غلطی ہو سکتی ہے لیکن ہم غدار اور سازشی نہیں: ترجمان پاکستان فوج

پاکستان فوج ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ندیم انجم کے ساتھ غیر معمولی مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو 20 سال سے اپنے خون سے دھو رہے ہیں۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ندیم جمعرات کو مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے (سکرین گریب)

پاکستانی فوج کے ترجمان اور ملک کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے جمعرات کو ایک تفصیلی پریس کانفرنس میں موقف اختیار کیا ہے کہ 24 اکتوبر کو کینیا میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے مشترکہ پریس کانفرنس میں صحافی ارشد شریف کی موت، سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سائفر کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کے الزام اور ملکی اداروں پر کی جانے والی تنقید پر تفصیلی گفتگو کی۔

پریس کانفرنس کا آغاز ڈی جی آئی ایس پی آر نے کیا اور ارشد شریف کی وفات پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اندوہناک واقعہ ہے اور ہم سب اس غم میں برابر کے شریک ہیں۔

’ارشد شریف پاکستانی صحافت کا آئیکون تھے، وہ ایک فوجی کے بیٹے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد ارشد شریف کی موت اور اس سے جڑے حالات و واقعات سے آگاہی ہے۔ ’یہ پریس کانفرنس ایسے حالات میں کی جا رہی ہے جہاں حقائق کا ادراک ضروری ہے تاکہ سچ سب کے سامنے لایا جا سکے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس پریس کانفرنس کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کو خصوصی طور پر آگاہ کیا گیا ہے۔ ’ان عوامل کا احاطہ کرنا ضروری ہے، جہاں مخصوص بیانیہ بنایا گیا۔‘

مسلح افواج پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ’ہم ماضی کی غلطیوں کو 20 سال سے اپنے خون سے دھو رہے ہیں۔ ہم سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن غدار اور سازشی نہیں ہوسکتے۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سائفر کے ذریعے حکومت کی تبدیلی اور مبینہ بیرونی سازش کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 11 مارچ کو کامرہ میں سابق وزیراعظم عمران خان سے خود سائفر کے معاملے پر بات کی اور انہوں نے کہا کہ ’یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے،‘ لیکن ہمارے لیے حیران کن تھا جب 27 مارچ کو جلسے میں کاغذ لہرایا گیا۔‘

ترجمان فوج کے مطابق: ’31 مارچ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، جس میں بتایا گیا کہ یہ پاکستانی سفیر کی ذاتی اسسمینٹ تھی اور اس میں حکومت کے خلاف کسی سازش کے شواہد نہیں ملے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہم آئی ایس آئی کی فائنڈنگز کو حکومت کے سامنے لانا چاہتے تھے، جس کا فیصلہ ہم نے اس وقت کی حکومت پر چھوڑا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور مخصوص بیانیہ اپنایا گیا۔ رجیم چینج کی باتیں کی گئیں۔‘

بقول بابر افتخار: ’پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کو نشانہ بنایا گیا اور ہر چیز کو رجیم چینج سے جوڑ دیا گیا، یہی وہ وقت تھا جب ارشد شریف اور دیگر ایکٹوسٹس کو یہ بیانیہ فیڈ کیا گیا اور پاکستان اور اس کے اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔‘

ترجمان فوج نے مزید کہا کہ اس سارے معاملے میں اے آر وائی نیوز چینل کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔

’میڈیا ٹرائل میں اے آر وائی چینل نے جھوٹے اور سازشی بیانیے کے فروغ میں کردار ادا کیا، نیشنل سکیورٹی میٹنگ کے حوالے سے غلط خبر چلائی گئی، لفظ نیوٹرل کو گالی بنا دیا گیا، لیکن گمراہ کن پراپیگنڈے کے باوجود ادارے اور آرمی چیف نے تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاست دان آپس میں بیٹھ کر یہ معاملات حل کریں لیکن ایسا نہ ہوا۔‘

آئی ایس پی آر ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ارشد شریف اور دیگر صحافیوں نے بھی سائفر کے حوالے سے بنائے گئے بیانیے پر سخت باتیں کیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے دل میں ان کے خلاف کوئی نفرت نہیں۔ ہم نے ہمیشہ یہی کہا کہ بنا ثبوت ایسے الزامات ادارے کی قیادت پر نہ لگائے جائیں۔‘

ارشد شریف کو تھریٹ الرٹ اور ترجمان فوج کے چند سوالات

ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ پانچ اکتوبر 2022 کو ارشد شریف کے حوالے سے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی ہدایت پر ایک تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی نے انہیں نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن سکیورٹی اداروں سے معلومات شیئر نہیں کی گئیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا، جس سے لگتا ہے کہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا جبکہ وہ ملک سے باہر نہیں جانا چاہتے تھے۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے مزید بتایا کہ نو اگست 2022 کو کراچی سے ارشد شریف کا دبئی کے لیے ٹکٹ بک کروایا گیا جو اے آر وائی کے عہدیدار کے کہنے پر بک ہوا اور انہیں نو ستمبر 2022 کو واپس پاکستان آنا تھا۔

ترجمان فوج کے مطابق ارشد شریف کو خیبرپختونخوا پولیس نے مکمل تحفظ فراہم کیا اور انہیں باچہ خان ایئرپورٹ پر طیارے تک پہنچایا۔ اس دوران اداروں نے انہیں روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ حکومت چاہتی تو ایف آئی اے سے مدد لے لیتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس کے دوران سوالات اٹھائے کہ ارشد شریف پاکستان سے دبئی گئے اور پھر ویزا ختم ہونے پر کینیا گئے۔ ہماری اطلاع کے مطابق سرکاری سطح پر ارشد شریف کو یو اے ای چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ وہ کون تھا جس نے انہیں مجبور کیا؟ دبئی میں ان کے قیام و طعام کا بندوبست کون کر رہا تھا؟ کس نے انہیں کہا کہ وہ وطن واپس نہ آئیں ورنہ انہیں مار دیا جائے گا؟

ترجمان فوج نے کہا کہ ارشد شریف کی وفات کینیا کے دور افتادہ علاقے میں ہوئی اور کینیا کی پولیس نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا ہے۔ بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔ اس افسوس ناک واقعے کی تحقیقات ضروری ہیں۔ اس میں بین الاقوامی ماہرین کی ضرورت ہو تو انہیں بھی شامل کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت سے اس معاملے کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کی درخواست کی گئی ہے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اے آر وائے کے سی ای او سلمان اقبال کا بار بار ذکر آتا ہے اس لیے ان کو واپس ملک لاکر شامل تفتیش کرنا چاہیے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’تحقیقاتی رپورٹ کے آنے کا انتظار کیا جائے اور تب تک اداروں پر الزام تراشی سے گریز کیا جائے، آپ سے درخواست ہے اپنے اداروں پر اعتبار کریں۔‘

خیبر پختونخوا حکومت کا ردِ عمل

اس کے جواب میں خیبر پختونخوا حکومت کے معاون برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ تھریٹ الرٹ محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے جاری کیا اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا تھریٹ الرٹس جاری کرانے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے بیانات کے مطابق انہیں اور خاندان کو دھمکیاں مل رہی تھی اور سی ٹی ڈی کے تھریٹ الرٹ میں بھی یہی بات تھی، اگر تھریٹ الرٹ غلط ہوتا تو ارشد شریف کینیا میں قتل نہ ہوتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پشاور سمیت تمام ایئرپورٹس وفاق کے زیر انتظام ہیں۔ اہم سیاسی و سماجی شخصیات، سینیئر صحافیوں کو رابطہ کرنے پر پروٹوکول دیا جاتا ہے، اسی طرح ارشد شریف کو بھی پروٹوکول دیا گیا۔ 

غدار اس لیے کہا گیا کہ غیر آئینی کام سے انکار کیا: ڈی جی آئی ایس آئی

پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم جمعرات کو پہلی دفعہ منظر عام پر آئے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔

لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے صحافی ارشد شریف کے قتل کے معاملے پر گفتگو میں کہا: ’ارشد شریف قتل کیس کی غیرجانبدار تحقیقات بہت ضروری ہے۔ ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ جب وہ یہاں تھے تو ان کا ادارے سے رابطہ اور جب وہ باہر گئے تب بھی انہوں نے رابطہ رکھا۔‘

بقول ڈی جی آئی ایس آئی: ’میں اپنے کینین ہم منصب سے رابطے میں ہوں، ہم مطمئن نہیں ہیں اسی لیے حکومت نے انکوائری ٹیم بنائی ہے۔‘

ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے وزارت داخلہ نے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی، جس میں آئی ایس آئی کا بھی ایک نمائندہ شامل تھا، تاہم بعدازاں خفیہ ایجنسی کے نمائندے کو کمیٹی سے ہٹا دیا گیا تھا۔

پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ان کے ادارے کا ایک واضح موقف ہے کہ وہ آئینی حدود سے تجاوز نہیں کرے گا۔

اپنے ادارے پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے انہوں نے کہا: ’میر جعفر اور میر صادق کے القابات اس لیے دیے گئے کیونکہ ہم نے غیر آئینی کام سے انکار کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے مزید کہا کہ ’جانور، نیوٹرل اور غدار‘ جیسے نام اس لیے دیے جارہے ہیں کیونکہ فوج نے آئین کے دائرے میں رہنا پسند کیا۔

انہوں نے کہا کہ فوج کے جوان دفاع کے لیے فرنٹ لائن پر ہیں اور جھوٹ متواتر بولا جارہا ہو تو ادارے کے سربراہ کے طور پر ان کا کام ہے کہ جب ضرورت ہو تو وہ سچ بتائیں۔

آئی ایس آئی سربراہ نے کہا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ چاہتے تو اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری چھ ماہ سکون سے گزارتے مگر انہوں نے ملک اور ادارے کے حق میں فیصلہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے جانے کے بعد ادارے کی ساکھ متنازع نہ ہو۔

’اس سال اور مارچ سے ہم پر بہت دباؤ تھا مگر آرمی چیف نے فیصلہ کیا کہ وہ آئینی کردار تک رہیں گےاور اس سے نہیں ہٹیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ادارہ ’کسی گروہ یا شخص‘ کے ساتھ وابستگی نہیں دکھا سکتا۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ مارچ میں ان کی موجودگی میں جنرل باجوہ کو ملازمت میں توسیع کا ’پرکشش‘ موقع ملا تھا مگر انہوں نے وہ قبول نہیں کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے پاکستانی فوج کی قیادت پر ہونے والی تنقید کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے، میر جعفر ہے، تو آپ ماضی میں تعریفوں کے پل کیوں باندھتے تھے؟‘

لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے کہا کہ ’اگر رات کی تاریکی میں ملاقاتیں ہوتی تھیں تو یہ ہرگز موزوں نہیں کہ دن میں غدار کا لقب دے دیا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان