نے وقوعہ کا دن کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر واقعے ایک دور دراز علاقے مگادی میں ایمو ڈمپ (ایمیونیشن ڈمپ) نامی کیمپ میں دن گزارا تھا۔

یہ کیمپ کینیا کی مشہور سیاحتی جگہ بھی ہے جہاں آپ جا کر اپنے لیے کمرہ بھی بک کر سکتے ہیں اور وہاں ٹھہر سکتے ہیں۔ اس کیمپ میں کوینیا نامی شوٹنگ رینج سمیت اس سے متصل ایک ڈیفنس گیئرز (دفاعی سامان) کی ایک دکان بھی واقع ہے۔

اس کیمپ میں کوینیا شوٹنگ رینج کی وجہ سے کینیا کے سکیورٹی اہلکاروں سمیت شوٹنگ کے شوقین افراد جا کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں، جس کے لیے فیس مقرر ہے۔

کیمپ میں کیمپنگ کی فیس دو ہزار، شوٹنگ رینج استعمال کرنے، رینج آفیسر اور تمام سامان کے استعمال کی فیس تقریباً 30 ہزار روپے فی کس ہے جبکہ کیمپ میں سائیکل ٹریک، تیر اندازی سمیت آف روڈنگ ٹریک بھی بنایا گیا ہے اور اسے استعمال کرنے کی بھی فیس مقرر ہے۔

اس شوٹنگ رینج کی مختلف ویڈیوز اور تصاویر بھی ایمو ڈمپ کیمپ کے انسٹا گرام اور یوٹیوب اکاؤنٹ پر موجود ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شوٹنگ کے شوقین افراد جا کر شوٹنگ رینج میں وقت گزارتے ہیں۔

اسی کیمپ میں دسمبر 2021 میں ’جمہوری شوٹ‘ کے نام سے ایک فیسٹیول بھی منعقد کیا گیا تھا جس میں کینیا کی ڈیفنس فورسز شوٹنگ کلب اور نیشنل پولیس سروسز کلب سمیت تقریباً 79 کھلاڑیوں نے شوٹنگ رینج کا دورہ کر کے وہاں شوٹنگ مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ یہ مقابلہ کینیا کی نیشنل پولیس سروس کے اہلکار ایدن محمد نے جیتا تھا۔

یہ تو کیمپ کے بارے میں چند تفصیل تھی لیکن یہ ایمو ڈمپ نامی کمپنی کیا ہے اور اس کا اس کیمپ کے ساتھ کیا تعلق ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو اوپن سورس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایمو ڈمپ لمیٹڈ نامی کمپنی کینیا میں دفاعی سامان کی سپلائی کی رجسٹرڈ کمپنی ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق یہ کمپنی کینیڈا میں رجسٹرڈ ایمو ڈمپ سکیورٹیز کارپوریشن کی ذیلی کمپنی ہے۔

کمپنی ویب سائٹ کے مطابق: ’ایک ہی سوچ رکھنے والے چند افراد نے مل کر اس کمپنی کی بنیاد 2015 میں رکھی اور ہم دفاع سے متعلق سامان سپلائی کرتے ہیں۔‘

کمپنی کی ویب سائٹ پر مگادی میں واقع ایموڈمپ کیمپ یا شوٹنگ رینج کی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی ہے تاہم ایمو ڈمپ کیمپ کے انسٹا گرام اکاوؑنٹ سمیت وٹس ایپ اکاوؑنٹ پر ای میل اور ویب سائٹ اسی کمپنی کا دیا گیا ہے۔

کمپنی کے مالک کون ہیں؟

اب ارشد شریف نے ایمو ڈمپ نامی کمپنی کے کیمپ میں وقت تو گزارا ہے لیکن اس کیمپ کے مالک کون ہیں؟ جو بظاہر وقار احمد ہیں۔

اسی سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے ایمو ڈمپ کیمپ کے رابطہ نمبر پر فون کیا اور ان سے ارشد شریف اور ایمو ڈمپ کیمپ کے مالک کے بارے میں استفسار کیا، تاہم رابطہ کرنے پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا گیا کہ وہ اس کیس کے بارے میں کوئی بھی موقف یا تفصیل فراہم نہیں کر سکتے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہم معذرت خواہ ہیں لیکن فی الحال ہم اس حوالے سے کوئی کمنٹس نہیں دے سکتے۔‘

تاہم اوپن سورس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایمو ڈمپ نامی کمپنی کے مالک وقار احمد ہیں جو مبینہ طور پر خرم احمد کے بھائی ہیں۔

کمنپیوں کی رجسٹریشن جمع کرنے والی ٹریڈ فورڈ نامی ویب سائٹ کے مطابق یہ کمپنی کینیا میں رجسٹرڈ ہے اور ملٹری سپلائز کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ کمپنی کی تعریف میں ویب سائٹ نے صرف اتنا لکھا ہے کہ یہ ’گورنمنٹ کنٹریکٹ‘ ہے اور رابطے کے کالم میں وقار احمد کا نام لکھا گیا ہے۔

’وقار کینیا کے شہری ہیں اور یہاں پر دہائیوں سے آباد ہیں‘

رانا عزیر کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور وہ گذشتہ دس سالوں سے کینیا میں گاڑیوں کی درآمد کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ارشد شریف کے قتل کی اطلاع انہیں رات کو دو بجے ملی تھی۔

رانا عزیر کینیا میں پاکستانی کمیونٹی میں سرگرم بھی ہیں اور ارشد شریف کے معاملے میں ابتدا ہی سے ہائی کمشنر سمیت دیگر حکام کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ان کے مطابق ارشد شریف کے جسد خاکی کو پاکستان بھیجنے میں انہوں نے بہت مدد کی ہے۔

رانا عزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کینیا پر جب ماضی میں انگریزوں کا قبضہ تھا اور بعد میں ان سے آزاد ہوا تو برصغیر سے بہت سے لوگ یہاں مزدوری کی غرض سے آکر آباد ہو گئے تھے، جس میں وقار احمد کا خاندان بھی تھا۔

رانا عزیر نے بتایا: ’وقار احمد کے آبا و اجداد یہاں آکر آباد ہوئے اور وہ خود کو پاکستانی نہیں بلکہ کینیا کے شہری سمجھتے ہیں کیونکہ وہ یہیں پیدا ہوئے تھے جبکہ خرم احمد ان کے بھائی ہیں۔‘

انہوں نے وقار احمد کے بارے میں بتایا کہ ’میں یہاں پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ملتا رہتا ہوں، لیکن کبھی بھی وقار احمد سے ملاقات نہیں ہوئی۔ پہلی مرتبہ کل مردہ خانے میں ان سے ملاقات ہوئی۔‘

رانا عزیر نے بتایا کہ وقار احمد نے انہیں بتایا کہ وہ یہاں پر کام کرتے ہیں اور یہاں کی ملٹری اور پولیس کو ٹریننگ دیتے ہیں جبکہ ایک شوٹنگ کلب بھی چلا رہے ہیں۔

رانا عزیر نے بتایا: ’وقار نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس اسلحہ سپلائی کے لائسنس بھی موجود ہیں اور سکیورٹی فورسز کو ملٹری گیئرز بھی سپلائی کرتے ہیں۔‘

ارشد شریف کے بارے میں جب رانا عزیر سے پوچھا گیا کہ وہ کب سے کینیا میں تھے؟ تو انہوں نے بتایا کہ وقار کے مطابق وہ گذشتہ تین مہینوں سے کینیا میں تھے اور ان کا ویزا بھی ایکسپائر ہوچکا تھا لیکن انہوں نے اپنے ویزے میں مزید تین مہینوں کے لیے توسیع کروائی تھی۔

مگدی میں موجود کیمپ کے بارے میں رانا عزیر سے جب پوچھا گیا کہ یہ علاقہ سکیورٹی لحاظ سے کیسا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال دسمبر میں انہوں نے اپنی فیملی کو پاکستان بھیجا اور انہوں نے دوستوں کے ساتھ مگادی میں موجود مشہور جھیل کی سیر کی غرض سے جانے کا منصوبہ بنایا۔

رانا عزیر نے بتایا کہ ’یہ علاقہ باقی کینیا سے بالکل مختلف اور سنسان علاقہ تھا کیونکہ باقی ملک کی طرح سبزے کی بجائے وہاں کانٹوں والے پودے اور ایک طرف ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے جبکہ سڑک کی بری حالت تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’ہم گئے تو تھے لیکن بعد میں پچھتا رہے تھے کہ یہاں نہیں آنا چاہیے تھا لیکن سکیورٹی لحاظ سے اس جگہ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اسی روڈ پر دو چھوٹے چھوٹے گاؤں مسائیوں (کینیا کے وہ لوگ جو بہت پرانی تہذیب سے وابستہ ہیں) کے ہیں اور وہ ملک میں پر امن سمجھے جاتے ہیں۔

’جب کوئی گھر میں سکیورٹی گارڈ رکھتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ کسی مسائی گاؤں کے باسی کو رکھے کیونکہ وہ چوری اور ڈکیتیاں نہیں کرتے۔‘

رانا عزیر سے جب پوچھا گیا کہ کیا وقار یا ان کے بھائی خرم کو گرفتار کیا گیا ہے تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’کل شام تک تو وہ ان کے ساتھ ارشد شریف کے جسد خاکی کو پاکستان بھجوانے کے معاملات میں مصروف تھے اور گرفتار نہیں ہوئے تھے جبکہ ان کا بھائی گھر میں تھا اور ڈرا ہوا تھا۔‘

انہوں نے بتایا: ’ہم وقار کے ساتھ ہی تھے کہ ان کے بھائی خرم کا دو مرتبہ فون آیا اور وہ ڈر رہے تھے لیکن وقار ان کو سمجھا رہے تھے کہ پولیس نے غلطی مان لی ہے اور اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔‘

رانا عزیر نے بتایا کہ بعد کی معلومات ان کے پاس نہیں ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ پوچھ گچھ کے لیے ان کو لے کر جائیں، ’لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ان کو گرفتار کیا جائے گا کیونکہ پولیس نے واضح طور پر اپنی غلطی تسلیم کی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان