ارشد شریف کی تدفین: ’کسی صحافی کا اتنا بڑا جنازہ نہیں دیکھا‘

جسد خاکی کے سرہانے ارشد شریف کی اکلوتی بیٹی تابوت کو گلے لگائے نڈھال بیٹھی تھی۔ دیگر اہل خانہ بھی تابوت کے گرد بیٹھے تھے۔

27 اکتوبر دن ایک بجے کے قریب ارشد شریف کے جسد خاکی کو ایمبولینس میں فیصل مسجد روانہ لے جایا گیا (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے معروف اینکر ارشد شریف کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے آنے والے زیادہ افراد کا کہنا تھا کہ ’ایسا جنازہ پاکستان میں پہلے کبھی کسی صحافی کا نہیں دیکھا۔‘

صحافی و اینکر ارشد شریف کو گذشتہ اتوار کی شب کینیا میں قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ان کی میت بدھ کو پاکستان پہنچی اور جمعرات کوز اسلام آباد کی فیصل مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔

فیصل مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد ارشد شریف کی ایچ الیون قبرستان میں تدفین کر دی گئی ہے۔

ارشد شریف کے جسد خاکی کو جمعرات کی صبح ہسپتال کے مردہ خانے سے گھر لایا گیا تھا۔ جہاں ان کی اہلیہ، والدہ اور پانچ بچے ان کے منتظر تھے۔

دس اگست کو گھر سے جانے کے بعد 27 اکتوبر کو ارشد شریف کی اس گھر آمد ہوئی جہاں ان کے بچے اشک بار آنکھوں سے ان کے منتظر تھے۔

ان کے بڑے صاحبزادے آج صبح بیرون ملک سے پاکستان پہنچے تھے۔

بدھ کی رات سے ہی جی الیون کی اس گلی میں پھولوں کی چادر بچھائی گئی تھی جہاں سے ارشد شریف کا جنازہ گزرنا تھا۔ ایک رات قبل ارشد شریف کی والدہ نے میڈیا پر آ کر اپیل کی تھی کہ ان کے بیٹے کا آخری سفر ایسا ہونا چاہیے کہ دنیا دیکھے اور سب پھولوں سے سجا ہو۔

انہوں نے کہا تھا کہ سب پہلے ان کے گھر آئیں اور پھر وہاں سے جنازے کے ساتھ جائیں۔

ارشد شریف کی والدہ کی یہ خواہش پوری کرنے کے لیے دور دور سے لوگ ارشد شریف کے گھر پہنچے۔

میں جب وہاں پہنچی تو دو گلیاں دور ہی گاڑیوں کی لمبی قطاریں تھیں۔ گاڑی کھڑی کر کے ہم بھی پیدل روانہ ہوئے۔ گھر کے سامنے ارشد شریف کی تصویر رکھی تھی جس کے ساتھ پھول رکھے گئے تھے۔

پھولوں کی پتیاں ہر طرف بکھری کوئی داستان سُنا رہی تھیں۔ فضا میں گلاب اور عطر کی ملی جلی خوشبو بسی ہوئی تھی جو یہ بتا رہی تھی کہ یہاں کا مکین لوٹ آیا ہے۔

گھر کے باہر میڈیا اور کیمروں کا رش تھا جبکہ اندر صرف خواتین کو جانے کی اجازت تھی یا صرف قریبی عزیزوں، دوستوں کو جانے دیا جا رہا تھا۔

گھر کے پورچ میں دیوار کے ساتھ کرسیوں پر خواتین براجمان تھیں اور سب کو لائن بنا کر ایک ایک کر کے چہرے کا دیدار کرنے دیا جا رہا تھا۔

کچن کے دروازے سے داخلہ تھا اور ایک منٹ رک کر میت کا چہرہ دیکھنے کے بعد لاؤنج کے دروازے سے لوگ باہر جا رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گھر کے لاؤنج میں کارپٹ پر سفید چادروں پر وہ سفید تابوت رکھا تھا جس میں ارشد شریف کا جسد خاکی موجود تھا۔

جسد خاکی کے سرہانے ارشد شریف کی اکلوتی بیٹی تابوت کو گلے لگائے نڈھال بیٹھی تھی۔ دیگر اہل خانہ بھی تابوت کے گرد بیٹھے تھے۔

باہر نکل کر جنازہ نکلنے کا انتظار کیا تو ارشد شریف کے حق اور انصاف کے لیے نعرے بلند ہونا شروع ہو گئے۔

لوگوں نے ہاتھوں میں پھولوں کی پتیاں اٹھا رکھیں تھیں کہ جنازہ باہر آئے تو دروازے پہ کھڑی ایمبولینس پر پتیاں نچھاور کر سکیں۔

ایمبولینس میں جب جنازہ لے جایا گیا تو چاروں بیٹے جسد خاکی کے ہمراہ موجود تھے۔

دن ایک بجے کے قریب جنازہ ایمبولینس میں فیصل مسجد روانہ ہوا۔ جس کے ہمراہ پولیس کی گاڑیاں اور سگنل جیمرز کی گاڑی بھی موجود تھیں۔

فیصل مسجد کے چاروں اطراف متعدد گلیوں میں گاڑیوں، بائیک پر سوار اور پیدل افراد کی لمبی قطاریں تھیں۔ سکیورٹی کے پیش نظر پولیس کی تین ہزار نفری فیصل مسجد اور اطراف میں تعینات کی گئی تھی۔

دو بجے نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں عوام کے جم غفیر نے شرکت کی۔

جنازے کے بعد آزادی کے نعرے، سیاسی نعرے، ’کون بچائے گا پاکستان عمران خان‘، اور ’ارشد تیرے خون سے انقلاب آئے گا‘ جیسے نعروں سے فیصل مسجد گونج رہی تھی۔

وہاں موجود لوگ کہہ رہے تھے کہ ’یہ لوگوں کے جذبات ہیں لیکن جنازے کے مقام پر کلمہ شہادت ہی ہونا چاہیے دیگر نعروں سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان